قربانی کی اہمیت اور اس کا تاریخی پس منظر

از قلم: مفتی محمد ثاقب قاسمی
(ناظم جامعہ اسلامیہ عزیزیہ مالیر کوٹلہ، پنجاب)
قربانی ایک عظیم الشان پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، رب کائنات کو انکی اطاعت وفرماں برداری اور امتحان میں کامیاب ہونا اتنا اچھا لگا کہ قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں پر جو صاحبِ استطاعت ہوں قربانی کرنا واجب وضروری قرار دے دیا، ویسے تو ہم سب جانتے ہیں کہ جو اللہ کا جتنا قریب اور متقی ہوتا ہے اسکو دنیا میں اتنی ہی زیادہ آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حضرات انبیاء کرام اللہ کے برگزیدہ اور مقرب بندے تھے اسلئے جو تکالیف انبیائے کرام نے اٹھائی ہیں اسکو ہم سوچ بھی نہیں سکتے، انہی انبیائے کرام میں سے ایک جلیل القدر نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں جن کو اللہ سبحانہ وتعالی نے بہت سارے طریقے سے آزمایا ہمیشہ وہ رب ذوالجلال کے امتحانات وآزمائشوں میں سو فیصد کامیاب وکامراں ہوتے رہے، اوّلا انکی پیدائش ایک بت ساز اور مورتیوں کی پوچا کرنے والے آزر نام کے ایک شخص کے گھر میں ہوئی، چاند اور سورج کے پجاری کے معاشرہ میں آپکی پرورش اور تربیت ہوئی، اللہ سبحانہ وتعالی کے حکم کے مطابق پہلے اپنے والد محترم کو اسلام کی دعوت دی اور پھر نمرود کے دربار میں اسلام کا پرچم لہرایا، اللہ کا راستہ لوگوں کو دکھاتے رہے یہاں تک کہ آپ 80 سال کے ہوگئے، آپ کی کوئی اولاد نہ تھی آپ کا کوئی غم خوار اور وارث نہ تھا آپ نبی تو تھے ہی اسلئے ناامیدی کفر ہے اس کے بارے آپ بخوبی جانتے تھے آپ نے اللہ کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلا کر کہا رب ھب لی من الصالحین (اے اللہ مجھے نیک صالح اولاد عطا کیجیئے) دعا مانگی اللہ نے نیک وصالح ہونے کے ساتھ حلیم وبردبار لڑکا حضرے اسماعیل کی شکل میں عطا فرمایا اسکے بعد بچے کو اور اسکی والدہ حضرت ہاجرہ کو وادی غیر ذی زرع میں بھی چھوڑنے کا واقعہ مشہور ہے یہ بھی خداوند قدوس کی طرف سے ایک آزمائش تھی، الغرض اسماعیل علیہ السلام جب بڑے ہوئے، ہوش مند ہوئے، والدین کی خدمت کے قابل ہوئے والدین کو یہ آرزو تھی کہ اب ہمارا بیٹا ہماری خدمت کرے گا، ہمارا سہارا اور دین کا وارث بھی بنے گا لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا امتحانات کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا، پھر ایک اور آزمائش در پیش ہوئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب میں اللہ نے اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا حکم دیا، جب باپ نے اپنے بیٹے کے سامنے خواب کو بیان کیا تو بیٹے نے کیا ہی عمدہ جواب دیا کہا کہ ابا جان آپ کو جس چیز کا حکم دیا گیا ہے آپ وہ کرگزریئے آپ مجھے انشاء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، تو ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو قربان گاہ کی طرف لے جانے لگے ادھر شیطان نے حضرت ہاجرہ کو بہکانے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس گیا وہاں بھی ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا، اپنی آنکھوں میں پٹی باندھ کر بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا کر چری تیز کرکے جب گردن پر پھیرنا چاہا تو اللہ کے حکم سے وہاں مینڈھا آگیا اسکو قربان کردیا گیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام صحیح سلامت بچ گئے، یہ قربانی اسی تاریخی واقعہ کے پس منظر میں واجب اور ضروری قرار پائی ہے، اللہ سبحانہ وتعالی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت وفرماں برداری اور امتحان وآزمائش میں کامیاب ہونا اتنا اچھا لگا کہ قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں پر جو صاحبِ استطاعت ہوں قربانی کرنے کو واجب قرار دے دیا گیا، اگر اللہ پاک نے کسی کو استطاعت اور طاقت دے رکھی ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ قربانی کرے، اس سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور جو شخص گنجائش ہونے کے باوجود قربانی نہیں کرتا تو اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شخص ہماری عید گاہ میں نہ آئے اور ہماری خوشی میں شریک نہ ہو۔
حضرت زین العرب فرماتے ہیں : عید الاضحٰی کے دن افضل عبادت قربانی کے جانور کا خون بہانا ہے، اور یہ جانور اپنے پورے وجود کے ساتھ قیامت کے دن حاضر ہوگا، اور اس کا کوئی عضو کم نہ ہوگا، جیسا کہ دنیا میں وہ اپنے مکمل اعضاء کے ساتھ تھا، تاکہ اس کے ہر عضو کے بدلہ اجر وثواب حاصل ہو، اور وہ پل صراط پر اس کی سواری بن جائے اور ہر دن کسی عبادت کے ساتھ مختص ہے، اور قربانی کا دن بھی ایک عبادت کے ساتھ خاص ہے جس کو سیدنا خلیل اللہ نے انجام دیا ہے، یعنی قربانی کرنا اور تکبیر کہنا۔
اس عظیم قربانی کی سب سے بڑی فضیلت آقائے نامدار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک فرمان میں موجود ہے۔
ایک موقعہ پر محبوب کبریا سے اصحاب رسول اللہ نے دریافت کیا:اے اللہ کے رسول! یہ قربانی کیا چیز ہے؟
سرکار دوعالم نے ارشاد فرمایا، تمہارے باپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، پھر صحابہ کرام نے استفسار کیا، اے اللہ کے پاک رسول! اس میں ہمارے لئے کیا ہے؟
آپ نے جوابا ارشاد فرمایا، اس کے ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ہے، انھوں نے عرض کیا، بھیڑ اور دنبے میں ہمارے لئے کیا ثواب ہے.؟
آپ نے ارشاد فرمایا :اون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔
اسلئے ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے قربانی کریں اور قربانی کے گوشت کو غریبوں میں تقسیم کرکے ثواب حاصل کریں، آج کل کے معاشرہ میں ایک وبا دن بدن بہت پھیل رہی ہے کہ لوگ قربانی کرتے ہیں اور اس میں نام ونمود بھی کرتے ہیں اور یہ کہتے پھرتے ہیں کہ میں نے اتنے ہزار کے اتنے لاکھ کے بکرے قربانی کیلئے خریدے ہیں، پھر اسکے بعد بکروں کو ساتھ رکھ کر کیمرہ اون کرکے بڑے ہی شوق کے ساتھ اپنی سیلفی لیتے ہیں، اسکو فیس بک، واٹس ایپ اور ٹویٹر پر اپلوڈ کرتے ہیں یہ سب نمائش اور دکھلاوا نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟
یہ دکھلاوا اللہ کو بالکل بھی پسند نہیں ہے، اور اسی طرح گوشت اور بکرے کے ذبح کی فوٹو اور ویڈیوز بناتے ہیں، اس سے بھی ہمیں بچنا چاہیئے کیونکہ اس سے ہمارے برادرِ وطن کو تکلیف ہوتی ہے، ہم انسان ہونے کے ناطے اور وطنی بھائی ہونے کے ناطے انکا بھی خیال رکھیں، اسلئے ہم قربانی خالص اللہ کو خوش کرنے کیلئے اور رضائے الہی حاصل کرنے کیلئے کریں، نام ونمود اور دکھلاوے سے مکمل احتراز کریں، اسی طرح قربانی کرنے کے بعد جانوروں کے ناکارہ اشیاء کو پھینکنے میں غفلت نہ برتیں، اسکی صفائی ستھرائی کا بھی مکمل خیال کریں،اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو اس عظیم عبادت کو انجام دینے کی زیادہ سے زیادہ توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین)
Comments are closed.