قاطعِ قادیانیت کی رحلت؛ امیر الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمٰن ثانی لدھیانوی

تحریر:عامر قمر سالارپوری

حضرت مولانا حبیب الرحمٰن ثانی لدھیانوی قدس سرہ ہمارے اس عہد کے ایک بے باک اور ربانی عالم تھے۔اس دور قحط الرجال میں تحفظ ختمِ نبوت و ردقادیانیت کے حوالے سے انھوں نے جو عظیم خدمات انجام دیں اور مصائب و آلام سے گزرنے کے باوجود بھی دشمنانِ دین کے سامنے جس طرح سینہ سپر رہے،واقعہ یہ ہے کہ فی زمانہ اس کی مثالیں نایاب نہ سہی،پر کمیاب ضرور ہیں۔اس موضوع پر جب وہ خطاب فرماتے تھے،تو ذکرِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران ان کا لہجہ گلوگیر اور آنکھیں اشک بار ہو جایا کرتی تھیں،وہیں ملعون مرزا قادیانی کا نام آ جانے پر آپ جوش میں آ جاتے تھے اور پھر ان کی زبان سے گویا شعلے برستے تھے،یہی وجہ تھی کہ قادیانیوں کی موجودگی اور ان کی شرانگیزی کی خبر سن کر جہاں جہاں آپؒ تشریف لے گئے،قادیانی آپ کی آمد کی اطلاع پاتے ہی راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوے ہیں۔مجھے ان کے واقف کار حضرات نے بتایا کہ حضرت مولانا ثانی مرحوم کو اللہ تعالی نے یہ عجیب شان عطا کی تھی کہ کہ جو شخص بھی ان کے یہاں تھوڑا بہت وقت گزار لیتا تھا،تو اس کے اندر بھی محبتِ رسول اور قادیانیت کے خلاف نفرت پیدا ہو جاتی تھی اور وہ بھی حسبِ توفیق تحفظ ختم نبوت و رد قادیانیت کے کام کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیتا یا اس میدان میں کام کرنے والوں کا معاون و مددگار بن جاتا تھا۔

میں نے اپنے بچپن میں جن ہندی اکابر و مشائخ کا نام بہ کثرت سنا اور جن کی زیارت و ملاقات کو دل بار بار چاہا،ان میں شاہی امام پنجاب و صدرمجلس احرار اسلام ہند کا نام سرِفہرست ہے۔ہندوستان کا شاید ہی کوئی صوبہ و خطہ ایسا بچا ہوگا،جہاں حبیب ثانیؒ کا نام و کام متعارف نہ ہوا ہو۔ہر حساس اور اہم مسئلے پر ان کا بے باک بیان اکثر و بیش تر سب سے پہلے جاری ہوتا تھا اور ملک بھر کے اخبارات میں اسے بڑے اہتمام سے جگہ دی جاتی تھی۔آپ اپنے نزدیک جس بات کو از روئے شرع حق اور درست سمجھتے تھے یا جسے ملک و ملت کے حق میں مفید تصور کرتے تھے،اس پر آپ کھل کر بولتے تھے،وہ بات حکومت کے خلاف جا رہی ہو یا کسی مخصوص طبقے کے،اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اور وہ نتائج و عواقب سے بے پرواہ ہوکر اپنے موقف پر پہاڑ کی طرح جمے رہتے تھے۔ہم نے یہ بات سنی تو بہت ہے کہ سوائے اللہ رب العالمین کے اور کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے،لیکن اگر ہم سے کوئی یہ پوچھے کہ آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں،جو غیراللہ سے نہ ڈرنے کا بہ بانگِ دہل اعلان کرتا ہوں اور اس کی ساری زندگی اس کے قول کی مکمل ترجمان ہو۔؟ تو میرا جواب یہ ہوگا کہ جی ہاں مولانا حبیب الرحمٰن ثانی لدھیانویؒ ایک ایسے شیرِخدا تھے،جن کا دل عظمتِ الہی اور حب رسول سے لبریز تھا اور وہ تادمِ واپسیں کسی بڑی سے بڑی طاقت سے خوف زدہ اور مرعوب نہیں ہوے،بلکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس یہ تھا کہ باطل ان سے ہر دم تھراتا و کپکپاتا تھا۔

حضرت کو قریب سے دیکھنے والے اور ان کی بہت سی قیمتی یادیں اپنے سینے میں محفوظ رکھنے والوں میں ایک اہم نام مفتی محمد عارف جیسلمیری کا ہے،انھوں نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ ہمارے حضرت کو اللہ رب العزت نے بڑے رعب داب سے نوازا تھا،ان کی للکار کے آگے کیا مجال تھی کہ باطل ٹھہر سکے،قادیانیت کے حامیوں کی بھی وہ اچھی خبر لیتے تھے۔کافی پرانی بات ہے،سرینگر کشمیر میں قادیانیوں نے ایک پروگرام کا اعلان کر دیا۔قادیانیوں کے پروگرام کی تاریخ میں محض تین چار روز باقی تھے کہ سرینگر کشمیر سے آپ کے پاس ایک صاحب کا فون آتا ہے اور آپ کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ سرینگر میں تین چار روز بعد ہی ایک پروگرام ہے،جس میں دانشور طبقے کی شرکت کے امکانات ہیں اور دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ علماء کی تمام تر کوششوں کے باوجود کشمیر کے وزیرِاعلی مفتی سعید صاحب کا ایک ہی جواب ہے کہ یہ قادیانی لوگ چوں کہ محدود پیمانے پر اپنا پروگرام کریں گے اور کسی کھلے مقام کے بجائے ایک ہال میں ان کا پروگرام منعقد ہوگا؛اس لیے ہمیں ان کے پروگرام پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور یہ کہ اب وہ پروگرام متعین تاریخ پر ہوگا۔اب آپ ہی اپنے طور پر جو اقدام مناسب سمجھیں،اس پروگرام کو رکوانے کے لیے رو بہ عمل لائیں۔

حضرت مولانا ثانی لدھیانویؒ قادیانیوں کے اس پروگرام اور وہاں کے وزیرِاعلی کی پشت پناہی کی خبر سن کر ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ گئے،اسی وقت پریس کانفرنس کی اور ملک بھر کے ہندی،اردو،پنجابی اور انگریزی اخبارات میں اپنا بیان جاری کیا اور کشمیر کے وزیرِاعلی کو کھلا چیلنج دیا کہ قادیانیوں کے پروگرام کے روز حبیب الرحمٰن ثانی لدھیانوی اپنے جانباز احراریوں کی ایک بڑی تعداد کے ہم راہ سرینگر حاضر ہو رہا ہے،قادیانیوں نے اصل ماں کا دودھ پییا ہے تو وہ پروگرام کر دکھائیں اور حبیب الرحمٰن اگر سچا عاشقِ رسول ہوا،تو اس پروگرام کے تانے بانے بکھیر کر دکھائے گا۔اس بے باک بیان کو جاری کیے ابھی چار پانچ ہی گھنٹے گزرے تھے کہ وہاں کے وزیرِاعلی کے پی اے صاحب کا آپؒ کے پاس فون آیا اور آپ سے کہا گیا کہ آپ سرینگر تشریف نہ لائیں،حکومت نے اس پروگرام کی منسوخی کا فرمان جاری کر دیا ہے۔ایسے تھے ہمارے حضرت امیرالاحرار قدس سرہ زمانہ جن کو مدتوں یاد کرے گا:

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

مجھے حضرت سے ملاقات کی شدید خواہش تھی،جب میں دارالعلوم مالیرکوٹلہ میں تدریسی خدمت پر مامور ہوا،تو اس کے بعد ارادہ تھا کہ جلد ہی کسی روز لدھیانہ جاکر ملاقات کا شرف حاصل کیا جائے گا؛لیکن افسوس ہے کہ مجھے مالیرکوٹلہ آئے ہوے ابھی بہ مشکل بیس پچیس روز ہی گزرے تھے کہ حضرت مولانا حبیب الرحمٰن ثانی لدھیانویؒ ایک مختصر مگر صبرآزما علالت کے بعد سفرِآخرت پر روانہ ہو گئے اور اس طرح ملاقات کی حسرت دل ہی میں رہ گئی۔

وکم من حسرات فی بطون المقابر

میرے لیے سعادت و خوش بختی کی بات ہے کہ حضرتؒ کی حیات و خدمات پر جب کتابی کام کا آغاز ہوا،تو اس کتاب کی کمپوزنگ کی خدمت مجھ حقیر کے سپرد کی گئی،چناں چہ پچھلے دنوں ایک ڈیڑھ مہینے میرا جامع مسجد فیلڈگنج میں اسی کام کے سلسلے میں قیام رہا،لدھیانہ کے اس قیام میں میں نے حضرت کے لائق و فائق جانشین اور پنجاب کے موجودہ شاہی امام حضرت مولانا محمد عثمان صاحب رحمانی لدھیانوی دامت برکاتہم کو قریب سے دیکھا و جانا۔بلاشبہ مولانا مدظلہم اپنے والدماجدؒ کے نقشِ قدم پر ہیں اور اوصاف و محاسن کے لحاظ سے انھی کا عکسِ جمیل ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرتؒ کی مغفرت فرمائے،امت مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور مولانا عثمان صاحب رحمانی اور دیگر افرادِخاندان کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔

Comments are closed.