احترام کا معیار” دولت” یا تقویٰ "

از: محمد اللہ قیصر
آپ جیسے ہی سوشل میڈیا آن کرتے ہیں، کوئی نہ کوئی پوسٹ نظر آتی ہی ہے، جس میں دنیا کا کوئی امیر ترین آدمی کامیابی کے راز سے پردہ اٹھاتا نظر آتا ہے،، بلگٹس، رتن ٹاٹا، اسٹیو جابس، جاک ما، جیسے بڑے سرمایہ دار ہر انٹرویو میں کامیابی (مالداری) کے ٹپس دیتے ہو ئے ملیں گے، خوشحال زندگی کے زینوں کی نشاندہی کرنے والی چھوٹی چھوٹی ویڈیو کلیپس ہر جگہ ملیں گی۔
سوشل میڈیا کے صارفین کی اکثریت بالخصوص نوجوان ان "اقوال زریں” پر جان نچھاور کرتے ہیں، جیسے انہیں کسی خزانے کی کنجی ہاتھ لگنے والی ہے، جس کی تلاش میں وہ زندگی بھر سرگرداں رہے، ، یہ ایک الگ بحث ہے کہ ان سرمایہ داروں کے بتائے ہوئے اصول زندگی یا اصول تجارت کس قدر ماثر ہوتے ہیں، یا دیکھنے والے ان پر کس قدر عمل کرتے ہیں، اور زمینی حقائق سے وہ کتنے ہم آہنگ ہوتے ہیں، ویسے باتیں تو عموما معقول ہوتی ہیں، اسلئے کہ ان کی نظر میں جو اصل منزل ( مالداری) ہے وہاں تک پہونچنے میں انہیں جن تجربات سے گذرنا پڑا ہے وہ انہیں تجربات و مشاہدات اور ان کے نتائج بیان کرتے ہیں۔
سرمایہ داروں کے تجربات،و مشاہدات اور ان کے نصائح میں نوجوانوں کی اتنی زیادہ دلچسپی کا سبب کیا ہے۔
جواب آسان ہے، تہذیب حاضر میں اولیت مال و دولت کو حاصل ہے، کامیابی کا معیار مال ہے، کامیاب وہی کہلاتا ہے جو مالدار ہے، غریب اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود ناکام ہی تصور کیا جاتا ہے، چناں چہ جو جس قدر مالدار ہو تا ہے، اسے اتنا ہی کامیاب کہا جاتا ہے، وہ اسی قدر احترام کا حقدار سمجھا جاتا ہے۔
ہر تہذیب سب سے "معزز و مکرم فرد” کا "خطاب” یا "تمغہ امتیاز” دینے کیلئے ایک معیار طے کرتی ہے، اس معیار کو پورا کرنے والا ملک، سماج، قوم اور وطن کا سب سے معزز فرد تسلیم کیا جاتا ہے، اور ظاہر ہے سماج، ملک ،قوم میں عزت و شہرت ہر کسی کا خواب ہوتا ہے، لہذا ہر فرد اس معیار تک پہونچنے کی جان توڑ کوشش کرتا ہے، بلکہ اس کی زندگی کی تمام تر حرکت و نشاط اور ایکٹیویٹی اسی معیار کو پانے کیلئے ہوتی ہے، "حصول دولت” اس کے قول و عمل کا محور و مقصد بن جاتا ہے، حاصل کرنے والا "کامیاب” اور محروم رہ جانے والا "ناکام” کہلاتا ہے۔
اسلام نے بھی ایک معیار متعین کیا ہے، کہ اللہ کے نزدیک معزز ترین فرد وہ ہوگا جس کی جھولی "نیکیوں” سے بھری ہوگی، ، إن أكرمكم عند الله أتقاكم” یقینا تم میں سب سے باعزت اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے” "جتنی نیکی اتنی عزت”، "جتنا متقی اتنا محترم” اسلام کا یہ اصول ہے۔
لا فضلَ لعربيٍّ على عجميٍّ، ولا لعجميٍّ على عربيٍّ، ولا لأبيضَ على أسودَ، ولا لأسودَ على أبيضَ -: إلّا بالتَّقوى، النّاسُ من آدمُ، وآدمُ من ترابٍ ( کسی عربی کو کسی عجمی پر فوقیت حاصل نہیں ہے، نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، اور (سی طرح) نہ کسی گورے کو کالے پر نہ کسی کالے کو گورے پر، سواء تقوی کے، تمام انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں.)
ہر انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہے اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے ، تو ان کی تمام اولاد بھی مٹی کے پتلہ سے زیادہ کچھ نہیں، خلقت و فطرت میں کوئی فرق نہیں، جسم کا نظام، گوشت پوست، رنگ، نسل جسمانی ڈھانچہ، اس میں روح کی قوت، سب یکساں ہے، ہر فرد کا مادہ مٹی سے ہے، ، فطرت کے اعتبار سے کسی کو دوسرے پر فوقیت اور افضلیت نہیں ہے، کسبی صفات کا بھی اعتبار نہیں، علم، ہنر، قوت و شوکت، جاہ و منصب، قومیت و وطنیت کسی کی کچھ اہمیت نہیں،لہذا یہاں تک سب برابر ہیں، ہاں! ایک چیز ہے جو بندہ کو خالق کی نظر میں بلند کر سکتی ہے اور اتنا بلند کرسکتی ہے کہ "خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تیری رضا کیا ہے” مالک کی محبت سے سرفراز کر سکتی ہے، رب کی نظر میں معزز، مکرم، موقر بنا سکتی ہے، اور وہ ہے تقوی، دل رب کی رضاء جوئی، خشیت الہی، تقوی و پرہیز گاری سے جس قدر لبریز ہوگا ، اللہ کی نظر میں بندہ اتناہی عزیز، اور قابل قدر ہوگا،
اسلام نے بندوں کے معزز و مکرم ہونے کیلئے یہ معیار طے کیا ہے۔
اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام ہے، جو دجل و فریب، خود غرضی، مصلحت پسندی اور کسی حد تک منافقت کا مجموعہ ہے، اس نظام میں سماجی عزت و وقار کیلئے معیار ہے، "مال و دولت” سرمایہ دارانہ نظام کے واضعین و محافظین نے شاید ہی دولت و ثروت کو تحریری یا تقریری شکل میں کہیں عزت و وقار کا معیار قرار دیا ہو، لیکن اس کا ڈھانچہ ہی کچھ ایسا ہے کہ آج کا انسان لاشعوری طور پر یہی سمجھتا ہے کہ "پیسہ ہے تو عزت ہے” سماجی شان و شوکت، اور شرف و عظمت دولت کے بغیر ناممکن ہے،
سرمایہ دارانہ نظام میں معیشت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، حصول معاش کے طریقوں میں کوئی بندش نہیں، حرام حلال میں امتیاز کی کوئی حیثیت نہیں، آپ کی مصنوعات سماج کیلئے مفید ہے یا مضر، اس سے کوئی مطلب نہیں، آپ کو کھلی چھوٹ ہے، حکومت وقت سے اجازت لینے کے بعد جو چاہیں بیچیں، خریدیں، حصول معاش کیلئے ان کے اس بے قید و بند نظریہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں سماجی ترقی کا راز "دولت و ثروت” میں پوشیدہ ہے، اگر اس کے حصول کی راہ میں حدود وقیود کی صعوبتیں ہوں گی تو ترقی ناممکن ہے، لہذا "حصول معاش” کو حد بندی کی بیڑیوں سے آزاد کرنا ناگزیر ہے، اخلاقیات اور صلاح کی اہمیت برائے نام ہے، مال و دولت پر اخلاقیات، انسانی ہمدردی اور بھلائی، کا رنگ و روغن لگ جائے تو بہتر ہے ورنہ کوئی بات نہیں، معیشت کو اتنی زیادہ اہمیت دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان دولت کی چاہت میں جنون کا شکار ہوگیا، نیکی اور صلاح کا وجود الفاظ کی حد تک رہ گیا۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف تہذیب جدید میں ہی ” حصول دولت” کو عزت و وقار کا معیار بنایا گیا ہے، بلکہ اسلام سے پہلے اور اس کے بعد بھی غیر اسلامی معاشرے میں صاحب ثروت ہی عزت و احترام کا حقدار سمجھا جاتا رہا ہے، اور اب تک سمجھا جاتا ہے غریب اور بدحال ہر سماج میں نا قابل اعتناء رہے ہیں، اسلام نے اس مزاج کو توڑتے ہوئے، نیکی اور تقوی کو معیار بنایا ہے، اور افسوسناک ہے کہ اسلامی معاشرہ بھی اس آندھی کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکا، جس کے یہاں سماجی ترقی کی اصل بنیاد ہی نیکی اور تقوی ہے، ما ل ودولت فقط وسائل حیات ہیں، جس کے حصول کیلئے جائز طریقوں کی تعیین کرتے ہوئے صرف انہیں اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے، حلال و حرام میں امتیاز کا حکم دیتے یوئے باطل طریقوں سے کھانا کما ممنوع قرار دیا گیا ہے، نیز یہ بھی یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ جتنا حاصل ہو جائے اسی پر قناعت حقیقی خوشحالی ہے۔
معیار بدلنے سے سماج کی ترجیحات بدل جاتی ہیں، نیکی کو معیار قرار دینے کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگ دنیا کی فانی دولت میں دل لگانے کے بجائے احکام الٰہی کی تعمیل میں محنت کرنے لگے، رضاء الٰہی کے حصول میں مسابقہ کرنے لگے اور جس سماج میں نیکی میں مسابقہ ہوگا وہاں ظاہر ہے اخلاص و وفا، اور بندگان خدا سے خیرخواہی حتی کہ جانوروں سے ہمدردی عام ہوگی، امن و امان کا راج ہوگا، جس میں معاشرہ اور سماج کی ترقی کا راز ہے۔
جس سماج میں دولت، وقار کا "معیار ” سمجھا جائے گا وہاں مسابقہ حصول دولت میں ہوگا، اس کیلئے من چاہے طریقے اپنائے جائیں گے، وہ طریقے دوسروں کیلئے مفید ہیں یا مضر اس کی کوئی پروا نہیں ہوگی، حرص و ہوس، لالچ، خود غرضی، دھوکہ اور چالبازی ذہانت سمجھی جائیں گی، اس طرح سماج برائیوں میں جکڑ جائے گا، جو آج ہر طرف نظر آرہا یے، دولت کی ریل پیل ہوئی ہے لیکن سماج غیر محفوظ ہے، دنیا خبائث و رذائل سے اٹی پڑی ہے، کوئی گناہ معیوب نہیں رہ گیا ہے، مصلحت پسندی اور خود غرضی کا بول بالا ہے۔
حیرت ناک یہ ہے کہ اہل اسلام بھی اس "موہ مایا” کے مکڑ جال میں پھنس چکے ہیں، مال و دولت کو "معیار افتخار” تسلیم کر چکے ہیں، ان کے نزدیک بھی دین اور دیندار طبقہ قابل رحم تو ہے، لیکن قابل احترام نہیں، حتی کہ دین سیکھنے سکھانے والے بھی اس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں، مالداری ان کے نزدیک بھی معیار توقیر بن چکی ہے، ان کی مجلس میں بھی نیکی کے بجائے ثروت اور جاہ و منصب والوں کو جگہ ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں خود ان کے عزت و احترام میں بھی کمی نظر آتی ہے،علماء اگر مالداروں کی توقیر ان کی مالداری کے بقدر کریں گے تو عوام کا بھی یہی مزاج بنے گا۔
دولت کی محبت سے بچنے کا آسان طریقہ ہے کہ انسان کثرت سے موت کو یاد کرے، ایک دن اسے یہ سب چھوڑ کے جانا ہے، یہ دنیا فانی ہے، تو اس کے پیچھے کیا بھاگنا، دنیا سے بے نیازی کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کھانا کمانا چھوڑ دے، بلکہ مطلب صرف اتنا ہے دنیا کو سب کچھ سمجھ کر آخرت سے بے نیاز نہ ہو، دنیا چاہے جتنا کمائے لیکن اسے آخری منزل سمجھنا تباہی ہے۔
ملیں گے تمہیں راہ میں بت کدے بھی
مگر اپنے اللہ کو یاد رکھنا
Comments are closed.