Baseerat Online News Portal

ہر حال میں جشن آزادی مبارک ہو !

 

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )

 

بھارت کی 135 کروڑ آبادی کو بالخصوص مسلمانوں کو 75 ویں یوم آزادی مبارک ہو ….

آج ہی کے دن ہمارے آبا و اجداد نے انگریزوں سے اپنا ملک آزاد کرایا اس دوران اپنے ترنگے کو لہرانے کی خاطر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، ہنستے ہنستے سولی پہ چڑھ گئے، طرح طرح کی اذیتیں برداشت کیں اور ایک طویل جدوجہد کے بعد ملک سے انگریزوں کو بھگانے میں کامیاب ہوئے، اُس وقت ہمارے مجاہدین آزادی کے تصور میں آزادی کو لے کر جو نقشہ بنا تھا اپنی نسلوں کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ جس بھارت کو دیکھ رہے تھے کیا وہ ہوبہو ویسا بھارت ہمیں مل پایا ہے؟ یہ اپنے آپ میں ایک بڑا اور چبھتا ہوا سوال ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جس کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔

آزادی کے ان 75 سالوں کے دوران ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟؟؟

جس ملک کے ہندو مسلم سکھ سبھی نے بلاتفریق مذہب و ملت متحد ہوکر اشفاق ، بھگت اور آزاد کی شکل میں انگریزوں کے خلاف ہلا بولا، جنگ آزادی کی تحریک چھیڑی تھی۔۔۔۔۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد وہ اتحاد و یکجہتی آخر کہاں گُم ہوگئی ؟؟

بیشک اقتدار کے نشے میں چور ہر سیاستدان نے 1947 سے لے کر آج 2021 تک ہم ہندوستانیوں کو مذہب، دھرم اور ذات پات کے خانوں میں تقسیم کر دیا اور ہم ان کے ہاتھوں کھلونا بن کر ناچتے رہے۔۔۔۔۔۔

یہاں پہ ہم کسی ایک سیاسی جماعت یا کسی مخصوص سیاستداں کا نام نہیں لیں گے کیونکہ ہماری نظر میں سبھی سیاسی جماعت اور سبھی سیاستداں کی رگوں مین بہتا خون ایک جیسا ہے تبھی ہر ایک نے اپنی اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے اور اقتدار کی لالچ میں ہم ہندوستانیوں سے آزادی کی اصل خوشی چھین کر بدلے میں تقسیم ہند کا ایسا گہرا زخم ہمارے دل و دماغ پہ لگایا جس کی کسک آج بھی وہ نسلین محسوس کرتی ہین جنہوں نے اپنے عزیزوں کو کھویا ہے ۔۔۔۔۔۔ ہر وہ گھاؤ تازہ ہے ہر وہ زخم تازہ ہے جب جب انسانی جانوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا، اور تقسیم ہند ہم ہندوستانیوں کے جسموں پہ لگا پہلا گھاؤ تھا اور آج گزرتے وقت کے ساتھ سارا جسم چھلنی ہوچکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

شاید آج وہ پاک روحیں بھی چیخ اٹھتی ہوں گی جنہوں نے آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دیا لیکن بدلے میں ہاشم پورہ، میرٹھ، مراد آباد، بھاگلپور، گجرات، مظفرنگر جیسے گھاؤ اور اپنوں کے خون سے رنگے اپنی آل و اولاد کے ہاتھ دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ چاہے وہ ہاشم پورہ میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی ہو یا گجرات، مظفرنگر اور دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی ہو ۔۔۔۔۔۔ ہر جگہ سیاسی لٹیروں نے انسانی بھیس میں چھُپے آدم خوروں کے ذریعہ کروایا اور آج خود ان لاشوں پہ تخت نشین ہیں ۔۔۔۔ اور اس تخت کے نیچے دب رہا ایک عام ہندوستانی ہے جو غریب ہے مزدور ہے جسے دور جدید میں بھی اپنے گھر اپنے گاؤں پہنچنے کے لئے ایک بس ایک گاڑی نہیں مل پائی بلکہ پیرون مین پڑے چھالون سے بہتے ہوئے خون کی پرواہ کئے بنا ، خون کو سکھادینے والی تپتی ہوئی دھوپ میں 150 ، 200، بلکہ 1000 کلومیٹر بھوکا پیاسا پیدل چلتا رہا اور اس دوران کسی نے اپنا باپ کھویا تو کسی ماں کی لاش ریلوے اسٹیشن پہ لاوارث پڑی تھی جس کے پاس معصوم بچہ کھیلتا نظر آیا ، کہیں ریل کی پٹریوں کے نیچے آکر سینکڑون مزدور قتل کردئے گئے ، تو کسی نے اپنی بانہوں میں اپنے ننھے بچون کو دم توڑتے دیکھا ہے ۔۔۔۔۔۔

آزاد بھارت مین ایک عام ہندوستانی کا حال دیکھ کر مجاہدین آزادی کی روحین بیشک تڑپ رہی ہوں گی ۔۔۔۔۔۔ اور اس دھرتی مان کی آنکھوں میں خون کے آنسو ہوں گے جس کی اولاد کئی دنوں سے سنگھو بارڈر پہ بیٹھے ظالم سرکار سے اپنے حق کی لڑائی لڑرہے ہیں اور انہیں غریب مجبور کسانوں کے بیٹے سرحد پہ کھڑے اپنی دھرتی ماں کی حفاظت کررہے ہیں اور آج انہین ان کی دیش بھگتی کا انعام کیا مل رہا ہے ؟

سرحد پہ دشمن سے لڑتے ہوئے شہادت کا خواب دیکھنے والے جوانوں پہ پلوامہ جیسا دردناک حملہ کروایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ایک طرف کسان باپ اناج اگاکر بھوکا مررہا ہے تو دوسری طرف جوان بیٹا سرحد پہ اپنا خون بہاکر بھی بھوکا ہے ۔۔۔۔۔۔

اور ہمارا پیارا بھارت ایسے فقیروں، چوکیداروں کے ہاتھ میں ہے جو یا تو دیش ویدیش کی یاترا میں مست ہین یا ملک کی عوام کو مندر مسجد کے نام پہ لڑانے مین مصروف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ جس مندر کے پجاری اور مسجد کے امام نے کبھی ایک تھالی میں کھایا کرتے تھے ، جنگ آزادی کی لڑائی ساتھ لڑی تھی آج اُنہیں اماموں کا مسجدوں مین گھُس کر قتل کیا جارہا ہے ۔۔۔۔

جہاں مہنگائی عام انسان کی کمر توڑ دے ، جہاں پٹرول ، رسوئی گیس اور دال چاول سونے چاندی کے دام پہ پہنچ جائے ، جہاں ایک مان بچون کی بھوک سے بلکنا برداشت نہ کرتے ہوئے بچوں کے ساتھ خودکشی کرلے ، جہان چوکیدار کے ہوتے ہوئے بینکوں میں رکھا عوام کا پیسہ کوئی لوٹ کر فرار ہوجائے ، جہاں گائے کے لئے ایمبولینس اور غریب مائیں اسپتالوں کے باہر سڑکوں پہ بچے پیدا کرنے پہ مجبور ہوں ، جہاں علاج نہ ملنے پہ عوام ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دین ، جہاں ایک شوہر بیوی کی لاش سائکل پہ ڈال کر لےجانے کے لئے مجبور ہو، جہاں سیاستدانوں کے بچے دیش ویدیش میں عیاشی کریں اور غریب کا بچہ امیروں کی ٹھوکرین کھائے ، جہاں عوام کو نہ عبادت کی آزادی ہے نہ کھانے کی آزادی ہے ، نہ بولنے کی نہ ہی پہناوے کی ، جہاں داڑھی ٹوپی دیکھی تو جئے شری رام کے نام پہ قتل ، فریج مین گوشت مل جائے تو گائے کے نام پہ قتل ، کسی نے اپنے حق کی بات کی ، مظلوم کی حمایت مین آواز اٹھائی تو اُس پہ ملک بغاوت کا الزام لگا کر سالو سال کی قید ، جہاں بہن ، بیٹیاں گھروں سے باہر نکلیں تو اُن کے ساتھ زیادتی کرکے راتوں رات جلادیا جاتا ہو ، دہلی کی نربھیا سے لے کر جمو، ہاتھرس، حیدرآباد تک ، 2 سال کی بچی سے لے کر 50 سال کی عورت تک محفوظ نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔ آزاد جمہوری ملک مین آج بھی ایک عورت کو چڑیل کہہ کر راستوں پہ ننگا گھمایا جاتا ہو، خونی بھیڑ پتھروں سے مار مار کر اُس کا قتل کردیتی ہو ، سرکار کی ناکامیوں پہ لکھنے بولنے والے صحافی ،قلمکارو کو گوری لنکیش، کل برگی کی طرح قتل کردیا جاتا ہو، قانوں کی محافظ کہلانے والی پولس بھی کھلے عام قانون کی دھجیاں اڑارہی ہو، پولس تحویل میں پوچھ تاچھ کے نام پہ قتل، اینکاؤنٹر کردیا جاتا ہو، جہاں انصاف سرعام کوڑیوں کے دام بکتا ہو ، جہاں عدالتوں مین مظلوم کے بجائے ظالم کے حق مین بولا جائے ، سارے ثبوت موجود ہونے کے باوجود سچ کا گلا گھونٹ کر اقتدار پہ بیٹھے تاناشاہوں کو خوش کیا جائے اور بدلے میں ممبر آف پارلیمنٹ بنادئے جائیں، جہاں قاتلوں ، دہشتگردوں اور بلتکاریوں کو رہنما لیڈر بنا دیا جائے، اُس پیار چمن کے اہل وطن کو جشن آزادی بہت بہت مبارک ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھوک سے مر رہا ہے عام انسان ۔۔۔۔۔

پھر بھی دل کہے میرا بھارت مہان ۔۔۔۔

Comments are closed.