نفرت کے نعرے، نفرت کی باتیں

محمد صابر حسین ندوی
اس وقت پورا ملک ہندوتوا وادی سوچ اور ہندو راشٹر کے خواب کو سنجوئے متشدد جماعتوں اور پروپیگنڈوں کے درمیان سسک رہا ہے، جس ملک میں بھائی چارہ، اخوت اور مواسات کو سرآنکھوں پر رکھا جاتا تھا، وہاں اب قتل و عارت گری کی باتیں، قسمیں، وعدے اور نسل کشی کے حلف اٹھائے جارہے ہیں، باقاعدہ سمینار، سمپوزیم اور اجتماعات کے ذریعہ ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی کو نیست ونابود کردینے کا عہد لیا جارہا ہے، دستور و آئین اور جمہوریت و سیکولرازم کی بنیادوں پر چلنے والا یہ ملک اب شرپسندوں اور فاشزم کی پوجا کرنے والوں کے ہاتھوں یرغمال بنایا جاچکا ہے، ہجومی تشدد اور نفرت کی بھیڑ کے بعد نعرے بازیاں، بھڑکاؤ بھاشن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اگلنے کی ہوڑ زوروں پر ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ اس درمیان قانون کہیں گم ہوچکا ہے، پولس، آئین کی قسمیں کھانے والے ناپید ہوگئے ہیں، کوئی شنوائی نہیں، کوئی ایف آئی آر نہیں؛ بلکہ اس نعرے کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور اس سے سیاسی روٹی سینکنے کی کوشش جاری ہے، جس طرح انتخابات کے دوران دہلی میں انوراگ ٹھاکر اور کپل مشرا وغیرہ نے نفرت کے نعرے لگائے تھے اور اس پر سیاست کی گئی تھی، ٹھیک اسی طرح اس وقت بھی سلوک کیا جارہا ہے اور بعید نہیں کہ یہ نفرت کی ہوا محبت کے چراغ گل کردے اور اگلے متعدد صوبائی انتخابات کے نتائج پر اثر ڈالے، رپورٹس کے مطابق ہندوتوا لیڈر یاتی نرسنگھ ناد نے اتراکھنڈ کے ہریدوار شہر میں ١٧/سے ١٩/دسمبر ٢٠٢١ء تک تین روزہ نفرت انگیز تقریر کانفرنس کا اہتمام کیا، جہاں ملک میں اقلیتوں کو مارنے اور ان کے مذہبی مقامات پر حملہ کرنے کی باتیں کی گئیں۔ کانفرنس کا ایک حصہ سوشل میڈیا پر لائیو سٹریم بھی کیا گیا اور کچھ تقاریر کے ویڈیو کلپس وائرل ہو چکے ہیں۔ غازی آباد کے داسنا دیوی مندر کے متنازعہ پجاری اور حال ہی میں جو نا اکھاڑہ کے مسح کر دہ مہمند لیشور نر سگھنند کے ساتھ اس اجتماع میں دیگر مقررین بھی موجود تھے ، جن میں اناپور ناماں، بہار سے دھرم داس مہاراج، آنند سوروپ مہاراج، ساگر سندھو راج مہاراج، سوامی پربمانند مہاراج، اور بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے کا نام بھی شامل ہے۔
نیرنجنی اشونی اپادھیائے نے اپنے گرو دیو نر سنگھ نند کو بھگوا رنگ میں ہندوستان کا آئین پیش کیا۔ وہ وہی ہے جس پر پہلے دہلی کے جنتر منتر میں ایک ریلی کے انعقاد میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، جہاں مسلم مخالف نعرے لگائے گئے تھے. اس پورے کانفرنس میں نفرت کی گونج رہی، ذیل میں چند اقوال نقل کیے جارہے ہیں، جنہیں Twitter اور دیگر سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا ہے، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا کہ ملک کس رخ پر جان پڑا ہے، اکھاڑہ کے مہمند لیشور اور ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری انا پور نامانے کہا: "اگر آپ ان کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مار ڈالو… ہمیں ١٠٠/ فوجیوں کی ضرورت ہے جو اس جیت کے لیے ان میں سے ٢٠/ لاکھ کو مار سکیں” ۔دھرم داس مہاراج (بہار) نے کہا: ”اگر میں پارلیمنٹ میں موجود ہوتا جب وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا کہ قومی وسائل پر اقلیتوں کا پہلا حق ہے، تو میں ناتھو رام گوڈسے کی پیروی کر تا، میں ریوالور سے ان کے سینے میں چھ گولی مار تا”. سوروپ مہاراج نے کہا: "اگر حکومتوں نے ہمارا مطالبہ نہیں سنا( اس کا مطلب اقلیتوں کے خلاف تشدد کے ذریعے ہندو راشٹر کا قیام ہے ) تو ہم ١٨٥٧ء کی بغاوت سے کہیں زیادہ خوفناک جنگ چھیٹر دیں گے ۔” آنند سوروپ کا دعوی ہے کہ اس نے ہریدوار میں لوگوں اور ہوٹلوں کو کر سمس نہ منانے کی دھمکی دی تھی۔ اس سال کے بعد وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اتراکھنڈ میں اپنے تہوار منانے کی اجازت نہیں دیں گے؛ کیونکہ یہ صرف ہندوؤں کا ہے، مسلم کمیونٹی کے خلاف مسلح تشدد بھڑکانے کے لیے شاستر امیو جیتے کاموٹو دیتے ہوئے نر سنگھ ناد نے کہا: ” معاشی بائیکاٹ کام نہیں آئے گا۔ ہندو گروپوں کو خود کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ تلواریں صرف اسٹیج پر اچھی لگتی ہیں۔ یہ جنگ جیت جاۓ گی۔ جن کے پاس بہتر ہتھیار ہیں۔” اسی طرح ساگر سندھو راج مہاراج نے کہا:” میں بار بار دہراتا ہوں کہ ٥٠٠٠/ روپے کا موبائل خریدنے کے بجائے ایک لاکھ روپے کا ہتھیار خرید و۔ کم از کم آپ کے پاس لاٹھیاں اور تلواریں ہونی چاہئیں”… روہینگیا نسل کشی کا تذکرہ کرتے ہوئے سوامی پر بودھانند نے کہا کہ "مرنے کیلئے تیار ہو جاؤ یامار ڈالو، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ جس طرح میانمار میں پولیس، فوج، سیاست دان سمیت ہر ہندو کو صفائی شروع کرنی چاہیے جیسا کہ میانمار میں ہو اتھا۔“
7987972043
Comments are closed.