اقبال کے شاہین خرافات میں کھوگئے۔۔۔!!!

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال بصیرت آن لائن

آج شاعرمشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کایوم ولادت ہے۔
اُس عظیم شخصیت کی پیدائش کا دن جو علم و دانش کا سمندر تھے اور دنیا بھر میں آپ کو صوفی درویش کے طور پہ جانا جاتا ہے اور یہ آپ کی دوراندیشی ہی ہے کہ آپ نے اپنے اشعار کے ذریعہ قوم کے نوجوانوں کو جھنجوڑ کر جگانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔
آپ کے انقلابی اشعار آج بھی زندہ جاوید ہیں، ان پہ غور و فکر کے ساتھ عمل کیا جائے تو یقینا یہ قوموں کی تقدیر بدل سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کا مختصر تعارف کرایا جائے تو آپ کی ولادت 9 نومبر 1877 کوسیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر ہوئی۔
والدین نے آپ کا نام محمد اقبال رکھا اور آپ کا تخلص اقبال سے مشہور ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ بسم اللہ کی عمر کو پہنچے تو آپ کے والد نے آپ کو دینی تعلیم دلوانے کے لئے مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے یہاں سے علامہ اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا۔
حسب دستور قرآن کریم سے ابتداء ہوئی، تقریبا سال بھر تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔
اس دوران شہر کے ایک نامور عالم مولانا سعید میر حسن کا یہاں آنا ہوا ، انہوں نے ایک بچہ کو بیٹھے دیکھا جس کے چہرے سے عظمت وسعا دت جھلک رہی تھی۔
انہوںنے پوچھا کہ کس کا بچہ ہے؟ جب علم ہوا کہ یہ بچہ شیخ نور محمد کا ہے تو وہ وہاں سے اٹھ کر ان کی طرف چل دئے،
مولانا نےاقبال کے والد کو زور دے کر سمجھایا کہ وہ اپنے بیٹے کو مدرسہ کی تعلیم تک محدود نہ رکھیں اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید عصری تعلیم سے بھی انہیں آراستہ کرائیں۔
انہوںنے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا جائے۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد اقبال کے والد نے اقبال کو میر حسن کے سپرد کر دیا۔
ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی تھا۔
یہاں اقبال نے اردو ، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کردیا ، تین سال گزر گئے ۔اس دوران سعید میر حسن نے ازکات مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کردیا تو اقبال بھی وہیں داخل ہوگئے اور اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔
اور ازکات مشن اسکول مین انٹرمیڈیٹ کی کلاسس بھی شروع ہوچکی تھیں ۔لہذا اقبال وہیں رہے اور ایف اے کا امتحان پاس کیا۔
اقبال کو زمانہ بچپن ہی سے شعر وشاعری میں دلچسپی تھی اور اُسی وقت وہ خود سے شاعری بھی کیا کرتے تھے مگر اس وقت وہ اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے نہ اپنی شاعری کو محفوظ رکھتے نہ کسی کو سناتے بس لکِھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن چنددنوں بعد شاعری ان کے لئے محض شوق نہیں رہی بلکہ روحانی غذا بن چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایف اے کرنے کے بعد آپ اعلی تعلیم کے لئے لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کئے۔یہیں آپ کو ڈاکٹر آرنالڈ جیسے فاضل شفیق استاد مل گئے۔
1905 میں علامہ اقبال اعلی تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے اور کیمبریج بونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی اور بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ابتداء میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دئیے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔
وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعر و شاعری بھی کیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔
آپ حساس دل و دماغ کے مالک تھے ۔آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی ۔۔۔۔۔۔
آپ کی تصانیف ہیں
نثر میں علم الاقتصاد
فارسی شاعری میں اسرار خودی
رموز بےخودی، پیام مشرق ، زبور عجم، جاوید نامہ وغیرہ
اردو شاعری میں بانگ درا ، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز
اور انگریزی تصانیف نہیں
فارسی میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء ،
اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو
ڈاکٹر علامہ اقبال بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف ، قانون دان ، سیاست داں مسلم ، صوفی اور اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔
آپ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی آپ کی شہرت کی بنیادی وجہ ہے۔
شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔
علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے اور آپ کے کلام کو دنیا بھر میں ہر مذاہب کے لوگ بڑے ہی عقیدت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال نے اپنے اشعار کے ذریعہ قوم کے نوجوانوں کو شاہین کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
اقبال کے مطابق قوموں کا مستقبل اور قوموں کے عروج و زوال کی وجہ قوم کے نوجوانوں کا کردار ہے وہ چاہیں تو کسی بھی قوم کا سر بلند کرسکتے ہیں، لیکن افسوس کہ آج یہودیوں نے اقبال کے شاہینوں پر طلسمی جال بچھا رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔
آج یوم اقبال کے موقع پر ہمیں اقبال کا ایک مشہور اور سبق آموز واقعہ یاد آرہا ہے جو موجودہ حالات کے پیش نظر ہم آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال جب یورپ کے دورے پر تھے، ایک روز شام کے وقت ایک پارک میں بچوں کو کھیلتا ہوا دیکھ کر لطف اندوز ہوئے۔
اچانک ان کی نگاہ پارک کے کونے میں بیٹھے ایک ایسے بچے پر پڑی جو پڑھائی کر رہا تھا۔
علامہ اقبال کو حیرت ہوئی۔
کیونکہ وہ بچوں کی فطرت سے بخوبی واقف تھے، اس لئے بچے کو پڑھتا دیکھ انہیں ذرا تعجب ہوا،انہیں عجیب لگا کہ ایک بچہ اس ماحول میں پڑھ بھی سکتا ہے-
انہیں یہ بچہ کچھ extra ordinary محسوس ہوا ۔۔۔۔۔
وہ اٹھ کر اس بچے کے قریب گئے،اور بچے سے پوچھا،کیا آپ کو کھیلنا پسند نہیں؟
بچے کے جواب نے انہیں حیران کردیا-
’’ہم دنیا میں مٹھی بھر ہیں، اگر میں کھیلنے میں وقت ضائع کروں گا تو میری قوم مٹ جائے گی،مجھے اپنی قوم کو بچانا ہے۔‘‘
علامہ اقبال نے بچہ سے پوچھا: ’’آپ کس قوم سے ہو؟‘‘
بچہ نے کہا: ’’ میں یہودی ہوں۔‘‘
یہ الفاظ اور یہ عزم،علامہ اقبال کے ہوش فاختہ ہوگئے۔
ان کا ذہن کسی اور ہی دنیا میں چلا گیا۔اور آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہنے لگے۔
وہ یونان، اسپین، مصر، ایران کی فتح کی کہانیوں سے لیکر ان کو گنوا دینے تک کی وجوہات کا سفر کرنے لگے۔
شاید دل چیخ رہا ہوگا کہ،ہائے میری قوم،ہائے ہمارے بچے،میں تم میں شاہین ڈھونڈ رہا ہوں،لیکن عقاب تو یہودی گھروں میں پل رہے ہیں۔
قوم کے بچوں کو لے کرعلامہ اقبال کی فکر اُن کا خوف یقیناً واجب تھا،آج ہمارے بچے اور نوجوان پب جی، ٹک ٹاک، وی گو اور نشہ کے عادی ہوچکے ہیں، جھوٹی عقیدت اور روایتی رسم و رواج کی وجہ سے ہم گمراہی و بےراہ روی کا شکار ہوچکے ہیں ، ہمارا تعلیمی نظام درہم برہم ہوچکا ہے ، نہ ہمارے سامنے زندگی کا کوئی مقصد ہے نہ ہمیں جینے کا سلیقہ معلوم ہے۔
ایسے میں دشمنان اسلام ہم پہ حاوی ہوتے جارہے ہیں اور اقبال کے شاہین گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوتے جارہے ہیں۔
اس پہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
علامہ اقبال کے دو مشہور قول ۔۔۔۔۔۔
قومیں فکر سے محروم ہوکر تباہ ہوجاتی ہیں ۔۔۔۔۔
اور آپ کا دوسرا مشہور قول
حکومت کا سب سے بڑا فرض افراد کے اخلاق کی حفاظت کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔
یقیناً یہودیوں نے سب سے پہلے ہماری فکر پہ حملہ کیا ہے اور ہمارے نوجوانوں سے غورو فکر کی قوت چھینی ہے ، اگر بھارت کے موجودہ حالات کا ہی جائزہ لیں گے تو 2014 مودی اقتدار میں آنے کے فورا بعد انٹرنیٹ ڈاتا سستا کروایا گیا، جیو 4 جی کو عام کیا گیا پھر نوجوانوں سے اُن کے روزگار چھینے گئے ، اور کورونا کے نام پر انہیں تعلیم سے دور کیا گیا، تاکہ اُن کے اندر سے صحیح غلط ، سوچنے سمجھنے اورغور و فکر کی صلاحیت ختم ہوجائے ۔۔۔۔۔۔
کیونکہ جو انسان بیکار ہوتا ہے اکثر وہ غلط صحبت اور گمراہی کی جانب بہت جلد راغب ہوتا ہے، اس محاورہ کی طرح کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ، ایسے میں اخلاقی گراوٹ کا آنا لازم ہے۔ اور یہ سب نوجوانوں کی فکر پہ پہلا اور بہت بڑا حملہ تھا ۔۔۔۔۔
جو اسرائیلی یہودیوں کے اشاروں پر بھارت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں کروایا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال 21 اپریل 1938 کو لاہور میں شاعر مشرق ،دوراندیش اور صوفی اپنی قوم کاغم لئے اس دنیاسے رخصت ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.