بقیۃ السلف حضرت مولانا محمد افتخارالحسن کاندھلوی چندنقوش وتأثرات

ازقلم: محمد ارتضاء الحسن رضی کاندھلوی
مقیم دوحہ،قطر
حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلویؒکی شخصیت علمی، دینی اور اصلاحی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ہے، آپ کی حیات مبارکہ، مخلصانہ، مجاہدانہ اور سرفروشانہ کارناموں سے بھری ہوئی ہے، تقریباً آٹھ دہائیوں تک ان کاستارہئ بلند اقبال بر صغیر کے دینی افق پرجگماتا رہا اور وہ اپنی علمی اور روحانی شخصیت سے ایک عالم کو سیراب کرتے رہے، اللہ رب العزت نے آپ کی عمر میں برکت عطافرمائی، چنانچہ وفات کے وقت عمر مبارک سو سال،چارماہ اور سولہ دن تھی۔
آپ کو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ، شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ، حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، حضرت مولاناشاہ اسعد اللہؒ رامپوری اور ان جیسے دیگر اساطین امت کی نہ صرف زیارت کا موقع ملا، بلکہ ان میں سے اکثر کو قریب سے دیکھنے،سمجھنے، برتنے اور بھر پور علمی اور روحانی استفادے کی سعادت نصیب ہوئی، جس کی وجہ سے ان اکابر کے روحانی اثرات آپ کی شخصیت میں نمایاں تھے،یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی اکابر کاجیتا جاگتا نمونہ دیکھنا چاہتا تو آپ کی زیارت کرکے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرلیتا اور یہ کہنے پر مجبور ہوتا ”بسیارخوباں دیدہ ام‘لیکن تو چیزے دیگری“۔
بلند شخصیت، بے غرض جدوجہد، بے داغ زندگی اور مکارم اخلاق نے آپ کی ذات کو کھرا سونا اور سچا موتی بنادیا تھا، بقول ربیعہ بن مقروم الضبی کے؛
ھجان الحی کالذہب المصفیٰ
صبح یۃ دیمۃ یجنیہ جان
زیر نظر مضمون میں راقم السطور کے پیش نظر آپ کے سوانحی حالات کو بیان کرنا یا جملہ کمالات کا احاطہ کرنا نہیں ہے، اس موضوع پرباذن اللہ عم محترم نامور مؤرخ مولانانورالحسن راشد کاندھلوی مدظلہ فرزند و جانشین حضرت رحمۃ اللہ علیہ قلم اٹھائیں گے، اور وہی اس کے حقدار ہیں،میرامقصد تو اپنے ذاتی مشاہدات، تأثرات اور احساسات کو پیش کرنا ہے؛
میں نے اپنے آشیانے کیلئے
جو چبھے دل میں وہی تنکے لئے
اصلاحی تعلق اور کسبِ فیض
آپ نے اولاََ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا، پھر ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلوی ؒ کے مشورے سے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے ”آستانہئ معرفت“ سے وابستہ ہوئے۔ اور چونکہ آپ کا باطن وہبی اور کسبی خوبیوں کے امتزاج کی وجہ سے طریقت کی حرارت اور حلاوت کو قبول کرنے کیلئے تیار تھا، اس لئے آپ نے سالوں کی راہ مہینوں میں، مہینوں کی ہفتوں میں اور ہفتوں کی دنوں میں طے کی اور اپنے شیخ کے اعتماد اور استناد سے بہت جلد سرفراز ہوکر چاروں سلسلوں میں ان کے خلیفہ ومجاز قرار پائے؛
دیتے ہیں بادہ ظرف، قدح خوار دیکھ کر
بعد ازاں آپ نے اس نسبت کی ایسی لاج رکھی اور اس طرح اس کا حق ادا کیا کہ جس کی نظیر تاریخ میں کم ملتی ہے۔ آپ نے اپنی صلاحیتوں سے جو کچھ علمی، دینی اصلاحی،فکری اور انقلابی کارہائے نمایاں انجام دئیے، ہر انصاف پسند مؤرخ انہیں آب زر سے لکھنے پر مجبور ہوگا،اور دردِدل، راست بازی، اولوالعزمی، خودداری، خود شناسی، سحرانگیزی، محنت و جانفشانی، جرأت وبے باکی، ظاہر وباطن کی یکسانیت اور اعلیٰ کردار کے جو لازوال نمونے پیش کئے ہیں، رہتی دنیا تک ان کو یاد رکھا جائے گا؛
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ
علمی مقام
اللہ رب العزت نے آپ کو جو علمی مقام عطا فرمایا تھا وہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے۔ تقویٰ اور کردار کی پاکیز گی نے آپ کے علم میں چار چاند لگادئے تھے، اور بلا شبہ آپ ”واتقوااللہ ویعلمکم اللہ“ کا حسین پیکر تھے، حدیث، تفسیر، فقہ اور تاریخ پرگہری نظر تھی، احادیث مبارکہ کے طویل ترین متون قرآنی آیات کی طرح ازبر تھے اور ان کی شرح و توضیح میں اقوال ائمہ حیران کن حدتک مستحضر، تفسیر میں مطالعہ کی وسعت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رائے پوری قدس سرہ نے زیر مطالعہ کتب تفسیر کی بابت استفسارفرمایا تو آپ نے فنِ تفسیر کی تقریباً پندرہ امہات الکتب کا تذکرہ کیا، آپ کے درسِ قرآن کی عمر نصف صدی سے زائد ہے، اس عرصے میں آپ نے پانچ مرتبہ پورے قرآن کی تفسیر کی جن میں سے آخری دور۲۳/ سال میں مکمل کیا،جبکہ روزانہ فجر کے بعدکم از کم ایک گھنٹہ درس دینے کا معمول تھا۔
فقہ وفتاوی میں بھی آپ امتیازی مقام رکھتے تھے، فقہی کلیات اور جزئیات پر غیر معمولی دسترس حاصل تھی، متقدمین فقہاء کی کتابوں پرگہری نظرہونے کے باوصف حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ کے ”فتاوی محمودیہ“ پر غیر معمولی اعتماد فرماتے تھے، ایک مرتبہ ناچیز سے فرمایا کہ:”فتاوی محمودیہ کو میں ظاہر الروایہ کا درجہ دیتا ہوں“۔ چنانچہ اگر راقم السطور نے کبھی کسی مسئلہ میں اختلاف رائے کیا اور بطور حوالہ ”فتاوی محمودیہ“ کا نام پیش کردیاتو آپ نے بصد بشاشت اس کو قبول کرلیا اور خوشی کا اظہار فرمایا۔
آپ کا علم برائے علم نہیں تھا، بلکہ برائے عمل ودعوت عمل تھا، خود بھی ”معلومات“ کو”معمولات“ بنانے کی عادی تھے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتے تھے، آپ نے اپنے علم کے ایک ایک جزء کو معتقدین اور متوسلین تک پہونچانے میں کسی بخل سے کام لیا اور نہ ہی ”کلموا الناس علی قدرعقولہم“ جیسے اصولوں کو آڑے آنے دیا، اپنے علمی سمندر سے ایسے ایسے موتی عام فہم اور سادہ انداز میں حاضرین کے سامنے پیش فرماتے، جن کی حیثیت خالص علمی ہوتی، بلکہ بعض مرتبہ وہ مضامین عام علماء کی دسترس سے بھی باہر ہوتے، غالباً یہی وہ عادت مبارکہ ہے جسکی وجہ سے ان کے علم میں غیرمعمولی برکت ہوئی اور بہت سے علماء‘ علم کے اس بحر ذخار کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔
حدیث کی ایک عالی سند
منجملہ اسانید حدیث کے آپ کے پاس ایک بہت عالی سند تھی جس کے مطابق آپ کے اورحضرت شاہ عبدالعزیزؒ کے درمیان صرف دو واسطے تھے؛ ۱- شاہ علاؤالدین پھلتی، ؒ ۲- شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی۔ حیات مبارکہ کے اخیر سالوں میں جب علماء عرب کو آپ کی اس خصوصیت کا علم ہوا توسعودی عرب اور قطر وغیرہ کے متعدد علماء عرب نے مختلف کتب حدیث کی آن لائن قرأت کرکے اجازت حدیث حاصل کی، اس طرح اللہ رب العزت نے آپ کے فیض کو عالمِ عرب تک پہونچادیا۔
علمی استحضار:
آپ کی علمی زندگی میں جہاں وسعت علمی نمایاں تھی وہیں آپ کا استحضارحیرت انگیز تھا، نمونہ کے طور پر چند واقعات پیش خدمت ہیں:
۱- ایک مرتبہ ایک جلسے میں تقریر سے فارغ ہوئے تو دیہاتی حضرات معمول کے مطابق مختلف قسم کی بوتلوں میں پانی دم کرانے کے لئے لے آئے، انہی بوتلوں میں آپ کی بیدار نگاہوں نے شراب کی بوتل کو پہچان لیا جو یقینا فی الحال صاف ستھری اور بالکل پاک تھی، مگر اس پر دم کرنے سے انکار کردیا، اس کے استعمال پر نکیر فرمائی اور ناچیز کی طرف متوجہ ہوکر حضرت ابوہریرہ ؓ کی ”النہی عن الدباء والحنتم والنقیر“ والی روایت سے ایسا لطیف استدلال فرمایا کہ بندہ محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
۲- ایک صاحب نے مظفر نگر کی ایک مسجد کا واقعہ نقل کیا کہ وہاں امام صاحب نے فجر کی نماز لحاف اوڑھ کر پڑھائی، آپ نے برجستہ اس طرز عمل پر نکیر فرمائی اور حضرت ابوسعید خدری ؓ کی ”النہی عن اشتمال الصماء“ والی روایت سے استدلال کیا، گرچہ یہاں اختلاف رائے کی گنجائش ہے، مگرآپ کا منٹ کے ہزارویں حصے میں سمندرحدیث کے اندر غوطہ لگاکر متعلقہ حدیث کوپیش کرنا علم حدیث سے غیرمعمولی ربط کی دلیل ہے؛
حدیث مصطفی سے ربط تھا قلب مصفیٰ کو
زباں میں کوثرو تسنیم کی شامل حلاوت تھی
۳- ایک مرتبہ امام مسجد اقصیٰ ہندوستان کے دورے پر تشریف لائے اور انہوں نے مظفرنگر کے قصبہ منصورپور میں ایک بڑے مجمع کو ظہر کی نماز پڑھائی اور مسافر ہونے کے باوجود اتمام کیا (یعنی چار رکعت نماز پڑھائی)اورچونکہ وہ شافعی المسلک تھے اور ان کے مسلک میں مسافر کیلئے اتمام جائز ہے،اس لئے نمازیوں میں اہل علم کو کوئی اشکال نہیں ہوا، لیکن جب آپ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو فرمایا کہ مقیم مقتدیوں کی ظہر کی نماز نہیں ہوئی، کیونکہ امام صاحب حنفی مسلک کی روسے آخری دورکعت میں متنفل تھے اور صلاۃ المفترض خلف المتنفل احناف کے نزدیک جائز نہیں ہے، اس واقعہ سے آپ کی فقہی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار واقعات آپ کی تبحر علمی پر شاہد عدل ہیں؛
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے
جی چاہتاہے نقشِ قدم چومتے چلیں
تواضع، مروت اور احترام علماء:
قدرت نے آپ کے مزاج میں غیر معمولی تواضع اور انکساری ودیعت رکھی تھی، شان وشوکت اور کروفر سے دور رہتے تھے، سفروحضر میں اگر آپ کے اکرام یا استقبال کا کوئی خاص اہتمام کیاجاتا تو طبعی طور پر ناگواری ہوتی اور سخت ناراضگی کا اظہار فرماتے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بناؤٹی تواضع تو ہر ایک آسانی سے اختیار کرلیتا ہے، مگرآپ کے یہاں حقیقت ہی حقیقت تھی، تصنع کا نام ونشان نہیں تھا؛ کیفیت ہی کیفیت تھی رسمیت کا تصور نہیں تھا؛اور للہیت ہی للہیت تھی دکھلاوے کا کوئی خانہ نہیں تھا۔
شہرت،ناموری اور”اونچی اڑان“ کی خواہش سے کوسوں دوررہتے تھے،ٓپ نے عملی زندگی کے آغازمیں اپنی دینی جدوجہد کا جو ایک دائرہ کھینچاتھا،پوری زندگی اس دائرے سے باہرنہیں نکلے، بڑے بڑے شہروں اورملکوں کے اسفارجو کہ موجودہ دورمیں مقبولیت کا معیاربن چکے ہیں،احباب اور اہل تعلق کے ہزار اصرار کے باوجود ان کیلئے رضامند نہیں ہوئے،بالخصوص مولاناابراہیم پانڈورنے افریقہ کی بارہادعوت دی اور اصرارکیا،مگرہرمرتبہ آپکی یہی سرشت مانع رہی،اس کے باوجود اللہ رب العزت نے آپ کے چشمۂ فیض سے ایک عالم کوسیراب کیا۔
آپ کے دولت کدہ پر ہر طرح کے لوگ آتے تھے، اشراف دین بھی اور اشراف دنیا بھی اور آپ ”انزلواالناس منازلہم“ کے نبوی اصول پر سختی سے عمل پیرا رہتے تھے،البتہ اگر کسی بزرگ یا عالم دین کی آمد ہوتی تو تواضع اور جذبہئ ضیافت واکرام دوبالا ہوجاتا اور آنے والا ایسا تأثر لیکر جاتا جو زندگی بھر تازہ رہتا۔
راقم السطور کے نزدیک آپ کی ایک بڑی خصوصیت ”علمی تواضع“تھی، علمی مباحث کو کبھی ”ناک کا مسئلہ“ نہیں بناتے تھے، اگرکسی کی رائے دلیل کے اعتبار سے قوی معلوم ہوتی تو قبول کرنے میں تردد نہ فرماتے،اقران اور معاصرین سے تقابل کبھی حاشیہ ئ خیال میں بھی نہ آتا،بلکہ ان کے اعزاز واکرام میں فخر محسوس کرتے اور خود سراپا تواضع بن جاتے، اس سلسلہ کے دو واقعات کے نقل پر اکتفاء کرتا ہوں، جن کا میں عینی شاہد ہوں:
۱- ایک مرتبہ جامعہ مظاہر علوم کی شوری میں شرکت کیلئے سہارنپور تشریف لے گئے، دوران قیام ناچیز سے فرمایا کہ”مولانا یونس صاحب سے ملاقات کرنی ہے“،چنانچہ میں آپ کو مخدومی حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدیونس صاحب ؒ کے حجرے میں لے گیا،شیخ نے اکراماََ ان کیلئے گدا بچھوایا اور گاؤ تکیے لگوائے،مگر آپ نیاز مندانہ انداز میں قدرے تکلف کے ساتھ بیٹھے، ان دو جبال علم کی ملاقات کے دوران ناچیز جو ہر بات کو بڑی اہمیت کے ساتھ نوٹ کر رہا تھا، اس وقت ورطہئ حیرت میں پڑ گیا جب شیخ ؒ نے کچھ ناصحانہ کلمات کہے، جن میں بطور خاص اخلاص پر زور دیا تو آپ نے گردن جھکا کر اس انداز سے ان نصائح کو سنا جیسے کوئی شاگرد یا عام مرید ہو، اور آخر میں متواضعانہ انداز میں فرمایا:”میں پوری کوشش کروں گا، آپ دعا فرمائیں!“حالانکہ آپ مقام ومرتبہ کے اعتبار سے کم نہیں تھے، بلکہ عمر میں تو شیخ سے کافی بڑے تھے، ناچیز اپنی کم مائیگی کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہا کہ اس واقعہ میں حضرت شیخ ؒکی مخصوص روحانی کیفیت کوسرمایہئ دل و جاں بناؤں یا آپ کی اس عالمانہ تواضع کو سرمہئ چشم،جس میں آپ اپنے اقران کی صف میں بالکل ممتاز نظر آتے ہیں۔
۲- ایک مرتبہ ایک اہم علمی مشورے کے لئے حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری مدظلہ سے ملنے دیوبند تشریف لے گئے، وہاں سے مظفر نگر جانا تھا،جہاں کئی روز قیام پہلے سے طے تھا، اس موقع پر ڈرائیور کے علاوہ آپ کا رفیق سفر تنہا ناچیز تھا، مفتی صاحب کی مجلس چونکہ بالائی منزل پر تھی جہاں آپ کا چڑھنا دشوار تھا، اسلئے مفتی صاحب نے نیچے زنانے حصے کے ایک گوشے میں بیٹھنے کا انتظام کیا،دوران ملاقات مفتی صاحب نے مدرسہ گنبدان پانی پت کی ماہانہ مجلس کے بعض معمولات پر اپنے صاف گوئی کے مخصوص انداز میں چند ایسے تحفظات کا اظہار کیا، جن کی بنیاد کسی صاحب کی بیان کردہ غلط معلومات پر تھی، اس عجیب وغریب صورت حال میں ناچیزنے آپکی طرف دیکھا توچہرے پر ان غلط الزامات کی وجہ سے کبیدگی کے آثار نمایاں تھے، مگر آپ مفتی صاحب کی مروت اور احترام میں بالکل خاموش رہے،یہ تک نہیں کہا کہ ”یہ باتیں خلاف واقعہ ہیں“یہ منظر دیکھ کر ناچیز نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا اور ان بے بنیاد الزامات کی تردید کی،اور گنبدان کے معمولات کی از اول تا آخر وضاحت کی،حضرت الاستاذ یہ تفصیل سن کر نہ صرف مطمئن ہو گئے، بلکہ غلط اطلاعات پر شدید افسوس کا اظہار فرمایا،میری گفتگو کے دوران آپ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی،جو چند لمحے پہلے کی کبید گی کو دور کرکے اپنی جگہ بنا رہی تھی۔
ان دونوں موقعوں پر آپ نے تواضع کے جو نمونے پیش کئے وہ اپنی نظیر آپ تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ارشاد نبوی ”من تواضع للہ رفعہ اللہ“کا مفہوم اپنی تمام تر گہرائی کے ساتھ ان کے دل میں اتر چکاتھا اور وہ اس حقیقت کو کما حقہ سمجھ چکے تھے کہ تواضع ذلت کا نام نہیں ہے، بلکہ اس میں رفعت ہی رفعت ہے، ایسی رفعت جو عزت وذلت کے مالک کی عطا کردہ اصلی ہے انسانوں کی خود ساختہ(مصنوعی)نہیں ہے،ذوق دہلوی مرحوم کایہ شعر آپکی شخصیت کاآئینہ دارہے؛
تواضع کاطریقہ صاحبو!پوچھو صراحی سے
کہ جاری فیض بھی ہے اور جھکی جاتی ہے گردن بھی
انداز بیان اور اسلوبِ خطابت
تقریر ہویا درس قرآن، وعظ و نصیحت ہو یا مجلسی گفتگو، آپ کا انداز تکلم سادہ اور عام فہم ہو نے کے ساتھ ساتھ انتہائی پر اثر، دل نشیں اور دلوں کو فتح کرنے والا تھا اور اس میں ایسی مقناطیسی کشش تھی جو سامعین کو اپنی طرف متوجہ رکھتی تھی، جب خطاب فرماتے تو پورا مجمع گوش برآواز رہتا،حالانکہ عام مقررین کی طرح نہ انداز لچھے دار تھا اور نہ ہی زینت گفتار کے لئے بے مقصد لفاظی کی عادت، مگر اس کے باوجود قادرالکلام ایسے جیسے پہاڑوں سے آبشار گر رہا ہو؛
نہ بادہ، نہ صراحی، نہ دورِپیمانہ
فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزم جاناناں
آپ ”نرم دم گفتگوگرم دم جستجو“تھے انداز بہت ٹھنڈا اور میٹھا تھا،لیکن اگر دین اسلام پر کوئی آزمائش آ جاتی خواہ وہ نسبندی کی شکل میں ہو یا توہین قرآن کی،قادیانیت کے سر اٹھانے کی شکل میں ہو یاآپ ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو آپ کی تقریروں میں ایک جوش پیدا ہوجاتا، لہجہ میں ایک قسم کی کرختگی آجاتی اور ایسی تقریریں فرماتے کہ بڑا سے بڑا مجمع آپکی للکار پر سہم جاتا اور ایک اشارے پر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہو جاتا؛
تری الناس ما سرنا یسیرون خلفنا
وان نحن اوم أنا الی الناس وقفوا (فرزدق)
انہوں نے پوری زندگی باطل کے آگے سر نہیں جھکایا،خود اعتمادی ان کا سب سے بڑا ہتھیار تھی، اور تعجب خیز حد تک ان کو اپنے دست و پا پربھروسہ تھا،حق گوئی اور بے باکی میں اپنی مثال آپ تھے؛
آئین جواں مرداں: حق گوئی و بے باکی
اللہ کے بندوں کو آتی نہیں رو باہی
آپ کے عوامی واصلاحی بیانات میں علمی رنگ انتہائی گہرا اور چوکھا ہوتا،کبھی کبھی تو ایسا لگتا کہ بخاری شریف کا درس ہو رہا ہے،بعض مرتبہ سند پر بھی گفتگو کرتے اور سند کے لطائف بیان فرماتے اسکے باوجود پورے بیان میں کوئی بات ایسی نہ ہوتی جسکو سامعین کے لئے ناقابل فہم قرار دیا جا سکے۔
مجلس کا انداز:آپکی مجلسوں میں جو رونق،بانکپن،خوش رنگی، ثمر خیزی اور برکت نمایاں تھی وہ اس کم علم وشعور کو کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملی، جس سے ملاقات کرتے خوش دلی سے ملتے، مذاق بھی کرتے،دل لگی بھی فرماتے، ضرورت کے وقت لہجے میں سختی بھی آجاتی،غصہ بھی ہوجاتے اور حسب مراتب سخت سست بھی کہہ دیتے،اسکے باوجود کسی کے دل میں ناگواری اور آپ کے تئیں عقیدت و محبت میں کوئی فرق نہ آتا،جسکی وجہ آپکے خلوص اور خداداد مقبولیت کا حسین امتزاج تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی جن کا مقصد دعا اور تعویذ ہوتااور یہ لوگ آپ کے ا صل فن اوراصل جوہر سے استفادہ کرتے کم نظر آتے، آپ نا گواری کے باوجود خدمت خلق کے جذبے سے ہر ایک کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتے،مگر جہاں کسی نے تصوف یا سلوک کا کوئی مسئلہ پوچھ لیا یا کوئی علمی بحث چھیڑ دی یا کسی اللہ والے کا تذکرہ کر دیا تو فوراً چہرے پر بشاشت آجاتی اور ایسامعلوم ہوتا جیسے کسی نے دل کا ساز چھیڑ دیا ہے اور پھر علم ومعرفت کا ایسا نغمہ بجتا کہ اہل ذوق تمنا کرتے کہ یہ مجلس کبھی ختم نہ ہو؛
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
تمہی سو گئے داستاں کہتے کہتے
ملی اور اصلاحی خدمات:
آپ کی زندگی ایک ”جہد مسلسل“سے عبارت تھی،پوری دنیا میں کہیں بھی اگر مسلمانوں پر کوئی آزمائش آ جاتی توبے چین ہو جاتے۔ پھر کبھی فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جاتی اور کبھی روزانہ کا معمول بنا کر امام جزری ؒ کی ”الحصن الحصین“کا ختم ہوتا، اسی طرح بدعات، رسومات اور منکرات کی تردید اور باطل فرقوں کی بیخ کنی کے موقع پر آپ ”شمشیر براں“بن جاتے، زیادہ تر آپ کی اصلاحی جد وجہد کا مرکز مغربی یو پی اور ہریانہ و پنجاب کے علاقے ہوتے جہاں آپ نے بڑی تعداد میں مدارس اور مکاتب قائم فرمائے،ہریانہ اور پنجاب کی بعض ایسی تاریخی مساجد جو غیر مسلموں کے قبضے میں تھیں،بلکہ شراب کے اڈوں میں تبدیل ہو چکی تھیں، ان کو بازیاب کرا کے آباد کیا۔ سردی، گرمی،برسات اور راستوں کی ناہمواری کے باوجود بلا مبالغہ آپ نے ان علاقوں کے ہزاروں سفر کئے۔ جس علاقے کو توجہ کا مرکز بنایا وہاں شب وروز کی کوششوں سے صالح انقلاب برپا کر دیا، بلا شبہ آج ان علاقوں کے دینی ماحول میں آپ کی قربانیوں کے غیر معمولی اثرات ہیں۔
آپ کی ساحرانہ شخصیت سے تر بیت پا کر سینکڑوں لوگ کندن ہو کر نکلے اور سینکڑوں حلاوت ایمانی سے لذت آشنا ہوئے،کتنے ہی اہل ارادت ایسے تھے جن کی حیثیت بیعت کے وقت ”خام مال“ سے زیادہ نہیں تھی،لیکن آپ کی زود اثر صحبت اور تربیت نے ان کو کار آمداورگراں قدر مصنوعات میں تبدیل کر دیا، آپ کے وابستگان نے آپ سے اتباع سنت کاجذبہ اورحالات کی موافقت و مخالفت دونوں صورتوں میں ذوق عمل سے سرشار رہنا سیکھا۔
یہ حلقۂ ارادت جن کی اصلاح وتربیت کے لئے آپ نے خون جگر کا نذرانہ پیش کیا تھا اور جنہوں نے آپ سے والہانہ محبت کی تھی، آج اپنے محبوب قائد اورمربی کے وصال پر رنجیدہ، افسردہ اور اشکبار ہیں اور زبان حال سے کہ رہے ہیں؛
ویراں ہے مے کدہ،خم وساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
محبوبیت اور مقبولیت
اللہ تعالی نے آپکی شخصیت میں جاذبیت و دیعت رکھی تھی جو ایک مرتبہ زیارت کر لیتا وہ گرویدہ ہو جاتا، جہاں پہنچ جاتے ساری فضاء آپ کی روحانی خوشبو سے عطر بیز اور مشکبار ہو جاتی، اہل ارادت آپ پر اس طرح جاں نثار تھے جیسے شمع پر پروانے، جہاں سے گزر جاتے چاہنے والوں کی ایک بھیڑ لگ جاتی۔ راقم السطور نے بارہا مشاہدہ کیا کہ سفر کے دوران کسی چوراہے وغیرہ پر ٹریفک کی وجہ سے اگر گاڑی رک جاتی تو تھوڑی ہی دیر میں چاروں طرف سے لوگ جمع ہو جاتے اور سلام ومصافحہ کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرتے، کسی کے پھل کی دکان ہے تو وہ پھل پیش کر رہا ہے، کسی کی چائے کی دکان ہے تو وہ آپ کو اور رفقاء کو چائے پلانے کی کوشش کر رہا ہے، چند ہی لمحوں میں ”ہجومِ عاشقاں“کے یہ مناظر آپ کے اسفار کے دوران عام سی بات تھی؛
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے ”مرد خلیق“
ایک مرتبہ کاندھلہ کے قریب تبلیغی اجتماع تھا، دعا کے بعد واپسی کے لئے جب آپ گاڑی میں بیٹھے تو زیارت اورمصافحہ کے لئے مجمع بے قابو ہو گیا، راقم السطور آپ کے پیچھے والی گاڑی میں سوار تھا، تھوڑی دیر میں جب گاڑیوں کی رفتار قدرے تیز ہوئی تو ناچیز نے ایک عجیب وغریب منظر کا مشاہدہ کیا، جب لوگوں نے دیکھا کہ اب زیارت و مصافحہ ممکن نہیں تو وہ تیزی سے دوڑتے اور آپ کی گاڑی کو ہاتھ لگاکر اس کو چوم لیتے گویا کہ زبان حال سے کہتے ”ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے“۔سادہ لوح دیہاتیوں کی اس حرکت پر تبصرہ نگار منفی یا مثبت جو بھی تبصرہ کریں، مگر ناچیز کے نزدیک اس میں ”فیوضع لہ القبول فی الارض“ کی ضرور کرشمہ سازی تھی۔
سلیقہ شعاری، نفاست اور خدمت لینے میں تکلف
لباس میں سادگی کے باوجود آپ جامہ زیب تھے،خاص طور پر عیدین یا کسی اہم موقع پر جب تیار ہوتے اور مخصوص طرز کا عمامہ باندھ لیتے تو کشش اور وقار دوبالا ہو جاتا، ہر وقت صاف ستھرے رہتے تھے،روزانہ غسل کامعمول تھا، بلکہ گرمیوں میں اکثر ظہر اور عصر کی نماز میں غسل کر کے مسجد تشریف لاتے تھے،آپ کی قیام گاہ ہمیشہ صاف ستھری اور ہر چیز اپنی جگہ سلیقے سے رکھی ہوئی ہوتی، کبھی یاد نہیں کہ آپ بستر پر نہ ہو ں اور لحاف یا اوڑھنے کی چادر تہ کی ہوئی نہ ہو یا بستر پر سلوٹیں ہوں،اکثر اپنے کام خود ہی کرتے تھے اور مزاج میں فطری تواضع کی وجہ سے کسی سے خدمت لینا بالکل پسند نہیں تھا،جسکی وجہ سے بعض مرتبہ بڑی پریشانی اور تکلیف اٹھانی پڑتی، اگر مجبوراً خدمت لینی پڑتی تو بقدر ضرورت اور ناگواری کے ساتھ لیتے، اگر سفر درپیش ہوتا تو مکمل تیاری خود ہی کرتے، اٹیچی اتنے سلیقے سے مرتب کرتے کہ دیکھنے والا حیران رہ جائے، اور اس میں کپڑوں کے علاوہ چند چیزیں بہت اہتمام سے رکھتے مثلا مسواک،چھوٹی قینچی، کنگھی،چھوٹے سائز کا چاقو،سرمہ دانی وغیرہ اور فرماتے کہ”یہ چیزیں مسنون ہیں،کام آئیں یا نہ آئیں سنت کا ثواب تو ملے گا“۔
اکثر قیام گاہ میں تنہا رہتے تھے، بیمار ہوں یا صحت مند،سفر میں ہوں یا حضر میں، ہوٹل کے کمرے میں ہوں یا ہسپتال کے، کسی کو رات میں انکے پاس ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی، بغیر کسی خادم کے تہجد میں اس پابندی کے ساتھ اٹھناکہ جس سے تخلف متصور نہ ہویہ آپکا طرہ ئ امتیاز تھا،کیونکہ عام طورپردیکھا گیا ہے کہ مشائخ کو تہجد وغیرہ میں اٹھانے اور ضروریات میں مدد کرنے کے لئے ایک یا دو خادم ضرور ہوتے ہیں اور بعض مرتبہ تو خدام کی پوری جماعت ہوتی ہے، بارہا ایسا ہوا کہ پیرانہ سالی کے ان ایام میں جب کہ آپ بغیر سہارے کے مسجد تک نہیں جا سکتے تھے،رات میں جب تہجد کے لئے اٹھے اور وضو کا ارادہ کیا تو پتہ چلا کہ پانی نہیں ہے،اب اگر تھوڑی دیر انتظار کر لیتے تو فجر کی نماز میں کوئی نہ کوئی ضرور آجاتااور پانی کا انتظام ہو جاتا مگر تہجد فوت ہو جائے یہ کسی قیمت گوارہ نہ تھا، چنانچہ رات کے اندھیرے میں پانی کا برتن لے کر پہلے مسجد گئے، وہاں پانی نہیں ملا تو جامع مسجدگئے، اس کا دروازہ بندملا تو محلہ کے ایک مندر سے پانی لائے اور جب تک وضو کرکے مصلے پر اپنے رب کے سامنے کھڑے نہیں ہوگئے اس بے قرار کو قرار نہ آیا،، غالباََ اسی موقع کے لئے کہا گیا ہے ”الاستقامۃ فوق الف کرامۃ“کہ استقامت ہزار کرامتوں سے بڑھ کر ہے ”و فی ذالک فلیتنافس المتنافسون“۔
ملنساری اور ظریف المزاجی
کردار کے اعتبار سے شخصیت کے غیر معمولی سنجیدہ ہونے کے با وصف آپ خشک مزاج یا ”عبوساََقمطریرا“نہیں تھے،بلکہ مزاج میں ظرافت تھی، حاضرین سے مزاح بھی فرماتے، مگر بعض مرتبہ اسمیں بڑی معنویت اور گہرائی ہوتی،”مشتے نمونہ از خروارے“کے طور پر چند جملے سپرد قرطاس ہیں:
۱- ایک مرتبہ ایک صاحب اصرار کرنے لگے کہ میرے بچے کے سرپر ہاتھ رکھ دیجئے! فرمایا کہ”اس سے کیا ہوگا؟ میں پورے دن اپنے سر پر کھجاتا رہتا ہوں مجھے تو کوئی فائدہ محسوس نہیں ہوتا“۔
۲- ایک دیہاتی نے سوال کیا کہ: اجی! آپ مظاہر علوم میں کتنے سال پڑھے؟ آپ نے فرمایا ”پڑھے وڑھے تو کچھ نہیں، البتہ وہاں پانچ سال پڑے رہے“۔
۳- ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ کی فراغت کس سن کی ہے؟ فرمایا”فراغت“ تو آج تک نہیں ہوئی،البتہ ۳۶۳۱ھ میں اپنا بوریا بستر لیکر گھر آ گئے تھے“۔
۴- ایک صاحب نے عرض کیا کہ میں بہت پریشان ہوں ایک عامل نے بتایا ہے کہ تمہارے دل پر جادو کیا گیا ہے، فرمایا کہ”یہ دل کی بات‘ دل سے نکال دو“۔
ناچیز پر شفقت
راقم السطور نے والد صاحب ؒکے حکم پر افتاء کے سال آپ سے بیعت ہو کر اصلاحی تعلق قائم کر لیا تھا،مگر چوں کہ آپکے برادر کلاں حضرت مولانا محمد احتشام الحسن کاندھلوی قدس سرہ میرے حقیقی دادا تھے، غالباََ اسی نسبت کی وجہ سے آپ کا میرے ساتھ ایسا مشفقانہ تعلق تھا،جس میں تشجیع ہی تشجیع تھی زجر و تنبیہ کا کوئی خانہ نہیں تھا،حسن ظن ہی حسن ظن تھا، سوء ظن کا کوئی تصور نہیں تھا، کبھی مجھے”تم“کہہ کر خطاب نہیں کیا،بلکہ ہمیشہ ”آپ“کہہ کر مخاطب ہوئے،کبھی مجرد نام نہیں لیا، بلکہ ہمیشہ ”بھائی رضی“کہا، یاد نہیں کہ مجھے کبھی ڈانٹا ہو یا ناراض ہوئے ہوں،ناچیز کی بڑی سے بڑی کوتاہی کو اس طرح در گذر کر دیتے جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔
فماراقنی من لا قنی بعدبعدہ ولا شاقنی من ساقنی لو صالہ
ولا لا ح لی مذ ند ندٌ لف ضلہ ولا ذوخ لال حاز مثل خلالہ (حریری)
یادوں کے جھروکے سے
بغیر کسی تبصرے کے چند واقعات کے نقل پر اکتفا کرتا ہوں، جن سے ناچیز کے تئیں آپ کی شفقت،عنایت اور مروت کا اندازہ ہو سکے گا:
جب میں نے مشکوٰۃ شریف کے سال دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا تو چند ہی دنوں بعد آپ کی حضرت فقیہ الامت مفتی محمودحسن گنگوہیؒ سے ملاقات کے لئے دیوبند آمد ہوئی،میں نے چھتہ مسجد میں ملاقات کی،آپ میرا ہاتھ پکڑ کر مفتی صاحب کے حجرے میں لے گئے،ان سے ملوایا،تعارف کرایا اور مفتی صاحب سے فرمایا کہ”اصلاح وتربیت کے لئے میں ان کو آپ کے حوالے کر رہا ہوں،ان پر خصوصی توجہ فرمائیں!“ اور مولانا ابراہیم افریقی صاحب جو کچھ فاصلے پر کھڑے تھے، ان سے فرمایا کہ”یہ میرا پوتا ہے اسکو کبھی اندر آنے سے نہ روکا جائے“اس بات کی اہمیت اوراس خصوصیت کی قدروقیمت کو وہی شخص پہچان سکتاہے جس نے حضرت فقیہ الامتؒ کی شان مرجعیت کا مشاہدہ کیاہے، مگر افسوس صد افسوس کہ چند ہی ایام کے بعد مفتی صاحب کا افریقہ کا سفر ہوا، جو سفر آخرت کا پیش خیمہ ثابت ہوا،اور پھر آپ کی ہندوستان واپسی نہ ہو سکی۔
– ایک مرتبہ لکھنؤ، کانپور اور ہر دوئی وغیرہ کا سفر ہوا جس میں منجملہ رفقاء سفر کے ناچیز بھی تھا، اس سفر کے دوران مجھے جہاں موقع ملتا میزبان حضرات سے رات میں یہ طے کر لیتا کہ فجر کی اذان سے پہلے مجھے حضرت کے لئے ایک پیالی چائے چاہیے، چنانچہ وہ بہت خوشی اور سعادت مندی کے ساتھ اس کا انتظام کر دیتے۔ اذان فجر سے قبل ناچیز جب چائے لے کر کمرے میں داخل ہوتا تو آپ ذکرو دعا اور تہجد کے معمولات سے فارغ ہو کر اذان فجر کے انتظار میں تسبیح لئے بیٹھے ہوتے اور اس وقت آپ کے چہرے پر انوارات کی ایسی تابانی ہوتی کہ مجھ جیسا کو رائے معرفت بھی اس کو محسوس کئے بغیر نہ رہتا، تہجد کے وقت چائے کی پیالی دیکھ کر آپ بہت خوش ہوتے اور اس مبارک اور مستجاب گھڑی میں خوب دعاؤں سے نوازتے۔
– ایک دن عصر کی نماز کے بعد مسجد سے قیامگاہ تشریف لے جارہے تھے، آپ کے پیچھے متوسلین کی اچھی خاصی تعداد تھی،احقر بھیڑ میں پیچھے کی طرف تھا،ایک صاحب نے آپ سے مسئلہ معلوم کیاکہ ”اگر حج بدل کرانے والا اجازت دیدے تو کیا حج بدل کرنے والاحج تمتع کرسکتاہے،“آپ نے منع فرمادیا (جیساکہ معلم الحجاج وغیرہ میں مذکورہے) وہ صاحب پیچھے کی طرف آئے تو احقرنے ان سے کہدیاکہ:کرسکتاہے۔ انہوں نے آگے بڑھ کرآپ کو میراجواب بتادیا، آپ نے فرمایا”بلاؤ بھائی رضی کو!“۔ مجھے ان صاحب کی اس حرکت پر شدید غصہ آیااور اپنی بے وقوفی پر افسوس،اور یقین ہوگیا کہ آج ضرور سرزنش ہوگی،مگر مجھے سخت حیرت ہوئی کہ آپ اس گستاخانہ بے اصولی پرقطعاََ نا راض نہ ہوئے، بلکہ مجھ سے حوالہ معلوم کیا،میں نے احسن الفتاوٰی کے حوالے سے مفتی رشید احمد صاحب لدھیانویؒ کی بیان کردہ گنجائش کاتذکرہ کیا، توآپ نے ان صاحب کو بلوایا اور مذکورہ صورت میں حج تمتع کی اجازت دے دی۔
– ناچیز نے تین یا چار سال آپ کو تراویح میں قرآنِ کریم سنایا،ایک مرتبہ جب کہ مجھے دہلی میں رمضان گزارنا تھا، آپ نے باصرار تراویح کے لئے کاندھلہ بلوایا، معتکَف میں جہاں علماء اور صلحاء کی ایک تعداد ہوتی، بیان کے بعد ناچیز ہی سے دعا کرواتے۔
– ایک مرتبہ مدرسہ گنبدان پانی پت کی ماہانہ مجلس کے موقع پر تہجد میں مجھے بلوایا،شدید سردی کا زمانہ تھا اور اس وقت آپ کے سامنے ابلے ہوئے انڈے اور گرم گرم چائے رکھی ہوئی تھی،آپ نے ان دونوں چیزوں سے ضیافت کی اور فرمایا کہ”آپ کو فجر کے بعد ذکر اور صحبت کی اہمیت پر پندرہ منٹ بیان کرنا ہے،“میں نے احتیاطا استفسار کیا کہ اگر بیس منٹ ہو جائیں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں فرمایا کہ”پچیس میں حرج ہے“۔
– آپ کے دعوتی واصلاحی اسفار پنجاب میں سرہند تک ہوتے تھے، ایک مرتبہ ناچیز نے عرض کیا کہ میرا کبھی سرہند جانا نہیں ہوا،ایک مرتبہ آپ کے ساتھ جانے کی خواہش ہے آپ نے میری فرمائش کو قبول کرلیا اور پانی پت کی ماہانہ مجلس سے فارغ ہو کر وہیں سے سرہند کے سفر کا نظام بنایا،اور اسکو انتہائی خفیہ رکھا تاکہ زیادہ بھیڑ نہ ہو،مگر اسکے باوجود جب راستے میں ایک جگہ رک کر قافلہ کی تمام گاڑیوں کو جمع کیا گیا تو پندرہ سے متجاوز تھیں؛
صحبتیں انکی مصور ہمیں یاد آئیں گی
کوئی دلچسپ مرقع نہ دکھانا ہر گز
سفرِ آخرت
۲/جون ۹۱۰۲ء مطابق ۷۲/ رمضان المبارک ۰۴۴۱ھ بروز اتوار شام پانچ بجکر پچیس منٹ پر علم ومعرفت کا یہ چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہو گیا،بر صغیر کے دینی افق پر پون صدی تک چمکنے والا یہ ستارہ ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا، آخری دیدار کے لئے معتقدین اور متوسلین کا سیلاب امنڈ پڑا، ہر ایک وارفتہ قدموں سے بھاگا چلا آرہا تھا اور زبان حال سے کہہ رہا تھا:
آتا ہے ایک پارہ دل ہر فغاں کے ساتھ
تارِ نفس کمند شکار اثر ہے آج
اے عافیت کنارہ کر!اے انتظام چل!
سیلاب گریہ درپئے دیوار ودر ہے آج
کاندھا دینے والوں کے ہجوم کی وجہ سے ہر انتظام اور ہر تدبیر ناکافی ہو رہی تھی،بالآخر اس ”میر کارواں“ کولاکھوں سوگواروں نے با چشمِ پر نم وبا دل ِپر غم خاندانی قبرستان واقع مدرسہ سلیمانیہ،عید گاہ، کاندھلہ میں اسلاف کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا۔
مثل ایوان سحر،مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
”ان العین لتدمع،وان القلب لیخشع،ولا نقول الا ما یرضی ربنا وانا بفراقک یا جدنا لمحزونون“۔
ناچیز نے ان اوراق میں جو کچھ نقوش و تأثرات پیش کئے ہیں؛ بلا شبہ آپکے کمالات کے تئیں ان کی حیثیت ایک ’اشارہ‘ کی ہے’احاطہ‘ کی نہیں؛
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے
محمد ارتضاء الحسن رضی کاندھلوی
مرکز ابو ہریرہ،عین خالد،دوحہ،قطر
20اگست 2019ء بوقت شب دو بجکر بیس منٹ
Comments are closed.