موجودہ سنگین حالات میں مسلمانوں کو مدارس کی امداد کے لیے آگے آنا وقت کا اہم ترین تقاضا۔

مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی
چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈرہسرچ ٹرسٹ بنگلور وجامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور
تعلیم سے صرف بچوں کا مستقبل ہی نہیں بلکہ ملکوں اور قوموں کا عروج و زوال وابستہ ہے۔اس میدان میں کامیابی ہر شعبے میں کامیابی کے دروازے کھول دیتی ہے۔
کورونا وائرس کے دور میں تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ نہ صرف بدل گیا بلکہ اس نے اس پورے نظام کو تہہ و بالا کرد یا ہے۔
گزشتہ کئی مہینوں سے کئی مواقع پر کیسز بڑھنے کے باعث تعلیمی ادارے بند ہوتے رہے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم میں حرج کے علاوہ تعلیمی شعبے سے وابستہ افراد کا روزگار بھی متاثر ہوا ہے۔
تعلیمی اداروں کی بندش سے طلبہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
تعلیمی اداروں کی بار بار بندش سے طلبہ کا اُساتذہ سے رابطہ اور اساتذہ کا والدین سے رابطہ کٹ چکا ہے۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ لاک ڈاون کی مدت کے دوران
ہمارے ملک میں آن لائن تعلیم تک رسائی صرف دو فی صد طلبہ کو ہی مل سکی ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پیدا شدہ صورت نے اپنے شدید تر سماجی اور اقتصادی اثرات کے ساتھ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے لیکن جو تباہی تعلیمی شعبے میں دیکھنے میں آئی، اس کی تلافی ممکن نظر نہیں آتی۔
ہمارے ملک میں اس وبا کے باعث لاک ڈاؤن نے طلبا و طالبات کے تعلیمی کیرئیر کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
دنیا بھر میں اس وبا سے پیدا ہونے والے حالات تقریباًایک ارب طلبا و طالبات کو متاثرکیا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ کٹھن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارا ملک اور ہمارے تعلیمی ادارے پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے ہاں تعلیمی شعبے پر اب تک کے مقابلے میں زیادہ توجہ دیں ، اور اس میدان میں جدید ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو یقینی بنایا جائے۔
یکم ستمبر سے ملک کےچھوٹے بڑے مدارس میں درس تدریس کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
گزشتہ تقریباً دو سالوں سے کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پیدا شدہ صورت نے اپنے شدید تر سماجی اور اقتصادی اثرات کے ساتھ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے لیکن جو تباہی تعلیمی شعبے میں دیکھنے میں آئی، اس کی تلافی ممکن نظر نہیں آتی۔
اس وبا نے جہاں طلبا و طالبات کے تعلیمی کیرئیر کو بری طرح متاثر کیا ہے وہیں اس کا سب سے زیادہ نقصان مدارس کو اٹھانا پڑا ہے،اب جبکہ تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے لیکن ابھی بھی بہت سی چیزیں اور بہت سے مسائل اور امور ایسے ہیں جو مدارس کے انتظامیہ کے لئے حددرجہ تشویشناک ہیں۔
ان میں سب سے بڑا مسئلہ مالیات کا ہے، کیوں کہ گزشتہ دو سال کے درمیان مدارس کی وہ خاطر خواہ امداد لوگوں کے ذریعہ نہیں ہو سکی جو پہلے ہورہی تھی ۔
جس کی ایک اہم وجہ کاروبار کا متاثر ہونا بھی ہے،ساتھ ہی لوگوں نے مدارس کے بجائے مقامی سطح پر زیادہ امداد کی،لوگوں کی سوچ تھی کہ جب مدارس بند ہیں اور تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری نہیں ہے تو اس طرف رجوع کیوں کیا جائے۔
اب اس وقت سبھی چھوٹے بڑے مدارس میں سب سے بڑا مسئلہ مطبخ اور تنخواہوں کے نظام کا ہے جس کی وجہ سے ذمہ داران مدارس بہت پریشان ہیں۔
لاک ڈاؤن کے بعد مدارس اسلامیہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ان کے وسائل کی فراہمی معمول کے مطابق نہیں کی جا سکی ، جس کے باعث مدارس سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔
ایسے حالات میں علم اور اہل علم کے قدردان لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس وقت اپنی بھر پور توجہ مدارس کی جانب کریں تاکہ مدارس بحال ہو سکیں۔
اس وقت مدارس میں مالی معاونت کم ہونے سے ان کے معاشی حالات بگڑنے لگے ہیں۔
جہاں تمام اسکول فیس کی بنیاد پر اپنے ضروری اخراجات پورے کر لیتے ہیں وہیں مدارس کی ضروریات کی تکمیل چندے سے ہوتی ہے۔
اس لئے ایسے سنگین حالات میں مسلمانوں کو مدارس کی امداد کے لیے آگے آنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔
Comments are closed.