اترپردیش میں بچوں کی حالتِ زار اور یوگی سرکار..! تحریر: ڈاکٹر سلیم خان

اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے اگر پوچھا جائے کہ ’عقل بڑی یا بھینس ‘ تو کیا جواب ملے گا یہ ساری دنیا جانتی ہے اس لیے ایک اور سوال پوچھیں ۔ کورونا بڑا یا الیکشن ؟ یوگی جی کے مطابق انتخابی مہم کورونا سے بڑی ہے اس لیے کہ جس وقت کورونا کی تباہی سے لاشیں گنگا میں تیر رہی تھیں اور لاشوں کا انتم سنسکار سڑکوں پر ہورہا تھا اس وقت انہوں نے کسی اسپتال کی ضرورت نہیں محسوس کی لیکن جیسے ہی انتخاب کا بگل بجا ۔ وہ     وہ  شہریوں کی طبی سہولیت کے لئے کمر بستہ ہوگئے اور طبی سہولیات کو مزید مضبوط کرنے کی خاطر  ون ڈسٹرکٹ ون میڈیکل کالج کی پالیسی پر تیزی سے کام کرنا شروع کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ جو سہولت موجود ہی نہیں ہے اس کو مضبوط کیسے کریں گے؟ وزیر اعلیٰ  یوگی ایک دن قبل  نے صوبے کے تمام   میڈیکل کالج کا جائزہ لیا حالانکہ یہ کام ان کو اپریل میں کرنا چاہیے تھا لیکن اس وقت وہ مغربی بنگال میں راج قائم کرنے کی کوشش کررہے تھے اور اب اترپردیش میں اس کا آغاز کردیاہے۔ بنگال میں تو ناکامی ہاتھ آئی اترپردیش میں کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا ۔
اتر پردیش کی یوگی سرکا ر کی دوسری مشکل ریاست کے بچے ہیں ۔ آج کل  جن بچوں کو وہ  راحت سے لے کر آفت تک کے لقب سے نوازر  ہے ہیں  وہ فی الحال  بڑی مصیبت میں ہیں ۔ بچوں کی فلاح و بہبود کی خاطر کام کرنے والے   اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق اترپردیش میں ان کی  زندگی غیر یقینی کا شکار ہوسکتی ہے ۔ ملک بھر  میں شیر خوار بچوں کی شرح اموات یو پی میں  سب سے زیادہ سے ہے۔  یوپی میں روزانہ 5 سال سے کم عمر کے تقریباً 700 بچے لقمۂ اجل ہوجاتے ہیں اس  طرح  سال  بھر کے اندر ریاست کے تقریباً 3 لاکھ 80 ہزار بچے پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی غذائیت  کی کمی و اسہال وغیرہ کا شکار ہوکر فوت ہو جاتے ہیں ۔ یوگی جی ان بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے تو کچھ کرنانہیں چاہتے  جوصحت ، تغذیہ اور تعلیم کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں ہاں ان کی تعداد کم کرنا چاہتے ہیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔  2011 کی مردم شماری  کے مطابق  ریاست کی ایک تہائی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے ایسے میں   18 سال سے کم عمر 85.3 ملین بچوں کا تباہی کے دہانے پر کھڑاہونا حیرت کی بات نہیں ہے۔
آبادی پر کنٹرول کے معاملے میں خود  این ڈی اے میں بھی اتفاق رائے نہیں ہے۔ بہار کے  وزیر اعلی نتیش کمار کے مطابق  صرف قوانین آبادی کے اضافے پر قابو پانے میں معاون ثابت نہیں ہوں گے بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تعلیم ضروری ہے۔ان کے مطابق  یہ بات  بہت سارے تحقیقی کام کے بعد معلوم ہوئی ہے کہ اگر خواتین تعلیم یافتہ ہوں تو نسل نو کی شرح مؤثر طریقے سے کم ہوجاتی ہے۔ بہار نے لڑکیوں کے درمیان تعلیم کو فروغ دے کراس کا تجربہ کیا ہے اور کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2040 کے بعد ریاست کی  آبادی میں منفی اضافہ ہوگا۔ اترپردیش میں حزب اختلاف اس کو امن و امان کے مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیتا ہے ۔ یوپی   میں حزب اختلاف کے لیڈر رام گووند چودھری  کا کہنا ہے کہ  ’’اگر کسی کی دو بیٹیاں ہیں تو کیا وہ ایک بیٹے کی امید میں تیسرے بچے کی خواہش نہیں کرے گا۔ آبادی پر قابو پانے کا قانون پہلے ہی موجود ہے۔‘‘ اس کے نتیجے میں اسقاط حمل کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا اور بیٹے کے خواہشمند  لوگ دوسری بیٹی کا حمل گرادیں گے۔ اس بابت  قرآن کا فرمان  واضح ہے:  ’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی در حقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے‘‘۔
یہ  قانون  بے شمار  مسائل کو جنم دے گا  لیکن یوگی جی سے انتخاب جیتنے کی فکر نت نئی حماقتیں کروارہی ہے۔یوگی جی  کےاس منصوبے کو مسلم رہنماوں نے اپنی دانشمندی سے خاک میں ملادیا ۔  اس کی مخالفت کرنے کے بجائے  سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمان  شفیق الرحمن برق نے اس بل کو ’’انتخابی پروپیگنڈا‘‘ قرار دے دیا۔ انھوں نے کہا ’’وہ(بی جے پی ) ہر چیز کو ایک سیاسی زاویہ سے دیکھتی ہے۔ وہ صرف انتخابات جیتنا چاہتے ہیں اور عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ نہیں کرتی ۔ چوں کہ اسمبلی انتخابات وہ ہارہے ہیں، لہذا انھیں اس کی فکر ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم ان کو جیتنے نہیں دیں گے۔‘‘        کانگریس کے رہنما سلمان خورشید نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اتر پردیش حکومت سے پوچھا کہ وہ اس قانون کو بنانے سے قبل یہ بتائے کہ اس کے وزرا کے کتنے ’’جائز اور ناجائز بچے‘‘ ہیں۔ انھوں نے کہا ’’سیاست دانوں کو یہ بتانا چاہیے کہ ان کے کتنے بچے ہیں۔ میں بھی یہ بتاؤں گا کہ میرے کتنے بچے ہیں اور پھر اس پر تبادلۂ خیال کیا جانا چاہیے۔‘‘ اس طرح یوگی جی کے اس کی مدد سے فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کے ارادوں  پر خاک پڑگئی۔ بی جے پی کے اس کھیل کو اب مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی سمجھ چکے ہیں اس لیے وہ آسانی جھانسے میں نہیں آئیں گے۔
سلمان خورشید کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اتر پردیش میں کل 397 ارکان میں سے304  بی جے پی کے ہیں   ۔ان میں 152 کے دو سے زیادہ بچے ہیں ۔ یعنی اگر اسمبلی کے لیے بھی یہ قانون بن جائے  تو بی جےپی کے  50 فیصد  ارکان اسمبلی کالعدم قرار پائیں گے۔  ویسےایک بی جے پی رکن کے 8 بچے بھی ہیں اور ایک صاحب7 بچوں کے باپ ہیں۔ 8  ؍ایسے ہیں جنہوں نے 6؍6بچوں کو جنم دیا ہےجبکہ 15 کے5 ،   44 کے 4 اور 83 کے3 اور صرف 103 ارکان اسمبلی کے2 بچے ہیں ۔ مجموعی طورپر52 فیصد  ارکان اسمبلی کے 2 سے زیادہ بچے ہیں ۔سماجوادی پارٹی  49 میں سے55فیصد یعنی  27 کے 2  یا اس سے کم  بچے ہیں۔ دیگر جماعتوں کی بھی  کم وبیش یہی صورتحال ہے۔ ایوان پارلیمان میں جملہ  186ارکان کے دو سے زیادہ بچے ہیں ۔ان  میں سے105 کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ ایوان میں  آبادی کو کم کرنے کا  نجی  بل گورکھپور سے بی جے پی کے رکن پارلیمان روی کشن نے پیش کیا۔  وہ خود چار بچوں کے باپ ہیں۔ چونکہ  1970 سے کوئی نجی بل پارلیمان نے منظور نہیں کیا اس لیے مذکورہ  مسودے کا حشر جاننا مشکل نہیں ہے۔
ایک زمانے سے سنگھ پریوار ہندو عوام کے اندر خوف و دہشت پھیلا کر اپنی سیاسی دوکان چمکانے کی خاطر  یہ  پروپیگنڈا کرتا رہا ہے کہ 2035ء تک ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر 92.5 کروڑ ہو جائے گی جبکہ ہندوؤں کی آبادی صرف 90.2 کروڑ تک ہی پہنچ سکے گی۔ 2040 ء تک ہندو تہوار منائے جانے بند ہو جائیں گے، بڑے پیمانے پر ہندوؤں اور غیر مسلموں کا قتل عام ہو گا اور 2050 ء کے آتے آتے ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 189 کروڑ سے بھی زیادہ ہو جائے گی اور ہندوستان ایک مسلم ملک بن جائے گا۔ ہندو انتہاپسند پہلے یہ پروپیگنڈہ ڈھکے چھپے انداز میں گمنام پمفلٹس کے ذریعےیا کبھی انٹر نیٹ پر  بلاگز لکھ کر کیا کرتے تھے لیکن اب  سوشل میڈیا پر یہ کام  کھلم کھلا ہونے لگا ہے۔  اس طرح کا اشتعال انگیز شگوفہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں  بلکہ نام نہاد مہذب  یورپ کے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے بھی چھوڑا جاتا ہے۔ وہاں یہ کہا جاتا ہے کہ جس تیزی  سے مسلمانوں کی آبادی پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے، اس کی وجہ ایک دن یورپ کی جگہ ’یوربیا‘ بن جائے گا؟ مغرب میں پھلنے پھولنے والے اسلاموفوبیا کی ایک وجہ اس قسم کی  نفرت انگیزی بھی ہے۔
ہندوستان کے تناظر میں دیکھیں تو 1961 میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 10.7 فیصد تھی جبکہ ہندو 83.4 فیصد تھے ۔ 2001 ءمیں مسلمان بڑھ کر 13.4 فیصد ہو گئے اور ہندو کم ہو کر 80.5 فیصد ہی رہ گئے۔ 2011 کی رائے شماری  کے مطابق اگر مسلمان بڑھ کر 14.2 فیصد ہو گئے ہیں تو ہندوؤں کی آبادی ضرور گھٹ کر 80 فیصد سے نیچے جا سکتی ہے۔ انہی اعداد و شمار کے حوالے سے ہندوتوا بریگیڈ کے کارندے ہندوسماج  کو ڈرا اور  اکسا کر مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی شرح کے اندر گزشتہ دس سال میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔ 1991ء سے 2001ء کے 10 سالوں کے دوران مسلمانوں کی آبادی میں 29 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ 2001ء سے 2011ء کی دہائی میں یہ اضافہ صرف 24 فیصد رہا یعنی 5 فیصد کی کمی آگئی ، حالانکہ  18 فیصد کے قومی اوسط سے یہ  اب بھی زیادہ ہے۔
سرکاری  خاندان صحت قومی سروے کے اعداد و شمار کا جائزہ مذکورہ  پروپیگنڈے کا پول کھول دیتا ہے۔ اس طرح  کے تین  سروے 1991-92ء ، 1998-99ء اور 2005-06ء میں منظر عام پر آچکے ہیں ۔ ان کی مدد سے پندرہ سالوں میں تولیدی شرح، خاندانی منصوبہ بندی اور اسقاطِ حمل کے رجحان کا بہ  آسانی جائزہ لیا  جاسکتا ہے۔ 1991-92ء کے دوران ہندو خواتین کی تولیدی شرح 3.3 اور مسلمانوں کی 4.41 تھی۔ 1998-99 ءمیں ہندو خواتین یہ شرح 2.78 اور مسلمانوں میں 3.59 درج کی گئی، 2005-06 میں ہندوؤں میں 2.59 جبکہ مسلمانوں میں 3.4 رہ گئی، جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کی نسل شرح میں ان 15 سالوں کےد وران مسلسل کمی آئی ہے۔دہلی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر دنیش سنگھ نے اعدادو شمار پر مشتمل جو ماڈل تیار کروایا  تھا اس  کے مطابق  گزشتہ 70 سالوں کے دوران مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ صرف 4فیصد ہوا ہے  اور اگر پچھلے 600سال کا جائزہ لیا جائے تو ان آبادی 40 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ پائی ہے۔
ہندوستان   کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اپنی نئی کتاب میں آبادی کے حوالے سے کئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ قریشی نے لکھا ہے، ”ساٹھ برسوں میں ہندوؤں کی آبادی تقریباً چار فیصد تک کم ہوئی ہے، جو دوسرے مذاہب میں تقسیم ہوگئی۔ مسلمانوں میں تھوڑا اضافہ ہوا ہے لیکن اگر ساٹھ برس میں چار فیصد آبادی بڑھی تو اس حساب سے آبادی کو 40 فیصد بڑھنے میں چھ سو برس لگیں گے تب جاکر مسلمان ملک  کی آبادی کا پچاس فیصد ہو پائیں گے اور وہ بھی اس صورت میں  کہ جب خاندانی منصوبہ بندی  کے طریقے نہ اپنائےجائیں۔ یعنی جو لوگ روزانہ یہ خوف دکھاتے ہیں کہ جلد ہی مسلمانوں کا ملک پر قبضہ ہوجائے گا اس کا  سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘  ملک کے ہندو عوام اپنے آس پاس رہنے والے مسلمانوں  اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اس لیے ان کا اس طرح کے بے سروپا  پروپگنڈے کا شکار ہونا اب مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ہندو عوام یہ جان گئے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی  کا چال ،چرتر اور چہرہ   یکسر بدل جاتا ہے۔  سرکار بنانے سے قبل وہ کہتے ہیں کہ 30روپیہ لیٹر پٹرول دیں گے  اور بعد میں  فی لیٹر 30روپیہ ٹیکس لگا کر اسے 100 روپیہ سے مہنگا کر دیتے ہیں ۔ آبادی کا معاملہ بھی وہ  اسی طرح کے دوغلے پن کا شکار ہے ۔

Comments are closed.