مستشرقین اور اسلام

از : محمد انعام قاسمی ندوی
استشراق،مستشرق اورمشرق کا مطلب
مستشرق کے لغوی معنی آتے ہیں ،مشرقی زبان وادب اور ثقافت کا ماہر۔استشراق کا معنی ہوتا ہے مشرقی زبان وادب تہذیب وثقافت اور نظریات کا مطالعہ کرنا۔ لیکن اصطلاحی معنی میں مستشرق اس غیر مسلم مغربی یایوروپی عالم وفاضل کو کہا جاتا ہے؛ جس نے مشرقی علوم حاصل کئے ہوں اور مشرقی علوم، تہذیب وتقافت یا زبان وادب کو اپنی تصنیف وتحقیق کا موضوع بنایا ہو۔اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے جب استشراق بولا جاتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں اور عربوں کے دینی علوم یا زبان وادب اور تاریخ کو حاصل کیا اور ان کے دینی، تہذیبی، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور جغرافیائی احوال کو اپنی بحث وتحقیق کا موضوع بنایا۔
مشرق میں عام طورپراسلامی ممالک، چین وجاپان، بر صغیر اور افریقی ممالک کا شمار ہوتا ہے؛ لیکن تحریک استشراق میں عام طور پر مشرق سے مراد عالم اسلام ہوتا ہے۔تحریک ِاستشراق کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی؟ اس کے اہداف ومقاصد کیا ہیں؟ کن لوگوں نے اس کو شروع کیا؟ اس تحریک کو پروان چڑھانے ، آگے بڑھانے اور اس کے افکار و نظریات کی نشر واشاعت کیلئے کن کن وسائل کا استعمال کیا گیا؟دنیا پر اور خاص طورپر عالمِ عربی اور عالمِ اسلامی پر استشراق کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ انہیں ساری چیزوں کو اس مضمون میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تحریک ِاستشراق
استشراق ایک ایسی تحریک ہے جو مغرب میں پیدا ہوئی ؛ جس کا اصل مقصد اسلا م اور مسلمانوں کو زیر کرنا تھا، اور اس مقصد کے حصول کیلئے ا س نے علم کے راستے کو اپنایا، اسلامی اور عربی علوم کو حاصل کیا، ان کو اپنی بحث وتحقیق کا موضوع بنایا، ان میں تصنیفات وتالیفات کیں، اسلامی مآخذ ومصادر کو مشکوک اور بے اعتبارثابت کرنے کی کوشش کی۔
دراصل اہل ِمغرب کو عمومی اور حکومتی سطح پر مسلمانوں سے براہِ راست سابقہ صلیبی جنگوں میں پڑا، یوروپ کا یہ وہ دور تھا؛ جس کو عہدِ ظلمت (Dark Ages)سے جانا جاتا ہے، یوروپ اس دور میںبقول یوروپی مؤرخین جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، مذہب کے نام پر تحریف شدہ عیسائیت یوروپ میں رائج تھی اور مذہبی جدل وجدال کا دور دورہ تھا، یوروپ اس وقت صحیح علوم، سائنس، ٹیکنالوجی، میڈیکل، انجینئیرنگ، تاریخ اور تہذیب وثقافت ہر طرح کے علوم سے کوسوں دور تھا؛جس کی تصدیق سلطان صلاح الدین ایوبی کے سفیر اسامہ بن منقذ کے سفرنامے سے ہوتی ہے۔ ادھر عالمِ اسلام کا حال یہ تھا کہ نہ صرف بڑے چھوٹے شہر ؛ بلکہ گاؤں دیہات تک علوم کی روشنی سے جگمگا رہے تھے، دینی علوم سے لیکر دنیاوی علوم سائنس، ٹیکنالوجی ، طب، تہذیب وثقافت ، تاریخ اور زبان وادب میں ہر طرح کے بے شمار اہل ِعلم ہر جگہ موجود تھے، حکومتی اور بڑے بڑے جامعات کی لائبریریوں کے علاوہ اہل ِعلم کی بے شمار ذاتی لائبریریاں شہرو ں اور قصبوں کو چھوڑ کر گاؤں دیہاتوں تک میں پھیلی ہوئی تھیں، سائنس ٹیکنالوجی اور طب کے میدان میں مسلمان بے شمار ایجادات کر چکے تھے۔اسلامی دور میں ایک ہزار ایک ایجادات نامی کتاب (One thousand and one Inventions) اور اسطرح کی دوسری تحقیقات میں یہ ساری چیزیںدیکھی جاسکتی ہیں۔
لوئی نہم کی وصیت
صلیبی جنگوں کے زمانے میں جب یوروپین اقوام کو مسلمانوں سے براہِ راست سابقہ پڑا تو انہوں نے اپنی اس تہذیبی، ثقافتی اور علمی کمزوری اور خامی کو بخوبی محسوس کیا، صلیبی جنگوں میں شکست کھانے کے بعد اہل ِیوروپ کو یہ احساس ہو ا کہ ہم میدانِ جنگ میں مسلمانوں کو زیر نہیں کرسکتے؛ اسلئے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہئے، تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے کہ فرانس- جو صلیبی جنگوں میں یوروپ کی قیادت کررہا تھا- کے بادشاہ لوئی نہم نے مسلمانوں کو زیر کرنے کی ایک تجویز اہلِ یوروپ کے سامنے پیش کی؛ جس کو لوئی نہم کی وصیت کے طورپر بھی یاد کیا جاتا ہے؛ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں شکست نہیں دی جاسکتی؛ کیونکہ ان کی ایمانی اور روحانی طاقت ایک ایسا عنصر ہے ؛ جس کا کوئی بدل ہمارے پاس نہیں ہے، لہذا ہمیں ایسی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے ؛جس سے ہم ان کے روحانی اور ایمانی عنصر کا خاتمہ کرسکیں، اسلامی معاشرہ میں دین بیزاری، اخلاقی بے راہ روی اور کفر والحاد تک کو پھیلا سکیں،قرآن وحدیث اور دینی علوم سے ان کے رشتہ کو ختم کرسکیں، اگر ایسا ہوجائے تو ہم مسلمانو ںپر غلبہ حاصل کرسکتے ہیں۔
استشراق کے اسباب
ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانو ںسے علوم کا حصول اور اسلام دشمنی یہی وہ دوبنیادی چیزیں ہیں؛ جن کے پیٹ سے استشراق نے جنم لیا، صلیبی جنگوں میں اپنے تہذیبی، ثقافتی اور علمی افلاس اور اہل اسلام کے عروج کو دیکھ چکے اہل یوروپ نے مسلمانوں سے ہر طرح کے علوم حاصل کرنا شروع کئے، یہاں تک کہ شرعی علوم بھی پڑھے اور مسلمانوں نے اس عطا وبخشش میں کسی طرح کے بخل اور تعصب سے کام نہیں لیا؛جیسا کہ ماضی میں بہت سی اقوام نے کیا اور آج بھی بہت سے تعلیمی شعبوں میں ہے؛ بلکہ اہل یوروپ کو ہر طرح کے علوم سے نوازا، اہل یونان کے علوم -جن کا تحفظ مسلمانوں نے کیا تھا- بھی انہوں نے مسلمانوں سے حاصل کئے۔ پہلے پہل تو صرف حصول ِعلم کا مسئلہ تھا ، اسلام دشمنی کا عنصر کوئی خاص واضح نہیں تھا؛جبکہ ابتداء اً ان علوم کو یوروپ میں پھیلانے اور چرچ کو ان کے فوائد پر مطمئن کرنے میں بھی یوروپ کے اہل علم کو کافی مشقتیں اٹھانی پڑیں اور پورے یوروپ کو ادھر متوجہ کرنے میں ایک عرصہ لگ گیا؛ لیکن جب اہل حکومت اور اہل مذہب مطمئن ہوگئے تو تمام علمی اداروں میں عربی زبان وادب اور مشرقی علوم کے شعبے قائم کردئے گئے؛ اسی عرصہ میں انہوں نے ہر طرح کے علوم کا ایک بڑا ذخیرہ یوروپین زبانوں میں منتقل کرڈالا، ایک تحقیق کے مطابق پندرھویں صدی عیسوی تک تقریباً چارسو کتابیں عربی سے انگریزی اور یوروپی زبانوں میں منتقل ہوگئی تھیں، چھ صدیوں تک عربوں کی کتابیں یوروپی یونیورسٹیوں میں نصاب کی بنیاد رہیں اور یوروپ ان کو اپنا علمی مآخذ سمجھتا رہا، خاص طورپر رازی، زہراوی، ابن رشد، ابن سینا اور دیگر مسلم فلاسفہ کی کتابیں انگریزی میں منتقل ہوئیں؛ اس طرح جب یوروپ مسلمانوں کے علوم سے بھر گیا اور خوب مالا مال ہوگیا تو اس میں تعصب کا عنصر بھی پیدا ہوگیااور یہ مغربی علماء وفضلاء مغربی تہذیب وثقافت ، عیسائیت کی برتری اور اسلام اور مسلمانوں کی کمتری اور کہتری ثابت کرنے میں لگ گئے، دراصل یہیں سے حقیقی معنوں میں تحریک استشراق کی شروعات ہوتی ہے، اسی کے ساتھ ساتھ اسی فکر کے تحت مشنری تحریک بھی پیدا ہوئی، جو خود ایک مستقل مضمون کا موضوع ہے۔
تحریک میں شدت
اٹھارویں صدی عیسوی میں اسلام دشمنی کا عنصر بہت قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا، اسلامی علوم پر بحث وتحقیق کی آڑ میں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کام ہونے لگا، اسلام کی تصویر کو مسخ کرنے ، اس کے مآخذ ومصادر کو کمزور کرنے اور شکوک وشبہات پیدا کرنے کی راہ پر کام ہونے لگا۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ مستشرقین کے فکر وفلسفہ کے اثرات اور ان کے طریقۂ کار پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی مشہور کتاب -مسلم ممالک میںاسلامیت اور مغربیت کی کشمکش – میں لکھتے ہیں،’’ مستشرقین کا تاثر صرف ان کی ذات تک محدود نہیںاگر تنہا یہ پہلو ہوتا تو وہ ہماری توجہ کا مرکز اور ہماری اس بحث کا موضوع نہ ہوتا، مسئلہ کا سنگین اور دوررس پہلو یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو معقول وغیر معقول طریقے پر ان کمزوریوں کی نشاندہی اور ان کو مہیب شکل میں پیش کرنے میں صرف کرتے ہیں، وہ خوردبین سے دیکھتے ہیں اور اپنے قارئین کو دوربین سے دکھاتے ہیں، رائے کا پربت بنانا ان کا ادنی کام ہے، وہ اپنے اس کام میں (یعنی اسلام کی تاریک تصویر پیش کرنے میں) اس سبک دستی، ہنر مندی اور صبر وسکون سے کام لیتے ہیں؛ جس کی نظیر ملنی مشکل ہے، وہ پہلے ایک مقصد تجویز کرتے ہیں اور ایک بات طے کرلیتے ہیں کہ اس کو ثابت کرنا ہے، پھر اس مقصد کیلئے ہر طرح کے رطب ویابس، مذہب وتاریخ، ادب، افسانہ، شاعری، مستند وغیر مستند ذخیروں سے مواد فراہم کرتے ہیں اوروہ جس سے ذرا بھی مطلب برآری ہوتی ہو،خواہ وہ صحت واستناد کے اعتبار سے کتنا ہی مجروح ومشکوک اور بے قیمت ہو، اس کو بڑے آب وتاب سے پیش کرتے ہیں‘‘۔حضرت مولانا آگے لکھتے ہیں،’’ قرآن ، سیرت ِنبویؐ، فقہ وکلام، صحابۂ کرامؓ، تابعین، ائمۂ مجتہدین، محدثین وفقہاء، مشائخ وصوفیاء، رواتِ حدیث، فن ِجرح وتعدیل، اسماء الرجال، حدیث کی حجیت، تدوین ِحدیث، فقہِ اسلامی کے مآخذ، فقہِ اسلامی کا ارتقاء، ان میںسے ہر موضوع کے متعلق مستشرقین کی کتابوں اور تحقیقات میں اتنا تشکیکی مواد پایا جاتا ہے جو ایک ایسے ذہین اور حساس آدمی کو جو اس موضوع پر وسیع اور گہری نظر نہ رکھتا ہو، پورے اسلام سے منحرف کردینے کیلئے کافی ہے‘‘۔مستشرقین کے ترجمان رسالہ ’’العالم الاسلامی‘‘(The Muslim World 1911)کے پہلے شمارے میں رسالہ کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے مشہور مستشرق زویمرلکھتا ہے کہ’’اس میگزین کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنا، اسلامی عقائد ومسلمات کی غلط شبیہ پیش کرنا، مسلمانوں کی نئی نسل کو ان کے دین سے متنفر وبیزار کرنا، قرآن وحدیث پر مسلمانوں کے اعتماد کو کمزور کرنا اور عیسائیت کی دعوت دینا ہے‘‘۔
مستشرقین کا کام
مولانا علی میاں صاحبؒ نے جوموضوعات شمار کرائے وہ بطورِ مثال ہیں،مستشرقین نے اسلامی موضوعات پر اتنا تحریری کام کیا کہ کتابوں کے انبار لگادئیے، لائبریریوں کی لائبریریاں تیار کردیں، اپنے مقاصد کے حصول کیلئے انہوں نے علوم اسلامیہ میں خوب غواصی کی؛ لیکن جہاں انہوں نے اپنے نظریات اور مقاصد کے تحت بے شمار نئی کتابیں تیار کیں وہیں ضمناًبے شمار مخطوطات کو بحث وتحقیق کے بعد شائع کیا اور بے شمار ایسی کتابیں جو عالم اسلا میں ناپید ہوچکی تھیں، ان کے مخطوطات کو ڈھونڈ دھونڈ کر اپنی ریسرچ وتحقیق کے ساتھ شائع کیا۔ علامہ شبلیؒ -مقالات ِشبلی- میں رقمطراز ہیں: ’’ہم نہایت فیاض دلی سے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یوروپ کو آج کل ہمارے علوم وفنون سے جو اعتنا ہے اور جس طرح وہ ہمارے قدیم خزانوں کے بیش بہانوادر ڈھونڈ کر پیداکررہا ہے، ہم خود نہیں کرتے؛ بلکہ نہیں کرسکتے، مسلمانوں کو بھی معلوم نہیں کہ آج تک یوروپ نے عربی کی کون کون سی نایاب کتابیں اہتمام کے ساتھ شائع کی ہیں‘‘۔
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
یوروپ نے ہماری یادگاروں کو زندہ کرنے میں اور جو کام کیے ہیں وہ کیا کم ہیں، انہی کی بدولت فن حرب کی وہ کتاب شائع ہوئی؛ جس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں نے اس فن کے علمی اصول مرتب کیے تھے، اور ان کا فنِ جنگ موجودہ فن کا مکمل خاکہ تھا، یوروپ کی بدولت زہراوی کی کتاب فنِ تشریح کے متعلق چھپ کر شائع ہوئی؛ جس میں کئی سوآلاتِ سرجری کی تشریح، تصویریں اور ان کے استعمال کے طریقے درج کیے ہیں، پیٹ میں مرے ہوئے بچے کے نکالنے کے بیسوں آلات کے نقشے دے کر ان کے استعمال کے طریقے بتائے ہیں، یوروپ ہی کی بدولت تاریخ طبری، طبقات ابن سعد، اور تاریخ الحکماء وغیرہ کا پتہ لگا جو گویا دنیا سے ناپید ہوگئی تھیں،اس تمام اعتراف کے باوجود حقیقت یہ ہیکہ انہوں نے یہ کام اسلام کی محبت میں نہیں بلکہ ضمناً اور اپنے کام کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے کیا، انہوں نے اپنے مقصد اور نظریات سے سرِمو انحراف نہیں کیا اور اپنی تحقیقات وتصنیفات میں وہی اسلام پیش کیا جو ان کے مقصد کی تکمیل اور ان کے نظریات کی آبیاری کرتا ہے۔
وسائل
مستشرقین نے اپنے کام کیلئے جن وسائل کا استعمال کیا ؛ان میں تعلیمی ادارے، تصنیف وتالیف، اکیڈمیاں، اشاعتی ادارے، پریس، رسائل ومجلات، مشنریز کا قیام ،دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں محاضرات کا نظام، استشراقی مضامین کی اشاعت، عربی معاجم ولغات کی تیاری، کانفرنسوں کا انعقاد، علمی اداروں اور اکیڈمیوں کی ممبر شب اور ہر طرح کے ذرائع ابلاغ وغیرہ ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ عرب ممالک اور اسلامی دنیا میں مختلف ناموں سے استشراقی اور مشنری اداروں کا قیام بھی ہے؛ جنہوں نے مقامی اداروں کے تعاون واشتراک سے کام کیا، اسلامی ذہنیت کو سیوتاژ کرنے اور اسلام مخالف ذہن تیار کرنے میں اہم رول ادا کیا اور مسلمانوں کی ایک نسل کو اسلام کے خلاف کھڑا کردیا۔
تحریک کے اثرات
یہ ہے وہ اسلام جو مستشرقین نے دنیا کے سامنے پیش کیا، جو دراصل ایک الگ ہی اسلام ہے؛ جس کا حقیقی اسلام سے کوئی واسطہ نہیں، اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس کو یوروپ اور مغربی دنیا کی تعلیم گاہوں (اسکول، کالج اور یونیورسٹی) میں سب سے زیادہ پڑھا پڑھایا جاتا ہے، اور اس کے ایک ایک جزئیہ اور کلیہ پر ریسرچ اور تحقیقات کی جاتی ہیں؛ لیکن ان تمام تحقیقات اور تعلیم کے مصادر ومراجع یہی مستشرقین کی کتابیں ہوتی ہیں؛ بلکہ نہ صرف یوروپ اور امریکہ ،مشرقی ممالک ، بر صغیر اور خود عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں بھی مستشرقین کی بے شمار کتابوں کو مصادر ومراجع اور استناد کی حیثیت حاصل ہے۔ غیر مسلم دنیا اسلام کو انہیں مستشرقین کی کتابوں سے پڑھتی ہے ، وہیں سے اسلام کا تعارف حاصل کرتی ہے؛ اسی طرح عصری تعلیمی ادارے، کالج اور یونیورسٹیوں میں اسلام کی تعلیم انہیں مستشرقین کی کتابوں کے ذریعہ دیجاتی ہے۔ اگرچہ مستشرقین میں ایک تعداد انصاف پسند علماء وفضلاء کی بھی ہے، جو اپنے موضوع اور بحث وتحقیق کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرتے ہیں؛ لیکن ان کی تعداد محدود ہے اور ان کی بات کو بھی وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو متعصبین کی تحقیقات کو حاصل ہے۔ موجودہ دنیا میں اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے میں جہاں اور دوسری چیزیں ہیں وہیں اس تحریک کوبھی بڑی اہمیت حاصل ہے، اور اس کے اثرات نہ صرف یہ کہ غیر مسلم دنیا پر بہت شدید پڑے ؛ بلکہ اس تحریک نے عالم اسلام کے فکری نظام، علمی نظام، سیاسی اور سماجی ہر طرح کے نظام کو دولخت کردیا۔ آج عالم اسلام میں جو اسلام مخالف ایک بڑا طبقہ، اور سیاسی قیادت میں ایک بڑی تعداد دہریے، ملحدین، یوروپ اور مغرب کے ہمنواؤں کی ہے، اس کی پیداور میں اس تحریک کا بڑا اہم کردار ہے۔ دنیا کی عصری تعلیم گاہوں میں اسلام کو پڑھنے والا اسلام کی وہ تصویر دیکھتا ہے جو مستشرقین دکھانا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب ان تعلیم یافتہ لوگوں میں سے کوئی اسلام قبول کرتا ہے تو وہ یہ بات ضرور کہتا ہے کہ حقیقی اسلام اس اسلام سے بالکل مختلف ہے جو ہمیں کالج اور یونیورسٹی میں پڑھا یا گیا تھا۔
دنیا میں تعداد میں دوسرے نمبر پر ہونے اور سینکڑوں مسلم ممالک ہونے کے باوجود کیا ہم نے اس تحریک کا سنجیدگی سے جائزہ لیا؟ اس کے مقابلے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی؟ اس کے اثرات کو ختم کرنے یا اس کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی کام کیا گیا؟ یہ تمام سوالات آج بھی حل طلب ہیں۔
مزید تفصیلات کیلئے درج ذیل کتابیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
۱۔ مسلم ممالک میں اسلامیت اورمغربیت کی کشمکش از ۔مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ
۲۔اسلامیات اور مغربی مستشرقین از ۔مولاناسید ابوالحسن علی ندویؒ
۳۔الاستشراق والمستشرقون از۔ ڈاکٹر مصطفی سباعی
۴۔التبشیر والاستعمار فی البلاد العربیۃ از۔ مصطفی خالدی وعمر فروخ
۵۔ مجلۃ المجتمع کویت
۶۔عالمِ اسلام پر مغرب کا تسلط ،اسباب ونتائج از۔ مولانا محمد وثیق ندوی
Comments are closed.