شدت پسندی کی وجوہات

افرہ ثمن
شدت پسندی کیا ہے؟ شدت پسندی کا لفظ ذہن میں آتے ہی کسی کھردری اور تیز چیز کا احساس ہوتا ہے۔ آج تک شدت پسندی کا لفظ سنتے آئے ہیں۔لیکن اس کی وجوہات کیا ہیں یہ جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ شدت پسندی کیا ہے اس کی تعریف کو سمجھنا ہوگا۔کسی بھی جارحانہ رویے کو شدت پسندی کا نام دے سکتے ہیں۔کسی دوسرے پر زبردستی اپنی مرضی مسلط کرنا شدت پسندی کا رویہ ہوتا ہے۔ یہ کسی ایک فرقے کا دوسرے فرقے پر بھی ہو سکتا ہے۔یا کسی عمل کا ردعمل جو اس سے بڑھ کر ہو اسے شدت پسندی کا نام دے سکتے ہیں۔کسی کام کی طاقت کی بنا پر مزاحمت کرنا جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے مخالفت کرنا شدت پسندی کے زمرے میں آتا ہے۔شدت پسندی کو ہم انتہا پسندی بھی کہتے ہیں۔شدت پسندی مختلف نوعیت کی ہوتی ہے۔مذہبی شدت پسندی، سیاسی شدت پسندی، ادبی شدت پسندی اور اس کے علاوہ یہاں تک کہ آجکل ہمارے گھروں میں بھی شدت پسندانہ رویہ ہوتا ہے۔مردوں کا گھر کی عورتوں پر زبردستی کرنا ان کی مرضی کی مزاحمت کرنا اور اپنی مرضی زبردستی ان پر مسلط کرنا شدت پسندی کے دائرہ کار میں آتا ہے۔
لیکن ہم ہر سخت رویے کو شدت پسندی کا نام نہیں دے سکتے۔اب اگر اسلام ہمیں دس سال کے بچے کو زبردستی نماز پڑھوانے کا حکم دیتا ہے تو اگر ماں باپ زبردستی کریں تو وہ شدت پسندی تو نا ہوئی نا کیوں کہ شریعت اس چیز کا حکم دے رہی ہے۔اگر شدت پسندی کی وجوہات کی بات کریں کہ ہمارے معاشرے میں اس کے اسباب کیا ہیں تو اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں ۔ایک وجہ شریعت سے دوری ہو سکتی ہے ہمیں خود دین اسلام کے بارے میں صیح اور ساری معلومات ہوتی نہیں ہیں اور ہم دوسروں پر فتویٰ لگا رہے ہوتے ہیں۔فتوے لگاتے ہوئے اگلے انسان یا ایک گروہ کی تذ لیل کر رہے ہوتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ہمارا رویہ کتنا کھردرا ہے شریعت اس چیز کا حکم دیتی بھی ہے یا نہیں دیتی۔
اسلام تو اتنا پیارا دین ہے کہ آیات میںاحادیث میں جگہ جگہ نرمی کا حکم ہے۔لیکن ہم سب تمام احکامات بھلا کر کسی نہ کسی جگہ پر شدت پسندانہ رویہ اختیار کیے ہوتے ہیں۔حدیث میں آتا ہے۔
”الٰہی اس شخص پر رحم کر جو میری امت پر رحم کرے اور اس شخص پر سختی کر جو اس پر سختی کرے،چھوٹے سے چھوٹا فرقہ اپنے سے کم تر کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔سیاسی گروہ بندیاں بھی شدت پسندی کی وجہ ہیں۔ اور اگر عالمی سطح کی بات کریں تو عالمی سطح پر سیاسی حالات نے جو رخ اختیار کیا ہے اس سے مسلمان ردعمل کا شکار ہو گئے ہیں یہی ردعمل شدت پسندانہ رویہ اختیار کر لیتا ہے۔اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ سے بے حیائی کا سرعام پرچار نے بھی نوجوانوں کو ردعمل پر آمادہ کیا ہے یہ ردعمل بھی جارحیت پر مبنی ہے۔بہرحال اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ اس پہ قابو کیسے پایا جائے۔سیاسی مذہبی اور ادبی سطح پر ایسی سرگرمیوں سے گریز کیا جائے جس میں عدم برداشت کا پہلو ہو سوشل میڈیا کے ذریعے مثبت مواد کو عام کیا جائے۔ علماء کی زیر نگرانی لوگوں کو دین اسلام کی صیح معلومات فراہم کی جائے۔اس طرح کی اور تدابیر اختیار کر کے شدت پسندی کے بڑھتے رحجان کو کم کیا جا سکتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ پاک شدت پسندی سے محفوظ رکھے۔اور اعتدال پر چلنے کی توفیق دے۔آمین ثم آمین

Comments are closed.