خوشبوۓ حبِّ رسول

 

سعدیہ مسکان،فیصل آباد

انسانوں کا المیہ ہے کہ وہ پرکشش شخصیت چاہتے ہیں پوری دنیا کو اپنے سحر میں جکڑ لینا چاہتے ہیں۔چاہتے ہیں کہ ان کے وجود سے ایسی خوشبو آۓ کہ پاس سے گزرنے والے انسان حتی کہ چرند پرند ان کے طلسم میں جکڑے جائیں۔جس کے لیے مہنگے ترین عطر خریدے اور استعمال کیے جاتے ہیں۔اس کے باوجود بھی کچھ قالب ایسے ہوتے ہیں جو بدبودار ہی رہتے ہیں۔وہ ہزارہا جتن کرنے کے باوجود بھی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔کیا آپ جانتے ہیں ایسے وجود کون سے ہیں۔۔۔؟؟؟

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دل عشق محمدی سے خالی ہوتے ہیں۔جن کی زبانوں کی سر زمینوں کو ذکر الہی اور ذکر محمد سے سیراب ہوۓ سالہاسال گزر جاتے ہیں۔جو دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ انھیں ذرہ برابر خیال نہیں رہتا کہ ان کے وجود کس قدر بدبودار ہو چکے ہیں۔انہیں بتاؤ کہ اپنے جسم و جاں کو خوشبودار کرنا چاہتے ہو تو رسول اللہ ،خاتم النبیین،رحمت عالم،تاجدار عالم، والضحی کے چہرے والے ،والیل کی زلفوں والے اللہ کے محبوب حضرت محمد مصطفی،احمد مجتبی پر درودوسلام بھیجا کرو۔جن پر خور مالک کون و مکاں فرشتوں کی فوج کے ساتھ درودوسلام بھیجتا ہے۔ان کی الفت سینے میں بسالو ۔ان کے ذکر کی مالا ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ جپتے رہو ۔کوئی شک نہیں کہ تمہارے وجود خوشبودار کردیے جائیں گے ۔تمہارے قالبوں سے ایسی مہکاریں اٹھیں گی کہ مہنگے عطروں کو پیچھے چھوڑ دیں گی۔ایک ایسی ذات جن کے پسینے کی بو ایسی ہے کہ دنیا جہان کے پھولوں کو ملا کے بھی ایسی بو دریافت نہ ہوسکے گی۔ان کی عظمت الفاظ میں بیان کرنا عام انسان کے بس میں نہیں۔پھر بھی شاعر لکھتے ہیں۔

 

”عطر و مشک و عنبر کی کیا بساط ہے لوگو

دو جہاں معطر ہیں آپﷺ کے پسینے سے “

علاءالدین شاہی

”پھول اپنی جگہ عطر اپنی جگہ

تو محمدﷺ کے پسینے سے واقف نہیں“

 

”ایسی خوشبو چمن کے گلوں میں کہاں

جیسی خوشبو نبی کے پسینے میں ہے“

جب تمہاری زبانیں صبح وشام ان سے محبت کے راگ الاپیں گی تمہارے وجود ان کے عشق میں وجد میں آئیں گےتو شک کی گنجائش ہی نہیں کہ بدبوداروں کو خوشبودار نہ کیا جاۓ۔کرنا کیا ہے کہ روز ایوان بالا میں اپنے نام کی ایک چٹھی بھیجنی ہے ۔روز،لگاتار،بلاناغہ۔چٹھی میں شرمساری کے آنسوؤں سے قلب و آنکھوں کا وضو کرواکے زبان سے پچھلے گناہوں پر شرمندگی کا اقرار کرتے ہوۓ دل میں دوبارہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کرکے حضور اکرم ص پر ،آپ کی آل پر درودوسلام کے پھولوں کی مالا بن کے محبوب خدا کے نام چٹھی میں رکھ بھیجنی ہے۔ایک بار اگر بھیج کر تم بھول جاؤ گے تو جِسے بھیج رہے ہو جب تمہارا نام اس کی سماعتوں میں کئی کئی دن نہیں گونجے گا تو پھر کہاں یاد رہ سکوگے ۔جب لگاتار حاضری لگے گی ۔ایک دن نام لے کے بتایا جاۓ گا کہ حضور ایک عاشق ہے اپنی خطاؤں پر نادم و شرم سار ہے آپ کے لیے درودوں کی مالا بھیجی ہے۔اگلے دن پھر بھیجو گے تو پھر نام پکارا جاۓ گا ۔مسلسل بھیجتے رہو گے تو ایک دن تمہارے نام پہ جواب آۓ گا!! وہی روز والا؟ کہا جاۓ گا ہاں! حکم ہوگا میرا دیوانہ کیا کہتا ہے؟ عرض کی جاۓ گی یارسول اللہ مدینے کا سفر چاہتا ہے،آپ کے کرم کی اک نظر چاہتا ہے،بلاوے کا منتظر ہے ،بے تاب دل و نظر ہے۔آپ کی خدمت میں حاضری کا خواہاں ہے ۔جواب آۓ گا اتنا بے تاب و بے قرار ہے تو بلا لو۔ہاۓ کتنی خوش نصیبی ہوگی حضور کے در سے ملاقات کا بلاوا آۓ گا۔ارے نادانو پھر تمہارا جسم تو کیا تمہاری روح بھی مہک اٹھے گی ۔پھر مہنگے عطروں کی کہاں ضرورت رہے گی۔جس گلی سے گزروگے لوگ خوشبو سے پہچان جائیں گے کہ عاشق رسول آرہا ہے۔تو پھر کیوں بدبودار جسم لیے لیے پھرتے ہو کیوں زنگ آلود روحوں کے چنگل میں شب وروز بسر کرتے ہو ؟ ظاہری خوبصورتی کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے۔ چہرہ،ہاتھ اور پاؤں رگڑ رگڑ کے دھوتے ہو ۔ہزارہا جتن کرتے ہو ۔تو روح کا خیال کیوں نہیں کرتے کیا اسے خوبصورت لگنے کا کوئی حق نہیں؟ وہ بھی آپ کی توجہ کی محتاج ہے۔ ذرا اس پر سے گناہوں کی دھول ہٹاؤ۔توبہ کے آنسوؤں کی بارش برساؤ۔پھر اسے خوشبوؤں کے دیس لے جانے کی خوشخبری سناؤ۔جہاں اعلی مہکاریں عرش و فرش کو معطر کیے دیتی ہیں۔اس دیس سے کبھی غیر حاضر نہ ہونا۔یہ نہ ہو تمہاری ذرا سی کوتاہی پھر سے تمہیں بدبودار کال کوٹھری میں لاکر پھینک دے۔حاضری لگواتے رہنا تاکہ سرکار کو پتہ ہو کہ اک دیوانہ بیشک گناہ گارو خطاکار ہے مگر رحمت کا طلبگار ہے۔کبھی نا کبھی تمہاری ٹوٹی پھوٹی حاضریاں قبول ہوجائیں گی۔تمہاری روحیں خوشبودار کر دی جائیں گی جس کے بعد تمہیں کسی عطر کی ضرورت نہیں رہے گی۔

Comments are closed.