حکومت کی تین سالہ کارکردگی اور بے بس عوام

اسد اللہ رانا
آج کل تحریک انصاف اپنی تین سالہ کارکردگی کے سلسلے میں تقریبات میں مصروف ہے حکومتی وزراء اور ترجمان اسے شاندار طریقے سے بیان کرتے نظر آرہے ہیں اور حکومتی راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے سرکاری تقریبات میں ترقی کے اشاریوں کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے حاکم وقت اور مشیران حاکم کے بیان سن کر دل مطمئن اور راحت و سکون کا احساس ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس عام آدمی کے حالات دن بدن خراب تر ہو رہے ہیں پٹرولیم مصنوعات،ایل پی جی،بجلی،ادویات سمیت اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ انتہائی تشویشناک اور لمحہ فکریہ ہے حکومت کی لاغر رٹ کو چیلنج کرتی ہوئی چینی کی قیمتیں بھی کنٹرول سے باہر ہیں روٹی کپڑے کے بعد عام انسان کا بنیادی حق گھر کے خواب کو بھی چکنا چور کر دیا گیا ہے 50 لاکھ گھر دینے کا وعدہ کرنے والی حکومت نے پراپرٹی پر پینتیس فیصد تک ٹیکس لگا کر لوگوں سے چھت چھیننے کا منصوبہ بنا لیا ہے صرف بجلی ہی کی قیمتوں میں تین سالوں میں 25 بار اضافہ کیا گیا ہے دوسری طرف غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے بھی عوام کا جینا محال کر دیا ہے صنعتیں بند اور عوام بے روزگار ہو رہے ہیں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہوگئے ہیں ایک طرف کرونا وائرس نے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے تو دوسری طرف مختلف قسم کے مافیاوں نے اشیائے خوردونوش کو ناجائز طور پر ذخیرہ کر کے بحران پیدا کر دیا ہے ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ محدود آمدنی میں گزارا کر رہے ہیں اور ان کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان لوگوں کو حکومتی تین سالہ کارکردگی کے بلند و بانگ اقتصادی اشاریوں سے کیا لینا دینا عوام تو کبھی آٹے اور چینی کی لائنوں میں تو کبھی ادویات بجلی وپٹرول کی فکر میں بے حال ہے عمران خان جن کو وزیراعظم بننے کی خواہش صرف اس لئے تھی کہ وہ اس ملک سے غربت کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں دینا چاہتے تھے وہ صرف پاکستانیوں کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کے باہر کے لوگوں کو بھی نوکریاں دینا چاہتے تھے وہ لوگوں کو اپنا گھر عزت و وقار کی زندگی اور پرسکون ترقی یافتہ ملک دینا چاہتے تھے مگر ان کا یہ خوبصورت خواب ادھورا ہی رہ گیا ان کی تین سالہ کارکردگی غربت مکاو سے تبدیل ہو کر غریب مکاؤ میں بدل چکی ہے حکومتی وزراء کا بیان اکثر سننے کو ملتا ہے کہ سابقہ حکمرانوں کا گند صاف کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور ہم اپنے دور حکومت میں ملک کی سمت کو درست کریں گے کیونکہ پانچ سالوں میں تبدیلی نہیں آسکتی ۔
کیا عمران خان کے 18 سالہ سیاسی جدوجہد اور تین سالہ حکومتی دور گزارنے کے بعد اس قسم کی بیان حیرت انگیز نہیں کیا عمران خان صاحب کو اندازہ نہیں تھا کہ ملک کو یورپ جیسا ترقی یافتہ بنانے کے لیے پانچ سالہ دور اقتدار انتہائی ناکافی ہے؟ اور اس کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہے؟ اور یہ عظیم انکشاف حکومت کو اب ہوا ہے اور اب حکومتی ارکان جگہ جگہ اس قسم کی وضاحتیں پیش کر رہے ہیں مسئلہ دراصل یہ ہے کہ جب تک عوام کی بھاگ دوڑ خواصوں سے چھین کر عوام جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ دی جائے گی تب تک غریب عوام کی دکھوں کا مداوا ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ لیڈر بننا سیاست کرنا امیروں کا کھیل کاروبار اور شغل میلہ بن چکا ہے آسائشوں سے بھرپور اور آسودہ بچپن گزارا کر خاندانی سیاسی بزنس کے وارث بن کر غریب عوام کے لیڈر کے طور پر ایوانوں میں بیٹھ کر غریبوں کے لئے فیصلے اور قانون سازی کریں گے تو ملک کے یہی حال ہوں گے عمران خان کے اردگرد یہی لوگ موجود ہیں جو کہ ہر آنے والی حکومت کا حصہ بن کر اسی قسم کے رٹے رٹاے بیان دینے کے کاریگر ہیں اور ہم عوام اپنے ان ناخداؤں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں اور نسل در نسل بیبس و لاچار عوام ہی رہتے ہیں ریاست اداروں کا مجموعہ ہوتی ہے تمام ادارے ریاست کو جواب دیں اور ماتحت ہوتے ہیں بدترین عوامی مسائل کے تدارک اور حل پر مامور ان اداروں میں بھی وہ لوگ موجود ہیں جن کا خواص جیسی مخلوق سے مضبوط تعلق ہے اور وہ کیوں کر عوام کی بھلائی چاہیں گے افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے اور حکومت میں آنے کے بعد کا جو کامیاب اور ہٹ فارمولا جو پہلی حکومتیں اپناتی رہیں موجودہ حکومت کا بھی یہی وطیرہ رہا اب بھی بے بس عوام ہی تختہ مشق بنی ہوئی ہے بے روزگاری اور کرپشن کے ستائے عوام نے عمران خان کے ساتھ امیدیں وابستہ کر لی تھی کہ وہ کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل اور عوام کو ریلیف فراہم کریں گے لیکن اب عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ان تین سالوں میں مہنگائی میں مزید کیوں اضافہ ہو رہا ہے وزیراعظم اور ان کے وزراء جب قوم کو مشکل صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے اچھے مستقبل کی نوید سنا رہے ہوتے ہیں تو عوام کے اصطراب میں اضافہ ہوتا ہے کہ یہی تسلیاں تو سابق حکمران بھی دیتے تھے اس لیے ان میں اور موجودہ حکمرانوں میں کیا فرق ہے اب وزراء بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے لیکن عملی اقدامات صفر ہیں حکمرانوں کے وعدے اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ غریب آدمی کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
Comments are closed.