آزادی کے ۷۵ سال اور آر ایس ایس بی جے پی و مودی کی جمہوریت
شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
بھارت کی قدیم ترین روایات میں سے ایک ’جمہوریت‘ ہے ۔۔۔
ہمارے پردھان سیوک نریندر دامودر مودی نے کبھی یہ دعویٰ عالمی اسٹیج سے کیا تھا ، یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اپنے اس دعوے کے ثبوت کے لئے ماضئ قدیم یا ماضی قریب سے کوئی مثال دینے کی ضرورت نہیں سمجھی ۔ وہ مثال دے بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ جس ’ سنگھی نظریے‘ کے مقلد ہیں ، اس میں ’ جمہوریت‘ کا کوئی تصور ہے ہی نہیں ۔۔۔ ہوبھی نہیں سکتا کہ ’ ہندوتوا‘ کا نظریہ مکمل طور پر ذات پات کے چار نظام کو مانتا بلکہ ان کی تبلیغ کرتا ہے۔ چاہے ماضیٔ بعید ہو یا ماضئی قریب ، اس ملک کے لوگوں نے مذکورہ نظام کے تحت استحصال کے جو مناظر دیکھے ہیں یا تاریخ کی مستند کتابوں میں پڑھے ہیں ، ان سے خوب واضح ہوجاتا ہے کہ بھارت میں ’ جمہوریت‘ کبھی قدیم روایت نہیں رہی ہے ۔۔۔ اور آج بھی آزادی کے ۷۵ سال بعد ، اس ملک میں جمہوریت عنقاہے، حالانکہ اس ملک کو دنیا کی سب سے بڑی ’جمہوریت‘ کہا جاتا ہے !
جمہوریت کا مطلب آزادی ہوتا ہے ۔ آزادی تحریروتقریر، مذہبی آزادی ، اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ، اوریہ تمام حقوق ، جو شخصی آزادی کے ضامن ہیں ، اس ملک کے آئین نے ہر شہری کے لیے لازمی کیے ہیں ، لیکن جب اس ملک میں ایک مسلمان آٹورکشہ ڈرائیور سے یہ کہاجاتا ہے ، اور کہا بھی اسے بے طرح سے مارتے اور پیٹتے ہوئے کہ ’ جے شری رام‘ کا نعرہ لگاؤ ، اور پولس اور ملک کے شہری تماشائی بنے رہتے ہیں ، اور حکومت کی آنکھ پر پٹی ، منھ پر تالے پڑے ہوتے ہیں ، اور عدالتیں فیصلے لیتے ہوئے اقتدار کی کرسیوں پر متمکن ’ متکبرین‘ کی طرف دیکھتی یا پھر فیصلے میں تاخیر کرتی ہیں ، تب ’جمہوریت‘ اور وہ حقوق جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے ( اگر کچھ محفوظ ہیں ) تو وہ بھی دم توڑ دیتے ہیں ۔ اورآج کے بھارت کا بے حد ننگا ’ ہندوتوا دی‘ چہرہ اپنی پوری کراہیت کے ساتھ سامنے آجاتا ہے ۔۔۔
حالیہ دنوں میں چند ایسے واقعے ہوئے ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ آزادی کے بعد ، جن مسلمانوں اور دلتوں وپچھڑوں کے آباء واجداد نے ، انگریزوں کے خلاف نعرے لگائے تھے ، تلواریں اٹھائی تھیں اوردار پر جھول گئے تھے ، ان کی اولادوں کو ’ غلام‘ بنانے کے لیے وہی کھیل کھیلا جارہا اور وہی مکروہ اقدامات کیے جارہے ہیں ، جو انگریزی حکومت کی پالیسی تھے ۔۔۔ آج کے ہندوستان پر اگر ایک نظر ڈالیں تو صورتِ حال انتہائی خوفناک نظر آتی ہے ۔ مثال دہلی کے جنتر منتر کی لے لیں ۔۔۔ بات ۸؍ اگست کی ہے جب ’ بھارت جوڑو ابھیان‘ نامی ایک ’ ہندوتوادی سنگھٹن نے، دہلی کے جنتر منتر پر جمع ہوکر مسلمانوں کے خلاف تشدد کے نعرے لگائے تھے ۔ نعرے کسقدر زہریلے تھے اس کا اندازہ اس ایک نعرے سے بخوبی ہوجاتا ہے ’’مُلّے کاٹے جائیں گے ، رام رام چلاّئیں گے‘‘۔۔۔ اس میں ایک انتہائی دل آزار نعرہ تھا’’ اللہ کاٹا جائے گا ، رام رام چلاّئے گا ‘‘۔۔۔یہ زہریلی سبھا دہلی بی جے پی کے سابق ترجمان اشونی کمار اپادھائے کی قیادت میں تھی ۔ اس میں بی جے پی کے مزید کئی لیڈر جیسے گجیندر چوہان شامل تھے ۔ اس سے قبل ۶؍اگست کو دوارکا کے علاقے میں مجوزہ حج ہاؤس کی تعمیر کے خلاف ایک احتجاج ہوا تھا ،دوارکا کا احتجاج بھی انتہائی شرانگیز تھا۔۔۔ دعوے کیے گیے کہ اگر دوارکا میں حج ہاؤس تعمیر ہوا تو اس علاقے میں ہندو خوف کی حالت میں زندگی گذارنے اور بھاگنے پر مجبور ہوجائیں گے ، دوارکا کشمیر بن جائے گا ۔ اس سے بھی قبل ہریانہ کے پٹوڈی میں بی جے پی ترجمان سورج پال کی موجودگی میں مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلی تقریریں کی گئیں ، اس پروگرام میں گوپال بھی شامل تھا جس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء پر گولی چلائی تھی۔۔۔ کانپور میں مسلم آٹورکشہ ڈرائیور کی پٹائی اور اسے جبراً ’ جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کرنا ، کیا اِن زہریلے پروگراموں کا نتیجہ نہیں ہے ؟ اس سوال کا سیدھا جواب ہے ’ ہاں‘۔۔۔ جو اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں، جو نعرے لگائے گئے ، وہ اس ملک کے مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کا ایک طریقہ ہیں ، یہ ملک کے ہندوؤں کو یہ باور کرانے کی یا ان کے دماغوں میں یہ بات بٹھانے کی ، ایک خطرناک کوشش ہے کہ اس ملک کے مسلمان ملک کے دشمن ہیں ، زہریلے ہیں ، ہندوؤں کے مخالف ہیں اس لیے ان کے خلاف ، ہر طرح سے ’تشدد‘ کا استعمال کرکے بھی ، اقدام کیاجانا چاہئے۔ مذکورہ معاملات میں گرفتاریاں بھی ہوئیں اور لوگ ضمانت پر رہا بھی ہوئے ۔ اور اشونی کمار اپادھیائے ، جو کہ سپریم کورٹ کے وکیل بھی ہیں ، نے خود کو ’بھارت جوڑو ابھیان‘ سے علیحدہ بھی کرلیا ، اور سارے شرانگیز نعروں کا الزام ’ نامعلوم افراد‘ پر تھوپ دیا ہے ، یقیناً یہ سب اپنی چمڑی بچانے کی کوشش ہے ۔۔۔ اپادھیائے پر تو این ایس اے لگنا چاہیئے تھا ، لیکن نہیں لگا ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ اگر پولس اپادھیائے کو گرفتار نہ کرتی تو اس ملک کے لوگ کیا کرلیتے؟ ظاہر ہے کہ لوگ کچھ نہیں کرسکتے تھے ۔ مگر پولس نے اپادھیائے کو گرفتار کیا، اس لیے کہ اپادھیائے کے خلاف وافر ثبوت ہیں ، پولس مقدمہ قائم کرنے پر مجبور تھی ۔ دہلی نے ابھی کچھ پہلے زبردست ’تشدد‘ برداشت کیا ہے ، لیکن لوگ پھر دہلی کو خون میں نہلانے کی تیاری میں جٹ گیے ہیں ۔۔۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اِن دنوں ’سنگھی‘ عناصر سارے ملک میں نفرت کا زہر مزید تیزی سے گھول رہے ہیں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔۔۔ دہلی کے علاوہ یوپی کی فضا بھی بہت ہی مسموم ہے ۔’ یوگی راج‘ میں مسلمانوں کے خلاف، دلتوں اور پچھڑوں کے خلاف زہرگھولا جارہا ہے ۔ جس ’ جمہوریت‘ کی وزیراعظم مودی دنیا دنیا گھوم کر ’دہائی‘ دیتے پھرتے ہیں ، جس پر اظہار فخر کرتے ہیں ، اسی ’جمہوریت‘ کا رہا سہا جنازہ اٹھانے کی پوری تیاری ہے ۔ سوال ہے کہ کیوں؟ اس کا ایک جواب تو یہی ہے کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا یہ ماننا ہے کہ لفظ ’ ہندو‘ جو ہے ’ بھارتی‘ یعنی ’ انڈین‘ یا ’ ہندوستانی‘ کا مترادف ہے۔ مطلب یہ کہ بھارت میں ’ بھارتی‘ وہی ہے جو ’ ہندو‘ ہے ، لہٰذا یہ ملک ’ہندوراشٹر‘ ہے ۔۔۔ اور جب بات ’ ہندوراشٹر‘ کی آتی ہے تو ’ جمہوریت‘ کا وجود خودبخود اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے ۔ کسی بھی صورت میں ’ جمہوریت‘ کو ’ ہندوتوا‘ کا مترادف نہیں مانا جاسکتا ۔۔۔ اور جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے کہ مودی لاکھ ’ جمہوریت‘ پر فخر کریں یہاں ہمیشہ ’غیر جمہوری‘ طریقۂ کار رہا ہے ، اور آزادی کے بعد بزرگوں نے جس ’ جمہوریت‘ کی بنیاد رکھی تھی وہ کبھی ’ سنگھی‘ عناصر کو بھائی نہیں ، نہ انہوں نے آزادی کو پسند کیا نہ ترنگے کو ، لہٰذا یہ بچی کچھی جو ’ جمہوریت‘ ہے اس کا جنازہ نکالا جارہا ہے ۔۔۔ ایک وجہ ’ پیگاسس جاسوسی معاملہ ‘ ہے ۔ مودی سرکار اس معاملے میں گلے گلے تک دھنسی ہوئی ہے لہٰذا نہ پارلیمنٹ میں بحث ہوئی، نہ اٹھنے والے سوالوں کا جواب دیا گیا ۔ سوالوں سے بچنے کے لیے اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ فضا کو زہریلا کیا جائے! تو فضا زہریلی کی جارہی ہے ۔ مودی سرکار چاروں طرف سے گھری ہوئی ہے ، پیگاسس کے علاوہ کسانوں کا احتجاج ہے ، اپوزیشن کو نظر انداز کرکے پارلیمنٹ میں منظور کیے جانے والے بل ہیں ، کورونا کی لاپروائی ہے ، اور رافیل گھوٹالے کا پھر سراٹھانا ہے ۔ اور اپوزیشن کا اتحاد علیحدہ مودی کو ڈرائے ہوئے ہے ۔ ممتابنرجی نے اور راہل گاندھی نے مودی اور بی جے پی کی ناک میں دم کررکھا ہے ۔ مودی اور بی جے پی کی پوری کوشش ہے کہ عوام کو حالات سے باخبر نہ ہونے دیا جائے ۔
اس کے لئے فضا کو زہریلا کیا جارہا ہے ۔ آنے والے ریاستی الیکشن بالخصوص یوپی اسمبلی کا الیکشن بھی ایک مسئلہ ہے ۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے راج میں جو گل کھلائے ہیںوہ سب ان کے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں ، لہٰذا مودی ، یوگی اور امیت شاہ کی تریمورتی فضا کو زہریلا کررہی ہے ۔ آنے والے دن بے حد خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ، کم از کم یوپی کے الیکشن تک ۔۔۔ لوگوں کی آزادی ، حقوق اور لوگوں کی سانسوں پر پہرے مزید سخت کیے جاسکتے ہیں ، مسلمانوں کے خلاف بھی اور دلتوں وپچھڑوں کے خلاف بھی ’تشدد‘ کو چھوٹ دی جاسکتی ہے ۔ ملک آزادی کے ۷۵ سال بعد بھی آزاد نہیں ہے ، بچی کچھی ’جمہوریت‘ دم توڑ رہی ہے ، اور شہری حقوق لوگوں سے چھینے جارہے ہیں ، اگر آئین اور جمہوریت کو اب بھی نہ بچایا گیا تو بھارت کا مستقبل بے حد تاریک ہوجائے گا ۔
Comments are closed.