تبصرہ بر (کتاب) انقلاب شام تبصرہ نگار: سلمان ندیم قاسمی

مصنف: ابو تراب ندوی
اشاعتِ دوم جون: 2015 پر مغز صفحات: 362، باقی تقریظات و حواشی
مشہور علماء و دانشوروں کی تقریظات و پسندیدگی سے مزین کتاب ہے۔ مولاناسلمان صاحب حسینی ندوی نے اپنی تحریر کا عنوان ہی ’’چشمِ ما باز کردی‘‘ دیا ہے۔ مولانا سجاد نعمانی صاحب کے مطابق ’’اس کتاب کے مطالعے سےاردو خواں طبقے کو ایسے حقائق کا علم ہوگا جو اکثریت کے علم میں نہ آئے ہوں گے‘‘۔ ڈاکٹر محمد ذکی کے مطابق کتاب پڑھنے کے بعد قاری وہ نہ رہے گا جو اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے تھا گوکہ کتاب میں حقائق سے پہلی بار پردہ نہیں اٹھایا گیا، لیکن جس معنی خیز ترتیب میں رکھ کر واقعات کے تجزیے کی ایک انتہائی حیرت انگیز دنیا آباد کی ہے وہ قاری کو تحیر میں ڈبو دیتی ہے۔ ڈاکٹر ایوب صاحب صدیقی کے بقول یہ کتاب عالم ِ اسلام کے مستقبل کے تعلق سے مغربی دنیا کی شہرہ آفاق کتاب’’تہذیبوں کا تصادم ‘‘کے ہم پلہ ہے۔ (تہذیبوں کا تصادم سیموئیل پی ہنٹنگٹن کی ہے جو ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں کتاب کا پورا نام یوں ہے ’’تہذیبوں کا تصادم اور بین الاقوامی نظام کی تشکیلِ نو ‘‘ یہ کتاب عصرِ حاضر اور اگلی صدی میں عالمی سیاست کو چلانے والی قوتوں کا تجزیہ کرتی ہے۔یہ کتاب سرد جنگ کے بعد عالمی سیاست میں ہونے والے ارتقاء کی تعبیروتفہیم ہے یعنی اس میں عالمی سیاست کے حوالے سے ایک نیافلسفہ پیش کیا گیا ہے ۔بہرحال عالمی سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب مفید ترین ہے اردو ترجمہ بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ )
بات چل رہی تھی انقلابِ شام نامی کتاب کی! مصنف نے مسلم امہ کاسیاسی و تاریخی تسلسل کا جس انداز سے ذکر کیا ہے نہایت مرتب ،منطقی نتائج کا حامل اور فکر کو وسعت دینے والا ہے ۔اس موضوع پر لکھنے والوں نے اسے خشک انداز میں لکھا مگر کتاب ہذا اس خشکی سے خالی ہے۔ اس میں ماضی کی داستانیں حال کے صفحات پر لکھی ہیں اور ایسی روشن سطریں ہیں جو اپنے مستقبل کو تاریک سمجھنے والوں کیلئے قندیلیں ہیں۔مصنف نے اپنا مفکر ہونا ثابت نہیں کیا بلکہ پڑھنے والے کو فکرمند کردیا!!مصنف نے دجالیات و قیامت کے موضوع پر لکھنے والوں کی طرح قاری کو ڈرایا یا دھمکایا نہیں! جیسا کہ ’’عصرِ حاضر کی معلومات کا بم ‘‘پھوڑنے والے بہت سے مصنفوں نے عربی ماخذ سے لے لے کر اس موضوع پر جلدوں کی جلدیں لکھ ماری ہیں! بلکہ نہایت سنجیدگی اور وقار کے ساتھ اپنا درد قاری کو عطا کیا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن یہودی و عیسائی تو تھے ہی، ابتدائے اسلام سے انکی دشمنی اور سازشیں سب کو معلوم ہیں ….مگر ایک تیسرا دشمن بھی ہمیشہ لگا رہا جس کی طرف با قاعدہ ذہن کا تبادر نہیں ہوتا اور اسے الگ موضوع سمجھا جاتا ہے۔ مصنف نے اسے خصوصا بے نقاب کیا ہے۔ زبردست دلائل کے ساتھ ایسا دشمن جس سے حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ کاش ان کے اور ہمارے درمیان آگ کا پہاڑ قائم ہوتا۔ یہ چونکا دینے والا انکشاف ہے۔ کڑیاں ہیں اور صرف نظریاتی دلائل پر مبنی نہیں بلکہ واقعات کے ثبوت کے ساتھ ملکِ شام اور اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئیاں خصوصا ابوداؤد، احمد،حاکم اور طحاوی کی اعلی درجے کی صحیح حدیث ’’ستنجدون اجنادا، جندا بالشام ،وجندا بالعراق ،وجندا باليمن‘‘ والی حدیث گویا آج کے حالات کے لئے ہی زبانِ نبوت سے ارشاد ہوئی تھی اور پھر امام احمد، طیالسی، بیہقی اور طبری کی حدیث ’’تکون النبوۃ فيکم ما شاء الله أن تکون……………….. ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ.. جیسے پوری تاریخ ان دو حدیثوں کا پس منظر و پیش منظر ہے۔ یقین جانیے آپ حیرت میں ڈوبتے چلے جائیں گے، مختلف زمانوں اور موجودہ زمانے میں ابھرنے والی مزاحمتوں اور تحریکوں، تنظیموں کا مثبت و منفی کردار تڑپا دینے اور رلا دینے والے مسلم امہ کے حالات ،خصوصا مظلوم مسلمانانِ شام کے روح خراش واقعات…. اللہ!!! آپ رو دیں گے،تڑپ جائیں گے، مچل جائیں گے، آپکی چیخیں نکل جائیں گی، شام والوں کے لئے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لیں گے…. ہر عالم کو پڑھنا چاہیے! ہر اردو داں کو یہ کتاب پڑھ کر امت کو عالمی سازشوں سے باخبر کرنا چاہیے …واقعی آنکھیں کھول دینے والی کتاب ہے۔ کتاب شروع کرنے کے بعد آپ اسے ادھورا نہیں چھوڑیں گے۔ ان کان الصواب فمن اللہ وان کان الخطا فمنی و من الشیطان۔
Comments are closed.