نکسلی علاقہ کا گاؤں منپا جو میں نے دیکھا

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
چھتیس گڑھ کے سکما ضلع کو اونچی نیچی زمین، پہاڑ، جنگل اور ندی نالوں نے قدرتی طور خوبصورت بنا دیا ہے ۔ اسی کے منپا گاؤں میں سات دہائی کے بعد قائم ہوا سب ہیلتھ سینٹر ۔ وہاں لوگ ڈاکٹر، اسپتال، نرس کچھ بھی نہیں جانتے ۔ جھاڑ پھونک کرنے والا ہی ان کا ڈاکٹر ہے ۔ سیکڑوں سال پرانی دقیانوسی روایتیں ہیں جن پر انہیں یقین ہے ۔ انتظامیہ کی عدم رسائی کی وجہ سے جدید طریقہ علاج اور حکومت کے ترقیاتی منصوبوں سے وہاں کے لوگ نہیں جڑ پائے ۔ شور شرابے سے دور انتہائی شانت دکھائی دینے والے اس آدمی واسی علاقہ میں موت کہاں سے آ کر سامنے کھڑی ہو جائے گی، اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ اسی سال اپریل کے پہلے ہفتہ میں فوج کے 22 جوان سکما ضلع میں بارود بچھا کر کئے گئے حملے میں شہید اور لگ بھگ اتنے ہی زخمی ہوگئے تھے جبکہ پچھلے سال مارچ میں اسی منپا گاؤں میں جہاں ہیلتھ سینٹر بنایا گیا ہے قریب 250 ماؤ وادیوں نے گھیرا ڈال کر 17 جوانوں کو شہید کر دیا تھا ۔ ان کی لاشیں مٹھ بھیڑ کے کافی وقت بعد برآمد کی جا سکی تھیں ۔ سکما کو نکسلیوں کا مضبوط گڑھ مانا جاتا ہے ۔ اس ناقابل رسائی علاقے کو صحت کی سہولیات سے جوڑنے کا حیرت انگیز کارنامہ حکومت اور یونیسیف کے تعاون سے سآمے بھومی فاونڈیشن نے انجام دیا ہے ۔
سکما سے منپا گاؤں تک پہنچنا کتنا مشکل ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ منپا تک کا فاصلہ محض 70.6 کلو میٹر ہے ۔ مگر خراب اور کچی سڑک کی وجہ سے تین گھنٹہ کی مسافت طے کرکے منپا گاؤں سے گیارہ کلومیٹر پہلے کنٹا بلاک کے چنتا گفا بازار تک پہنچ پائے ۔ یہاں حال ہی میں پرائمری ہیلتھ سینٹر کی عمارت تعمیر ہوئی ہے ۔ پہلے یہ سینٹر کنٹینرز میں چلایا جاتا تھا ۔ نکسلیوں کو پکی عمارتیں بننا اور بچوں کا پڑھنا پسند نہیں ہے ۔ انہوں نے اسکولوں کی عمارت، پل، پلیوں کو ڈائنامائٹ لگا کر مسمار کر دیا ہے ۔ اسے وہ اپنے وجود کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ بچے پڑھ لکھ جائیں گے تو انہیں نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ موقع ملنے پر وہ دس بارہ سال کے بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور انہیں بندوق چلانا سکھاتے ہیں ۔ کئی گاؤں میں تو آدی واسیوں نے پانچ چھ سال کے بچوں کو اپنے دور کے رشتہ داروں کے پاس بھیج دیا ۔ انگلی پر ووٹنگ کی سیاہی دکھائی دینے پر ہاتھ کاٹ لیئے جانے کے ڈر سے 95 فیصد لوگوں نے گزشتہ تیس سال سے الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالا ہے ۔ ایسے میں ہیلتھ سینٹر کا قیام وہاں کے لوگوں کی بڑی پہل ہے ۔ اس میں کورونا وبا اور ہیلتھ کارکن متانن، آشا، اے این ایم کی کوششوں کا بھی دخل ہے ۔ جنہوں نے مشکل حالات میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر منپا اور آس پاس کے گاؤں میں صحت کو بہتر بنانے کا بیڑا اٹھایا ۔ شدید بیمار مریضوں کی جان بچانے کے لئے انہیں علاج کے لئے چنتا گفا لانے کا بھی بندوبست کیا ۔
چنتا گفا سے آگے کوئی گاڑی نہیں جا سکتی لہذا آگے جانے کے لئے ایمبولینس کا سہارا لینا پڑا ۔ منپا گاؤں سے ایک کلو میٹر پہلے ہی ایمبولینس نے ساتھ چھوڑ دیا ۔ کیوں کہ آگے کا راستہ پیدل طے کرنا تھا اور ندی پار کرنی تھی ۔ اس مختصر راستہ میں آٹھ جگہ سی آر پی ایف کے کیمپ پر رکنا پڑا ۔ جہاں ہمارے آنے کی پہلے سے اطلاع تھی پھر بھی فوجیوں نے گاڑیوں کی جانچ کی ۔ ایک جگہ کھوجی کتوں نے بھی ہمارا معائنہ کیا ۔ اس طرح ڈاکٹر، مقامی صحت عملے اور سآمے بھومی فاونڈیشن کے رضا کاروں کے ساتھ منپا گاؤں تک پہنچ پائے ۔ وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ یہاں کام کرنا ایک جنون جیسا ہے ۔ جس کا ثبوت سآمے بھومی فاونڈیشن کے آدرش کمار خود ہیں ۔ وہ گزشتہ پانچ چھ سال سے سکما میں کام کر رہے ہیں ۔ پیشہ سے انجینئر ادرش کمار کا کہنا ہے کہ یہاں کام کرنے کا اپنا مزہ ہے ۔ منپا میں دھرولی زبان بولی جاتی ہے جو تیلگو اور ہلبی سے مل کر بنی ہے ۔ کچھ آدی واسی نوجوان جو بچپن میں شہر چلے گئے تھے وہ ہندی بولتے اور سمجھتے ہیں ۔ آدرش کمار نے بتایا کہ کنٹا بلاک کے تحت 150 گاؤں آتے ہیں ۔ حکومت نے یونیسیف کی تکنیکی مدد کے ساتھ 97 گاؤں میں سب ہیلتھ سینٹر بنانے کی منظوری دے رکھی ہے ۔ لیکن 85 گاؤں میں ہی ہیلتھ سینٹر کام کر پا رہے ہیں، منپا ان میں سے ایک ہے ۔ اس کے ساتھ چھ گاؤں کو جوڑا گیا ہے ۔ منپا ہیلتھ سینٹر سے 2635 لوگوں کو ہیلتھ سروس فراہم کی جائے گی ۔
اس موقع پر کنٹا بلاک کے سی ایم او ڈاکٹر کپل کشیپ موجود تھے ۔ انہوں نے بتایا اس علاقہ میں عدم غذائیت، ملیریا، جلد کی بیماری، سانپ کے کاٹنے اور گھر پر بچے کی ولادت کے معاملے عام تھے ۔ لیکن حکومت کے ساتھ یونیسیف کی تکنیکی مدد کی وجہ سے حالات بہتر ہوئے ہیں ۔ اب منگل اور جمعہ کو معمول کی ٹیکہ کاری کی جا رہی ہے ۔ گھر کے بجائے اسپتال میں بچے کی ڈیلیوری بڑھی ہے ۔ اگست میں 12 فیصد اور ستمبر میں صرف 3 فیصد بچوں کی ولادت گھر میں ہوئی ہے ۔ اسی طرح عدم غذائیت کے شکار بچوں کو این آر سی (غذائیت بحالی مرکز) میں داخل کراتے ہیں ۔ جنتا گفا پرائمری ہیلتھ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر مکیش بخشی جو نو سال اس علاقے میں کام کر رہے ہیں نے بتایا کہ سکما میں ملیریا اے پی آئی 40 فیصد سے اوپر تھا جو اس وقت 10 فیصد کے قریب ہے ۔ اسے دو فیصد سے کم پر لانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ اس کے لئے ہر ذیلی سینٹر پر جانچ کا انتظام کیا گیا ہے ۔ ملیریا کے مریض کو کچھ کھلانے کے بعد دوائی دی جاتی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے این آر سی میں پچاس بچے ہمیشہ رہتے تھے ۔ کورونا کے بعد ان میں کمی آئی ہے ۔ ہفتہ میں کم از کم دو بچے بھرتی ہوتے ہیں ۔ انہیں 14 دن سینٹر میں رکھا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر بخشی کا کہنا ہے کہ منپا گاؤں برسات میں ایک جزیرہ کی طرح ہو جاتا ہے ۔ اس وقت یہاں پہنچنا مشکل ہوتا تھا ۔ اب سب سینٹر بننے کے بعد لوگوں کو دوائی کے لئے پریشانی نہیں ہوگی ۔ انہوں نے بتایا کہ ہر بیس گھر پر ایک متانن ہونی چاہئے لیکن ابھی سو گھروں پر ایک متانن ہے ۔ اسی طرح اے این ایم اور اس کی معاون کی بھی کمی ہے ۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے مقامی لڑکے لڑکیوں کو این جی او کے ذریعہ ٹرینڈ کرکے ان سے کام لیا جاتا ہے ۔ جب وہ ماہر ہو جاتے ہیں تو حکومت انہیں اپنے پیرول پر لے لیتی ہے ۔ مقامی ہونے کی وجہ سے انہیں گاؤں میں رہ کر کام کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔ اور گاؤں کے لوگوں کا بھی انہیں بھرپور تعاون ملتا ہے ۔ باہر سے آئی اے این ایم اور اس کی معاون ان دور دراز کے گاؤں میں زیادہ دیر تک کام نہیں کر پاتی ۔ جلد ہی وہ اپنا تبادلہ کسی دوسرے مقام پر کرا لیتی ہیں ۔ اس سے ہیلتھ سروس کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے ۔
منپا گاؤں کے ادھیڑ عمر اویم لکاّ سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ بچپن میں انہیں چیچک کا ٹیکہ لگا تھا ۔ بزرگ خاتون مارڈی بی مے نے بتایا کہ نکسل واد سے پہلے جنگلات کے افسران کبھی کبھی آتے تھے ۔ وہ لکڑی کاٹنے والوں کی کلہاڑی چھین لیتے تھے ۔ کبھی پٹواری اور کبھی ڈاکٹر چیچک کا ٹیکا لگانے یا ملیریا کی دوا دینے آتا تھا ۔ پہلے حکومت کھیتی کے لئے زمین اور کھانے کے لئے چاول دیا کرتی تھی ۔ نکسلیوں کے آنے کے بعد یہ ملنا بند ہو گیا ۔ یونیسیف کے پروجیکٹ آفیسر وشال واسوانی جنہوں نے نکسلی علاقوں کو طبی سہولیات سے جوڑنے کا منصوبہ بنایا نے بتایا کہ کووڈ کے دوران گاؤں کے لوگوں نے بہت احتیاط برتی ۔ ان کا ماننا تھا کہ یہ باہر کی بیماری ہے ۔ اس لئے باہر سے آنے والوں کو گاؤں کے باہر ہی روک کر اس سے بچ سکتے ہیں ۔ انہوں نے باہر سے آنے والوں کے لئے کچھ جھونپڑیاں بنا دیں ۔ جہاں باہر سے آنے والوں کو 14 دن رکھا گیا ۔ یہ اطمنان ہونے پر کہ باہر سے آنے والے کو کوئی بیماری نہیں ہے انہیں گاؤں میں آنے کی اجازت دی گئی ۔ فاصلہ قائم رکھنا گاؤں کے مزاج میں پہلے سے موجود ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ جب گاؤں والوں کو کووڈ کے ٹیکہ کے بارے میں بتایا گیا تو 45 سال سے اوپر کے سبھی لوگ ٹیکہ لگوانے کے لئے از خود آگے آئے ۔ اس کی وجہ سے یہاں کے 95 فیصد لوگوں کو پہلا اور 75 فیصد کو دوسرا ٹیکہ لگ چکا ہے ۔ حکومت نے نکسلیوں کو مین اسٹریم میں لانے کے لئے لون وراٹو (گھر واپسی) اور پونا نرکوم (نئی صبح) جیسی اسکیمیں چلا رکھی ہیں ۔ اس کے تحت نئی زندگی شروع کرنے کے لئے زمین اور کچھ نقدی دی جاتی ہے ۔ نکسلیوں کے سرنڈر کرنے اور مارے جانے کی مقامی اخبارات میں دو چار خبریں اکثر پڑھنے کو مل جاتی ہیں ۔
نکسل متاثرہ علاقے میں کئی گھنٹہ گزارنے پر یہ احساس ہوا کہ حکومت کے ساتھ مل کر یونیسیف کسی رضا کار تنظیم کے ذریعہ عوام کی صحت کو بہتر بنانے میں مصروف ہے ۔ اگر مقامی تعاون اور سرکار کی حمایت حاصل ہو تو دور دراز علاقوں میں طبی سہولیات پہنچائی جا سکتی ہیں ۔ منپا اس کی ایک مثال ہے جہاں خود آدی واسیوں نے سب ہیلتھ سینٹر بنانے کے لئے جھونپڑی بنا کر دی ہے ۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
Comments are closed.