تبلیغی جماعت چلتی پھرتی انسانیت کی ایک عالمی درسگاہ

مفتی احسان شاہ قاسمی،نرمل
زبان پر ذکرِ الٰہی کی تکرار، آنکھوں میں شب بیداری کے آثار، پیشانیوں پر سجدوں کے نشان، کاندھوں پر بستر، ایک ہاتھ میں ضروری سامان اور دوسرے ہاتھ میں تسبیح لیے بے شمار قافلے اپنے مخصوص انداز اور مناسب ترتیب سے آج پوری دنیا میں ملک ملک ،شہر شہر، نگرنگر اور قریہ قریہ اپنے قدموں کو دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے تیزگام، اللہ کے راستے میں بڑی دلسوزی کے ساتھ گرد آلودہوتے ہوئے امت کے ایک ایک فرد کے دروازے پردستک دیتے ہوئے نظر آئیں گے، ان قافلوں کو عرف عام میں *’’تبلیغی جماعت‘‘* کہا جاتا ہے۔
چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسا وقت اور لمحہ نہیں گزرتا جس میں تبلیغی جماعت کی نقل وحرکت پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں جا ری نہ ہو،۔۔۔۔۔
جس تبلیغی تحریک کی سارے عالم میں صدائے باز گشت ہے اس کے بانی مولانا محمد الیاس ہیں جن کے مجاہدوں، ریاضتوں اور روحانیت واخلاص سے اس تحریک کی ابتداء ہوئی۔
بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے والد مولانا محمد اسماعیل ولی کامل اور والدہ محترمہ بھی ’’رابعہ سیرت‘‘ خاتون تھیں جنہو ں نے آپ کی پرورش و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی، چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید اور دینی علوم کی تعلیم احسن طریقہ سے امتیازی شان اور نمایاں اندازمیں مکمل کر لی تھی، نیکی و تقوی کی صفات بچپن میں ہی آپ کے اندر نمایاں تھیں۔ آپ نے جہاں شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ جیسے مجاہد عالم دین سے علم حاصل کیا وہاں دوسری طرف آپ نے اپنے وقت کے قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے تصوف و سلوک کی منازل تیزی سے طے کیں۔۔۔ بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری عقائد کی خرابی اور اعمال و عقائد کا بگاڑ دیکھا ۔ آپ چاہتے تھے کہ عوام الناس میں پھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے، اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے،اور دوسروں کو سکھائے
مولانا الیاس نے اس دعوت و تبلیغ والے کام کے طریقہ کار اور چھ اصولوں کے علاوہ کچھ مطالبے اور دینی تقاضے بھی رکھے ہیں جس کے تحت اس دعوت و تبلیغ والے کام کی محنت و ترتیب اور مشورہ کے لیے روزانہ کم از کم دو سے تین گھنٹے وقت دینا، ذکر و اذکار اور اعمال کی پابندی کرنا،روزانہ دو تعلیمیں کروانا ایک مسجد میں اور ایک گھر میں، ہفتہ میں دو گشت کرنا، جس کے تحت کچھ وقت نکال کر اپنے ماحول میں ضروریات دین کی تبلیغ کیلیے باقاعدہ جماعت بنا کرایک امیر اور ایک نظام کی ماتحتی میں اپنی جگہ اور قرب و جوار میں تبلیغی گشت کرنا، ہر مہینے میں تین دن اس دعوت و تبلیغ والے کام میں لگاتے ہوئے اپنے شہر یا قرب و جوار کے علاقہ میں گشت و اجتماع کرتے ہوئے دوسروں کو بھی اس دعوت و تبلیغ والے کام پر نکلنے کیلئے آمادہ اور تیار کرنا، سال میں ایک ’’چلہ‘‘ یعنی چالیس دن اللہ کے راستہ میں دعوت و تبلیغ کیلئے لگانا، اور پھر چار مہینے(تین چلے) اللہ تعالیٰ کے راستے میں نکل کر لگاتے ہوئے دین اور اس دعوت و تبلیغ والے کام کو سیکھے اور پھر ساری زندگی اسی کام میں صرف کرنا۔ بقول مولانا عمر پالن پوری کے کہ ’’اس دعوت و تبلیغ والے کام کو کرتے کرتے مرنا اور مرتے مرتے کرناہے‘‘۔ مولانا محمد الیاس نے اس دعوتی سفر اور نقل و حرکت کے ایام کا ایک مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جس کے تحت یہ تبلیغی جماعتیں اپنا وقت گزراتی ہیں۔۔۔ ایک وقت میں گشت، ایک وقت میں اجتماع، ایک وقت میں تعلیم، ایک وقت میں حوائج ضروریہ کا پورا کرنا اور پھر ان سارے کاموں کی ترتیب و تنظیم۔۔۔ اس طرح گویا یہ تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی خانقاہ متحرک دینی مدرسہ، اخلاقی و دینی تربیت گاہ بن جاتی ہے۔ مولانا الیاس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہمارے طریقہ کار میں دین کے واسطے جماعتوں کی شکل میں گھروں سے دور نکلنے کو بہت زیادہ اہمیّت حاصل ہے، اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ آدمی اس کے ذریعے اپنے دائمی اور جامد ماحول سے نکل کر ایک نئے صالح اور متحرک دینی ماحول میں آجاتا ہے۔۔۔ اور پھر اس دعوت و تبلیغ والے سفر اور ہجرت کی وجہ سے جو طرح طرح کی تکلیفیں اور مشقتیں پیش آتی ہیں اور در بدر پھرنے میں جو ذلتیں اللہ کے لیے برداشت کرنا ہوتی ہیں ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص طور پر متوجہ ہوتی ہیں۔ بانی جماعت مولانا محمد الیاس ایک موقعہ پر فرماتے ہیں ’’یہ امت اس طرح بنی تھی کہ ان کا کوئی آدمی اپنے خاندان، اپنی برادری، اپنی پارٹی، اپنی قوم اپنے وطن اور اپنی زبان کا حامی نہ تھا، مال و جائیداد اور بیوی بچوں کی طرف دیکھنے والا بھی نہ تھا بلکہ ہر آدمی صرف یہ دیکھتا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کیا فرماتے ہیں؟۔۔۔ امت جب ہی بنتی ہے جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مقابلے میں سارے رشتے اور سارے تعلقات کٹ جائیں، جب مسلمان ایک امت تھے تو ایک مسلمان کہیں قتل ہوتا تو ساری امت ہل جاتی اور تڑپ اٹھتی، اب ہزاروں، لاکھوں مسلمانوں کے گلے کٹتے ہیں اور کانوں میں جوں نہیں رینگتی‘‘۔ آج پوری دنیا میں تبلیغی جماعت اس دعوت و تبلیغ والے کام کو پوری محنت، اخلاص وللہیت اور ایک نظم کے ساتھ کر رہی ہے اور اس کام کے اثرات و ثمرات سے آج کوئی بھی ذی ہوش انسان انکاری نہیں۔۔۔۔ اللہ کی مدد و نصرت سے ناقابل یقین حد تک کامیابی ہو رہی ہے۔۔۔
دن رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت اور فسق و فجور میں زندگی گزارنے والے لاکھوں افراد اس تبلیغی جماعت کی بدولت تہجد گزار، متقی، پرہیز گار اور دین کے داعی بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ دعوت و تبلیغ والے اس کام کی مثال پوری دنیا میں کسی مذہب والے کے پاس نہیں ہے۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب کا کہنا ہےکہ ’’اصلاح نفس کے چار طریقے ہیں اور حُسنِ افاق سے ’’تبلیغ‘‘ کے اندر یہ چاروں طریقے جمع ہیں، صحبتِ صالح بھی ہے ذکر و فکر بھی، مواخات فی اللہ بھی ہے، دشمن سے عبرت و موعظت بھی اور محاسبہ نفس بھی ہے۔۔۔ اور انہی چاروں کے مجموعہ کا نام ’’تبلیغی جماعت‘‘ ہے عام لوگوں کے لیے اصلاح نفس کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا ۔
"تبلیغی جماعت اور مولانا مودودی”
مولانا مودودی رحمہ اللہ تبلیغی جماعت کے متعلق ایک صحافی کے جواب میں فرماتے ہیں:
” شاید آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ جماعتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت میں کوئی اختلاف ہے، ہم نے کوئی دکان نہیں کھول رکھی ہے کہ سمجھنے لگیں کہ جس نے بھی ہماری دکان سے سودا نہیں خریدا وہ ہمارا دشمن ہے، ہم(وابستگانِ جماعتِ اسلامی) اور وہ(وابستگانِ تبلیغی جماعت) اسلام کی خدمت کے لیے اُٹھے ہیں، وہ بھی اللہ کی طرف بلا رہے ہیں اور ہم بھی ، اس لیے فطری طور پر ہم میں محبت ہونی چاہیے، آپ خود غور کریں میں کیوں اِن سے خفا ہو سکتا ہوں، کیا نماز کی طرف دعوت دینی اتنی بری ہے کہ مجھ پرغصہ سوار ہو جائے؟ کیا کلمۃ شہادت پڑھانا اور اس کی تعلیم دینا اتنا بڑا گناہ ہے کہ میں ان پر اپنا جام غضب انڈیلنے پر تل جاؤں؟ اگر میں اسلام کا داعی ہوں تو یہ سمجھوں گا کہ وہ میرا ہی کام کر رہے ہیں، وہ کوئی زنا، شراب نوشی، کفر و شرک کی دعوت نہیں دے رہے ہیں کہ وہ ایک صف میں کھڑے ہو جائیں اور میں ایک صف میں کھڑا ہو جاﺅں اور رسہ کشی کا آغاز کردیں، اس کے برعکس ہم سب اسلام ہی کی صف میں کھڑے ہوئے ہیں اور ہمارے مقابل کفر اور جاہلیت کی صف ہے“
(بحوالہ رسائل و مسائل حصہ دوم)
الغرض تبلیغی جماعت مخلوق کو مخلوق کی غلامی سے نکال کرخالق کی بندگی و غلامی میں لانے، صحابہ کرامؓ جیسی پاکیزہ صفات و عادات کو اپنانے اور پیدا کرنے، صبح جاگنے سے لے کر رات سونے تک، کھانے پینے سے لے کر بیت الخلاء تک، گویا کہ پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک پوری زندگی میں دین لانے کی کوشش اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے اور خالق ہی سے سب کچھ ہونے کا یقین دلوں میں پیدا کرنے میں مصروف ہے
حقیقت یہ ہے کہ جس کام میں بھی جان و مال اور وقت یہ تین قیمتی چیزیں خرچ ہو جائیں تو وہ کام بھی قیمتی ہو جاتاہے۔
آج کل سعودی عرب حکومتی سطح پر سرزمینِ حجاز میں جماعتِ تبلیغ پر پابندی لگانے کا اعلان کرچکی ہے کیونکہ بن سلمان سے لیکر سعودی حکومت کے تمام اعلیٰ عہدوں پر صیہونی ذہنیت کے حامل افراد مسلط ہیں جو ذہنی، فکری اور نظریاتی طور پر یہود کے ایجنٹ ہیں جنکا مشن ہی سرزمینِ مقدس میں بےحیائی،فحاشی،اورعریانیت کو رواج دینا ہے تو پھر اسلام اور اشاعتِ اسلام کی محنت انہیں کہاں گوارا ہوسکتی ہے؟؟؟
لیکن تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ ان کے متعلق سعودی حکومت جو چاہے بے سروپا الزامات لگادے، چنانچہ سعودی عرب کے مساجد میں گزشتہ جمعہ کے خطبات میں جس طرح کہاگیاکہ ” تبلیغی جماعت” مشرک ہے، تبلیغی جماعت قبروں کی عبادت کی طرف بلاتی ہے اور بزرگانِ دین کی قبروں کو سجدہ کرتی ہے اور دہشت گردی کی طرف دعوت دیتی ہے (جبکہ دنیا جانتی ہے کہ یہ دونوں صفتیں تبلیغی جماعت میں نہیں پائی جاتی، تبلیغی جماعت دیوبندی ہے اور دیوبندی مسلک میں بھی قبر پرستی شرک عظیم ہے ، لیکن پتہ نہیں مملکت سعودی عرب کےزر خرید علماء وخطباء حضرات نے کس منتر سے مسلک دیوبند (تبلیغی جماعت) کے ساتھ قبر پرستی اور دہشت گردی کو جوڑ دیا۔! افسوس ہوتا ہے کہ ممبر رسول پر جھوٹ بولا گیا، العیاذ باللہ!!
ایسے وقت میں دنیا کے ہر انصاف پسند انسان کو تبلیغی جماعت کے دفاع میں کھڑا ہونا اور سرزمینِ حجاز پر سعودی حکومت کی جانب سے جدید ومعتدل اسلام کے نام فروغ دیے جارہے بے حیائی وبرہنگی کے پروگرامز کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے۔
Comments are closed.