فسادات میں مسلمانوں کے یک طرفہ جانی ومالی نقصان کا تواتر وتسلسل برقرار

مفتی منظور ضیائی
جمعہ کے روز تری پورہ میں مساجد اور مسلمانوں کے جان ومال پر حملے اور آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کے خلاف ممبئی اور مہاراشٹر کی مختلف مذہبی سماجی اور ملی تنظیموں کی جانب سے مہاراشٹر بند کے دوران مالیگائوں امرائوتی ناندیڑ اور کئی دیگر مقامات پر تشدد پھوٹ پڑا ابھی بھی حالات پوری طرح قابو میں نہیں آئے ہیں، مختلف مقامات سے جو خبریں آرہی ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں، مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایاجارہا ہے، انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور بدقسمتی سے پولس اور مقامی انتظامیہ کا رویہ بھی انتہائی جانبدارانہ ہے، گرفتاریاں بھی مسلمانوں کی ہی ہورہی ہیں، ابھی حالات معمول پر نہیں آئے ہیں اس لیے صحیح طور پر اندازہ نہیں ہوسکا ہے کہ کس پیمانے پر نقصان ہوا ہے جلدی تصویر صاف ہوجائے گی، مسلمانوں کا مظاہرہ پوری طرح امن وامان اور جمہوریت کی حدود کے اندر تھا ، ناموس رسالﷺ کے تحفظ اور تری پورہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف احتجاج اور مسلمانان تری پورہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کا پرامن اظہار تھا اس کے علاوہ اورکچھ نہیں لیکن شرپسندوں کو یہ بھی برداشت نہیں ہوا اور ٹکرائو پر آماد ہوگئے، مسلمانوں نے بے پناہ صبروضبط اور امن پسندی کا ثبوت دیاجس کی وجہ سے ماحول ایک حد سے زیادہ خراب نہیں ہوا لیکن نقصان بہت ہوا۔

آخری بات فرقہ وارانہ فسادات کے موقع پر افواہوں کے ذریعے ماحول خراب کرنے کی پوری تاریخ رہی ہے، اب سوشل میڈیا کے آجانے سے نفرت انگیز مہم چلانے والوں کو اور بھی آسانیاں میسر ہوگئی ہیں، سوشل میڈیا اپنی اصل میں کوئی بڑی چیز نہیں ہے، اس کے ذریعہ بہت سے مفید کام بھی کیے جاسکتے ہیں لیکن ماحول کی کشیدگی کے موقع پر افواہیں جس تیزی سے سفر کرتی ہیں اور جس طرح نفرت اور دل آزادی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اس کا مظاہرہ اس وقت بھی دیکھنے کو ملا ہے اس کا علاج تلاش کرنے کےلیے سب کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا ۔

مہاراشٹر کے مختلف اضلاع میں جو کچھ ہو او رملک کے مختلف شہروں سے جو خبریں آرہی ہیں، جس طرح فساد کا ماحول بن رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے، ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ نئی نہیں ہے، آزادی کے فوراً بعد بلکہ ا ٓزادی سے پہلے سے ہی فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، آزادی اور تقسیم کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک جاری ہے ، مرکز میں او رملک کی بیشتر ریاستوں میں آزادی کے بعد کانگریس کی حکومت رہی ہیں، پنڈت جواہر لعل نہرو ہندوستان کے سب سے محبوب مقبول اور طاقتور وزیر اعظم تھے، اپنی تمام تر محبوبیت اورمقبولیت کے باوجود وہ ہندوستانی مسلمانوں کو فرقہ وارانہ فسادات سے بچا نہیں سکے، تقسیم ہند کے بعد سب سے بڑا فساد ۶۰ کی دہائی میں جبل پور میں ہوا تھا، اس کے بعد ملک میں اندرا گاندھی کی حکومت آئی اس دوران بھی ملک کے طول وعرض میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے، مختصر مدت کےلیے جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، اس دوران علی گڑھ اور جمشید پور کے فسادت ہوئے، اندرا گاندھی ۸۰ ء میں دوسری مرتبہ اقتدار میں آئیں تو علاوہ دیگر مقامات کے ممبئی اوربھیونڈی میں فرقہ وارانہ فسادت ہ وئے اور مسلمانوں کو زبردست جانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا، اس کے بعد بھی یہ فسادات بند نہیں ہوئے۔
راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں میرٹھ، ملیانہ ، ہاشم پورہ، بھاگلپور اور نہ جانے کتنے فسادات ہوئے۔ دسمبر ۱۹۹۲ میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک گیر سطح پر فسادات پھوٹ پڑے ان میں ممبئی اور گجرات کے فسادات سب سے زیادہ ہولناک تھے، اس کے باوجود فسادات کا سلسلہ تھما نہیں، خود مہاراشٹر میں چھوٹے بڑے فرقہ وارانہ فسادات کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے، ان سب فسادات کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ ان میں یک طرفہ طور پر مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان ہوا، کبھی کسی قصور وار کو سزا نہیں ہوئی، مظلومین کو انصاف نہیں ملا، فسادی سماج کے سینے پر مونگ دلتے رہے، اور مظلومین انصاف کی تلاش میں در در بھٹکتے رہے۔ ان فسادات کا ایک اور ناقابل ذکر پہلو یہ ہے کہ پولس ،انتظامیہ اور نیم فوجی فورسیز نے بھی بیشتر معاملات میں شرپسندوں کا ساتھ دیا، بہت سے فسادات کے موقع پر پولس والے دنگائیوں کے ساتھ مل کر لوٹ مار کرتے ہوئے پائے گئے۔
ان فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف بڑے پیمانے پر آواز اُٹھائی گئی، پارلیمنٹ کے اندر زور دار بحثیں ہوئیں، مختلف قسم کے اعلانات کیے گئے، پولس فورس میں سدھار لانے کی مختلف سطح پر کوشش کی گئیں ، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا، آج بھی جب کہیں فساد برپا ہوتا ہے تو وہی کہانی دوہرائی جانے لگتی ہے، جو آزادی کے بعد سے اب تک ہوتی چلی آرہی ہے۔
اب واپس آتے ہیں مہاراشٹر کے مختلف اضلاع میں اچانک پھوٹ پڑنے والے تشدد پر جو کچھ ناندیڑ، امرائوتی اور مالیگائوں میں ہوا ہے ہم اس کو فرقہ وارانہ فسادات کا نام نہیں دے رہے ہیں، لیکن جس طرح مسلمانوں پر زیادتی ہورہی ہے اور تشدد سے متاثرہ شہروں میں جس طرح خوف وہراس پھیلا ہوا ہے وہ پرامن شہری کےلیے تشویش کا باعث ہے۔ ہم الزام تراشیوں سے گریز کرتے ہوئے معاشرہ کے ہرطبقہ کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہر حال میں امن وامان برقرار رکھیں، مہاراشٹر کی سماجی اور ملی تنظیموں کا کردار اس پورے معاملے میں بہت شفاف رہا ہے ہم ان کی خدمت میں بھی یہ عرض کریں گے کہ وہ قیام امن کی اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔
اس پورے معاملہ میں حکومت مہاراشٹر کا اب تک کا رول بہت اچھا نہیں رہا ہے، جو علاقے تشدد سے متاثر ہوئے ہیں وہاں انتظامیہ مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے، ہم حکومت مہاراشٹر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جو کچھ ہوا ہے اس کی اعلیٰ پیمانے پر انکوائری کرائی جائے جو بے گناہ پکڑے گئے ہیں ان کو رہا کیاجائے اور ان پر لگائے گئے مقدمات ختم کیے جائیں۔
آخری بات فرقہ وارانہ فسادات کے موقع پر افواہوں کے ذریعے ماحول خراب کرنے کی پوری تاریخ رہی ہے، اب سوشل میڈیا کے آجانے سے نفرت انگیز مہم چلانے والوں کو اور بھی آسانیاں میسر ہوگئی ہیں، سوشل میڈیا اپنی اصل میں کوئی بڑی چیز نہیں ہے، اس کے ذریعہ بہت سے مفید کام بھی کیے جاسکتے ہیں لیکن ماحول کی کشیدگی کے موقع پر افواہیں جس تیزی سے سفر کرتی ہیں اور جس طرح نفرت اور دل آزادی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اس کا مظاہرہ اس وقت بھی دیکھنے کو ملا ہے اس کا علاج تلاش کرنے کےلیے سب کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا ۔
(مضمون نگار بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر، صوفی کارواں کے روح رواں، آل انڈیا علم و ہنر فائونڈیشن کے چیئرمین اور ملکی و ملی معاملات پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والی ڈیبٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں )

Comments are closed.