سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی اور ہمارا افسوسناک رویہ!

لقمان عثمانی
حد ہوگئی رذالت و خساست کی کہ لوگ نہ صرف یہ کہ سعودی عرب کے ہر ناجائز اقدام کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں بلکہ اس کو اپنی بے جا تاویلات کے ذریعے جواز فراہم کرنے کی احمقانہ کوشش میں بھی مصروفِ عمل ہیں ـ تبلیغی جماعت جو خالص مذہبی اور دینی جماعت ہے، حسنات کی ترغیب دیتی اور سیئات و منہیات سے روکتی ہے اور عوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیتی ہے اور جس تحریک نے عالمِ انسانی کے لاکھوں انسانوں کو اللہ سبحانہ و تعالی کی توفیقِ گراں مایہ سے معصیات کی ظلمتوں سے نکال کر معروفات کی راہِ روشن پر گامزن کرنے کا کام کیا، کتنوں کی زندگیاں بدل دیں اور اسی تحریکی جماعت کی سرگرمیوں کی بہ دولت کتنے ہی لوگوں کا مسجد سے رشتہ جُڑ گیا اور جن مسلمانوں کو کلمے تک کا علم نہیں تھا انہیں دین سے آشنا کرایا؛ ایک ایسی مخلص جماعت پر بے توفیق شاہانِ عرب نے دہشت گردی اور قبر پرستی کے بے بنیاد الزامات تھوپ کر جزیرۃ العرب میں مکمل پابندی عائد کردی؛ لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ عرب کے ان مجرموں پر ایمان لانے والے کچھ ضمیر فروش مسلمان بھی اس کی حمایت کرتے نظر آرہے ہیں ـ اگر آپ کی آنکھوں پر مسلکی عصبیت کا پردہ ہے پھر تو آپ قابلِ رحم ہیں کہ انسان مسلکی عبصیت کی چشمک اپنی آنکھوں پر لگا لینے کے بعد حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوجاتا ہے اور پھر کسی بھی تحریک و جماعت کے غلط ہونے کے لیے اس کا کسی دوسرے مسلک سے تعلق ہی کافی ہوتا ہے؛ لیکن اگر آپ کی آنکھیں مسلکی عصبیت کے ناپاک پردے سے محفوظ ہیں تو پھر آپ اس جماعت کے اخلاص اور اس کی اہمیت و افادیت کا اعتراف کرنے سے خود کو نہیں روک پائیں گے، بلکہ ہمارے درمیان فروع میں پائے جانے والے اختلافات کے باوصف اصول میں اتفاق کی بنیاد پر بہ حیثیتِ مسلمان سعودی کی اس گھٹیا حرکت کی مذمت کرنے کو بھی اپنا دینی و اخلاقی فریضہ تصور کریں گے ـ
در حقیقت جزیرۃ العرب کی حکومت اس وقت یہودیوں کے اشاروں پر ناچنے والے نچنیوں اور اسلامی ڈھانچے میں یہودی فکر و مقصد کو ترویج دینے والے دوغلوں کے ہاتھوں میں ہے جو زنا کو قانونی جواز فراہم کر رہے، جوّے اور شراب نوشی کو عام کررہے ہیں اور بے حیائی کے اڈے قائم کرکے محفلِ رقص و سرود کا اہتمام کررہے ہیں؛ تو ظاہر ہے کہ ایسی صورتِ حال میں وہ ایسی کسی بھی تحریک کو برداشت نہیں کر سکتے جو ان کی ذلیل پالیسیوں کے خلاف کام کرے اور ان کے قائم کردہ گناہوں کے اڈے کی بجائے نیکیوں کے راستے کی دعوت دے؛ چناں چہ انہوں نے وہی کیا جو انہیں کرنا تھا اور جس کا ان کے آقا ان سے تقاضہ کررہے تھے، لیکن افسوس ہے کہ سعودی کی ان تمام تر مذموم حرکتوں پر بھی ہمارے چند ایمانی بھائیوں کا ضمیر نہیں جاگتا؛ یہی وجہ ہے کہ حجازِ مقدس میں جماعت پر پابندی سے لے کر بدکاری کے فروغ تک ان کے ہر ناپاک عمل کو کھلی آنکھوں سے دیکھ کر چپی سادھے رہتے ہیں، بلکہ کچھ لوگ تو اس کی سراہنا بھی کرتے اور خوش ہوتے ہیں جیسے ان کا قبلہ کعبۃ اللہ نہیں، بلکہ یہی یہودیوں کے آلۂ کار شاہانِ عرب اور فاسق و فاجر حکام ہوں جن کے خلاف بولنا عذابِ الہی کو دعوت دینے جیسا ہو ـ
نیز کچھ لوگ تو دارالعلوم دیوبند کے احاطے میں جماعتی سرگرمی پر لگی پابندیوں کو دلیلِ جواز بنا کر پیش کررہے ہیں کہ جب خود دارالعلوم نے پابندی لگا رکھی ہے تو پھر سعودی کے اس عمل پر ہنگامہ کیوں؟ جب کہ کسی بھی ہوش مند انسان کو یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ دارالعلوم نے تبلیغی جماعت میں رونما ہونے والے اختلافات کی وجہ سے طلبہ کے مابین خلفشار ہونے کے اندیشے کے پیشِ نظر پابندی عائد کی تھی نا کہ نفسِ جماعت کی مخالفت کی تھی، اور نا ہی اس آفاقی جماعت پر بے بنیاد الزامات لگائے تھے، بلکہ یہ اعلان بھی کردیا تھا کہ جب وہ آپسی اختلافات ختم ہوجائیں گے تو دعوتی سرگرمیوں کی اجازت بھی دے دی جائے گی ـ اس بات سے قطعا انکار نہیں کہ مرورِ ایام کے ساتھ اس جماعت میں بھی بہت سی کمیاں در آگئیں؛ تاہم ان جزوی کمیوں کی اصلاح کی جاسکتی ہے، بلکہ اپنی اپنی سطح پر اصلاح کی کوشش کی بھی جا رہی ہے؛ لیکن ان کمیوں کی وجہ سے نفسِ جماعت کی مخالفت کرنا اور اس پر پابندی لگانے کو روا سمجھنا سراسر حماقت ہے، ضلالت ہے، جہالت ہے، سفاہت ہے ـ
Comments are closed.