اللہ رے سناٹا آواز نہیں آتی

ظفر لکھیم پوری
دارالعلوم الرحمانیہ حیدرآباد
جس سرد مہری کا مظاہرہ ملی ،سیاسی ، دینی جماعتوں اور قائدین کی طرف سے اس وقت کیا جارہا ہے اس کی امید کبھی نہیں کی جاسکتی تھی، آئے دن مسلم نوجوانوں کو ماب لنچنگ کی بھینٹ چڑھا کر سر عام درندگی ،بزدلی اور حیوانیت کی ساری حدیں پار کرنے والوں کو کھلی چھوٹ مل رہی ہے ۔
مسلمانوں کو ہراساں کرنے، ذہنی تناؤ بڑھانے ،ڈر ، خوف اور دہشت پیدا کرنے کے لئے ویڈیوز بنا کر بڑے پیمانے پر عام کی جارہی ہیں تاکہ یہ قوم ذہنی طور پر غلامی کے ہاتھوں خود سپردگی اختیار کرلے ۔
بھارت سیکولرزم کا علمبردار ہے جہاں قانونی طور پر ہر مذہب کے لوگوں کواپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی اجازت ہے، لیکن انتہاء پسندی اور مسلمان اوراسلام دشمنی اس قدر شدید ہوتی جارہی ہے کہ اب مذہب کی تبلیغ بھی جرم شمار ہونے لگی ہے؟
عمر گوتم صاحب کی گرفتاری ہوئی تو خوب شور مچا لیکن پھر ایک دم خاموشی چھاگئی ، اندازہ تھا کہ زعفرانی غنڈے کسی بڑے شکار سے پہلے سمندر میں کتنا شور ہے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں ، اوریہی ہوابھی ۔
پھر اس کے چند مہینوں بعد ہی معروف عالم دین ،داعی اسلام مولانا کلیم صدیقی صاحب کو غیر قانونی طریقے سے گرفتار کرلیا گیا ، بغیر کوئی جرم ثابت ہوئے تفتیش کے نام پر 14 دن پولیس ریمانڈ پر بھی بھیج دیا گیا ، اس کے بعد پھر وہی شور ، وہی دبے لفظوں اظہار ناراضگی ، دو چند احتجاجی مظاہرے ، اور پھر مکمل سناٹا اور ہو کا عالم ،کوئی پرسان حال نہیں ، کوئی حکومت سے سوال کرنے کو تیار نہیں کہ یہ سب غیر قانونی کھیل کیوں کھیلے جارہے ہیں ؟؟؟
قارئین !!!
اپنے خیمے میں پھیلی ہر سمت مکمل خموشی ، مکمل سرد مہری ، سناٹا اور سکوت سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ قیادت کس زبوں حالی کا شکار ہے ؟ بے موقع لب کشائی کرنے والی سیاسی قیادتیں اس وقت یکطرفہ خموش تماشائی بنی ہوئی تماشہ بینوں کی صفوں میں کھڑی ہیں ،ملت کا ایک بڑا طبقہ مایوسی کا شکار ہے ،ملت کا وہ حلقہ جو آفت اور پریشانی کی صورت میں امید لئے بیٹھا ہوتا تھا اس وقت تشویش ناک صورتحال کا شکار ہے ،اگر ایسا ہی چلتا رہا تو قوم خود اپنے قائدین سے نا امید ہو جائے گی ، مسلم تشخص کی بنیاد پر اگر مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا تو کمزور طبقے کی ایک بڑی تعداد کے اسلام اور ایمان سے انحراف کا دور شروع ہوسکتا ہے کیونکہ اپنوں پے مصیبت اور پریشانی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو جان سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی ، ان حالات میں ثابت قدم رہنا بڑا مشکل کام ہوجاتا ہے ،مسلسل خاموشی اختیار کرنا حکومت پر دباؤ نہ ڈالنا ان دنگائیوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب ہونے کے مواقع دینا ہے جو وہ چاہتے ہیں کہ ان کو مسلسل تشدد کا نشانہ بناکر ذہنی غلامی کی طرف دھکیلا جائے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ اے کعبہ تو کس قدر پاکیزہ ہے ،تیری خوشبو کس قدر عمدہ ہے ،تو کتنا زیادہ قابل احترام ہے، لیکن مومن کی عزت و احترام تجھ سے زیادہ ہے!
مومن کی عزت کی جب اتنی قیمت ہے تو ایک مومن کا خون کتنا قیمتی ہوگا ؟
حالات اس نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں سے کوئی اچھی خبر کی امید نہیں کی جاسکتی ہے ، عوامی جگہوں پے تو دور گھروں میں بھی جان کو خطرہ لگا رہتا ہے ،ابھی حال ہی میں دلی کا حادثہ اس کی تازہ مثال ہے ،،ان حالات میںسفر کرنا مطلب کہ جان ہتھیلی پر لے کے گھومنا ہے، کس وقت، کس جگہ کیا ہوجائے کچھ پتا نہیں ، ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے کہ اللہ جانے کہاں سے غنڈوں اور خون چوسنے والوں کا ٹولہ آ دبوچے،یاد رہے اگر حالات ایسے ہی رہے ، کہیں سے بھی امیدوں کے چراغ روشن نا ہوئے ، تو اندھیری رات کے مسافر صبح سے پہلے ہی آندھیوں کو خود سپردگی کی پیشکش کردیں گے ،بزدلی ،ڈر اور خوف ویسے بھی ہمارے اعصاب پر سوار ہوچکا ہے ، ذہنی طور پر مفلوج مفت میں ہوجائیں گے ،صرف غلامی اور محکومی باقی رہے گی جو خود بخود ہاتھ لگ جائے گی ۔
اسیر مالٹا شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ مجھے ظالم سے زیادہ مظلوم پر غصہ آتا ہے کیونکہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز نہیں بلند کرتا،ابھی وقت ہے، مستقبل کی فکر کریں ، سر جوڑ کر بیٹھیں ،اور مظبوط و مستحکم لائحہ عمل تیار کریں ، احتجاج نہیں بلکہ حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے وجود کا احساس دلائیں ، یہ کام انفرادی سطح پر نہیں بلکہ اجتماعی پلیٹ فارم پر تمام تر کوششوں کو صرف کرنے ممکنہ نتائج کو سامنے رکھ کر سب کچھ داؤ پر لگانے سے ممکن ہوگا ، ابھی بھی لوگ ہیں جو قوم کے عزت و وقار کی خاطر قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن کوئی متحدہ پلیٹ فارم اور قیادت کا فقدان ہے جہاں تمام طاقتیں یکجا کی جاسکیں ۔
کہتے ہیں کہ کوئی قوم کے کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو اگر اجتماعی طاقت استعمال نہیں کرتی تو دیکھتے دیکھتے بکھر تو جاتی ہے لیکن کچھ کر نہیں پاتی اگر ابھی بھی متحدہ تحریک نہیں چلائی گئی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے تو پھر کب؟
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات تنگ نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
Comments are closed.