"بصیرت” کی بصیرت افروز پہل

از: محمد اللہ قیصر
تقریبا پانچ یا چھ ماہ قبل بصیرت آن لائن کے چیف ایڈیٹر، جناب مولانا غفران ساجد صاحب، نے علماء مدھوبنی کے درمیان ایک منصوبہ پیش کیا، کہ "تذکرہ علماء مدھوبنی” کے عنوان سے ضلع کے اکابر علماء کے مختصر خاکوں پر مشتمل ایک مجموعہ تیار کیا جائے؛ کیوں کہ مدھوبنی نے علم دین کے بڑے بڑے روشن مناروں اور وقت کے جنید و شبلی کو جنم دیا ہے؛ لیکن افسوسناک ہے کہ ان کی حیات و خدمات سے دنیا کے لوگ واقف نہیں؛ بلکہ خطہ کے لوگ بھی ان کے نام تک فراموش کرتے جارہے ہیں، اگر کسی سے پوچھا جائے کہ حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ کے شاگرد،مدرسہ محمود العلوم دملہ کے بانی مبانی حضرت مولانا ادریس رحمۃ اللہ علیہ کون تھے، حضرت کشمیری رحمہ اللہ کے شاگرد رشید، مدرسہ بشارت العلوم کے بانی، حضرت گڑہولوی کے دست گرفتہ حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کون تھے، تو شاید و باید کوئی بتا سکے؛ جبکہ یہ ضلع ان نفوس قدسیہ کی آماج گاہ رہا ہے جنہوں نے علوم دینیہ کی نشرو اشاعت میں زندگی کھپا دی، ہمارا مرکز دیوبند یہاں سے سیکڑوں میل دور ہے؛ لیکن اس وقت جب سفر انتہائی مشکل تھا، مدھوبنی کے سپوت علم و حکمت کے سر چشمہ سے سیرابی کیلئے نکلے، اور واپس آکر علاقہ میں علم دین کے چراغ روشن کئے، حضرت شیخ الہند، حضرت کشمیری، حضرت شیخ الاسلام، اور حضرت مولانا فخرالدین احمد رحمہم اللہ کے چشمہ حکمت و معرفت سے سیرابی حاصل کرنے والے،ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد تھی جنہوں نے ایک طرف مدرسہ محمود العلوم دملہ، مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں جیسے مدارس کی بنیاد ڈال کر قوم و ملت کے فرزندوں کے قلوب،علوم دینیہ کی روشنی سے منور کیا دوسری طرف انہوں نے عشق و معرفت کی مجلسیں بھی آباد کیں، اور دعوت و ارشاد کے ذریعہ علاقہ کے لوگوں کی دینی تربیت بھی کرتے رہے، ان قدسی نفوس علماء کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے نام سے بھی خطہ کے لوگ ناواقف ہیں، ان کی خدمات تقریبا فراموش کی جا چکی ہیں۔
اپنے بڑوں کی خدمات یاد رکھنا زندہ قوموں کی علامت ہے، تعجب خیز ہے کہ اس ضرورت پر بہت کم لوگوں نے توجہ دی تھی؛ بلکہ کسی سے اس کا تذکرہ بھی نہیں سنا تھا، اللہ جزائے خیر دے مولانا غفران ساجد صاحب کو جنہوں نے مدھوبنی کے احباب کے سامنے تذکرہ کیا تو سب نے خوب سراہا، حوصلہ بڑھایا اور تعاون کا مکمل وعدہ کیا، کام پیچیدہ تھا اور مشکل بھی؛ اسلئے کہ بیشتر گاؤں سے ایک دو ایسے اکابر کے نام سامنے آئے جن کی خدمات سے اہل خطہ کو واقف ہونا چاہئے؛ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان کے حالات کہیں جمع نہیں ہیں، ان کے شاگرد بھی اس دنیا سے جا چکے ہیں، وارثین بھی بس نام سے واقف ہیں، انہیں صرف اتنا معلوم ہے کہ "دادا جان بڑے عالم ” تھے، دوسری پریشانی یہ تھی کہ ان کے حالات جمع کرنے کی ذمہ داری کنہیں دی جائے، احباب کی ایک میٹنگ ہوئی تو حل یہ سامنے آیا کہ "سلسلہ وار سیمینار” منعقد کئے جائیں، اس کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جس کی ذمہ داری ہوگی کہ ہر سیمینار سے پہلے چند اکابر رحمہم اللہ کے نام پیش کردے، سیمینار میں انہیں کی حیات و خدمات پیش کی جائیں، اس طرح "تقسیم و تجزئہ” کے اصول پر کام ہوگا تو یہ اہم اور مشکل کام سہل ہو سکتا ہے، طے ہوا کہ اس سلسلہ کا پہلا پروگرام مدھوبنی میں منعقد کیا جائے، اکابرین کی فہرست طویل ہے، اسلئے ابتدا ان حضرات سے کی گئی جن کا وصال گزشتہ چند سالوں میں ہوا ہے،
چناں چہ پہلے سیمینار کیلیے فقیہ الامت حضرت مولانا زبیر احمد صاحب، حضرت مولانا قاضی حبیب اللہ صاحب، حضرت مولانا وصی احمد صاحب، اور حضرت مولانا مکین احمد صاحب رحمہم اللہ کے نام پر اتفاق ہوا، جو گذشتہ 5 دسمبر کو منعقد ہوا،
مدھوبنی کی علمی، سماجی اور سیاسی شخصیات نے خوب سراہا، بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ملی خدمات کیلئے پیش پیش رہنے والے جناب ڈاکٹر فیاض احمد صاحب، ڈاکٹر نیاز احمد، جناب اشتیاق احمد اور جناب امتیاز احمد صاحب کا تعاون ناقابل فراموش ہے، مولانا قیصر صاحب،ناظم مدرسہ بشارت العلوم، قاضی امداد اللہ صاحب مدرسہ فلاح المسلمین، نے خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا، بالخصوص جناب ڈاکٹر فیاض احمد و ڈاکٹر نیاز احمد صاحبان نے میزبانی کا حق ادا کردیا، کانفرنس ہال کی فراہمی سے لے کر، مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام کیا، اور بہ نفس نفیس تمام حضرات پروگرام میں شریک رہے، مدھو بنی کے سابق ایم پی ڈاکٹر شکیل صاحب بھی تشریف لائے اور انہوں نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام ہے، منتظمین کی جتنی حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے، "محبانہ و مشفقانہ تاکید” کرتے ہوئے کہا کہ یہ سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے، پروگرام کے سرپرست، جناب ڈاکٹر فیاض احمد نے کہا کہ اپنے اکابر کو یاد کرنا ان کے احوال سے نئی نسل کو روشناس کرانا، اس بات کی علامت ہے کہ آپ میں زندگی کی رمق باقی ہے، اکابر کی خدمات ہمارے لئے مشعل راہ ہوتی ہیں، دگرگوں حالات میں، اور وسائل کی کمی کے با وجود قوم و ملت کی خدمت کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے، ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ جب سفر مشکل تھا، وسائل تقریبا معدوم تھے، کسمپرسی کا زمانہ تھا اس وقت، چھپڑوں کے سائے میں بیٹھ کر، ان بوریہ نشینوں نے، کس طرح قوم کی رہنمائی کی، کس طرح علم کی قندیلیں جلائیں،انہوں نے لوگوں میں علوم دینیہ کے تئیں بیداری پیدا کرنے کیلئے کن مشکلات کا سامنا کیا، اس سے نئی نسل کو کام کا حوصلہ ملتا ہے، کہ اگر انسان ٹھان لے تو چٹانوں سے پانی کے چشمے نکالنا کوئی دشوار نہیں، اکابرین کی محنت، لگن، اور جد و جہد سے پتہ چلتا ہے کہ "جو ہو عزم سفر پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں”. اخیر میں ڈاکٹر فیاض احمد نے بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ یہ سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے، منتظمین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہوں نے ہر طرح کے تعاون کا وعدہ بھی کیا۔
ممبئی سے تشریف لانے والے مہمان خصوصی حضرت مولانا رشید احمد صاحب ندوی، نے کہا کہ اس سے قبل بھی مدھوبنی کا سفر کرچکا ہوں، یہاں کے لوگ علماء کے بڑے قدردان ہیں، اس سیمینار میں ضلع کی اہم علمی و سماجی شخصیات کی عدیم المثال دلچسپی بتارہی ہے کہ انہیں اپنے اکابر رحمہم اللہ سے بڑی عقیدت ہے، جو اس خطہ کیلئے باعث خیر ہے، صدر مجلس مولانا حافظ اقبال چونا والا صاحب رکن مجلس مشاورت دارالعلوم وقف دیوبند، نے کہا کہ علماء سے عقیدت دین سے لگاؤ کی دلیل ہے، اس پروگرام میں مدھوبنی کے اہل علم کے ساتھ سیاسی و سماجی شخصیات کا شوق پتہ دیتا ہے کہ یہاں کے لوگ اہل علم سے بے لوث محبت کرتے ہیں، اپنے اکابر علماء کرام سے انہیں بڑا لگاو ہے، ان کی یادوں کو سمیٹ کر، سنجوگ کر محفوظ کر نے کیلئے انتہائی سنجیدہ ہیں۔

شرکاء کے تاثرات سے پتہ چلتا ہے کہ اس نوعیت کے سیمینار کے انعقاد میں تاخیر سے سب کو شکایت تھی؛ لیکن آغاز پر سب مسرور و شادماں، سب کی زبان پر تھا "دیر آید درست آید”
مولانا غفران ساجد صاحب اور ان کے تمام رفقاء کار مبارکباد کے ساتھ شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس اہم کام کا بیڑا اُٹھایا، اور یہ مبارک سلسلہ شروع کیا، مولانا غفران ساجد صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جو وسائل کی کمی کا رونا روتے ہوئے بیٹھتے نہیں، منزل کی دوری پر جزع فزع نہیں کرتے، "انجام اس کے ہاتھ ہے آغاز کرکے دیکھ” کا نعرہ بلند کرتے ہوئے، قدم آگے بڑھاتے ہیں،عزم و حوصلہ، محنت، لگن اور یکسوئی چراغ راہ بنتی ہے، پھر جب تک مقصد میں کامیابی نہیں ملتی، اس وقت تک تھکن سے چور ہونے کے باوجود ان کے ہونٹوں پر بس ایک ہی نغمہ ہوتا ہے "ہم پھولوں کے بستر پر آرام نہیں کرتے”، اپنے ساتھ رفقاء کار کو بھی یہ کہتے ہوئے حوصلہ دیتے ہیں کہ "ملے گی خود بخود منزل قدم آگے بڑھاتا جا”
تمام منتظمین بالخصوص عنایت اللہ ندوی کنوینر سیمینار ، مولانا رضوان احمد قاسمی بینی پٹی سابق استاد دارالعلوم وقف دیوبند ، مولانا نصراللہ قاسمی بینی پٹی،مولانا عبدالناصر سبیلی اجرا ،مفتی مسیح احمد قاسمی صدر مجلس استقبالیہ ،مفتی روح اللہ صاحب قاسمی استاذ مدرسہ فلاح المسلمین،مولانا فاتح اقبال ندوی قاسمی مہتمم مدرسہ چشمہ فیض ململ، ناظم پروگرام مولانامظفر رحمانی صاحب وغیرہ، کو خصوصی مبارکباد کہ ان کی شبانہ روز محنت سے ہی اس قدر کامیاب پروگرام کا انعقاد ممکن ہوا، ان کے خلوص کا نتیجہ ہے کہ مدھوبنی کے اہل علم و دانش نہ صرف یہ کہ سیمینار سے بہت متاثر ہوئے؛ بلکہ اس سلسلہ کو جاری رکھنے کیلئے منتظمین کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ان کے حوصلے کو سلام، بڑی نا سپاسی ہوگی اگر اس موقع پر بصیرت کے مینیجنگ ڈائریکٹر، خان افسر قاسمی کا تذکرہ نہ کیا جائے، جو اپنی گونا گوں مشغولیات کی وجہ سے شریک نہ ہو پائے، پروگرام سے پہلے جتنے وہ خوش تھے، پروگرام کے بعد شرکت نہ کرنے پر اتنے ہی افسردہ ہیں، روز اول سے انہوں نے جس طرح بصیرت ٹیم کو اس سیمنار کیلئے مہمیز کیا، ان کی حوصلہ افزائی کی، پروگرام کی کامیابی کا یقین پیدا کیا، علماء مدھوبنی کی خدمات سے دنیا کو واقف کرانے پر اکسایا اور یہ یقین دلا یا کہ اگر انسان شوق و جذبہ، حوصلہ و ولولہ سے لیس ہو تو  کسی "پنگھٹ کی ڈگر”  کبھی ” کٹھن” نہیں ہو تی، 

  وہ ان کے مخلص و وفا شعار، حوصلہ مند ہونے کے ساتھ ،علم دوست ،اور علماء نواز ہونے کی بین دلیل ہے،

 اللہ ان تمام حضرات کو سلامت رکھے۔

Comments are closed.