"نصاب مدارس پر غیر منصوبہ بند اعتراضات”…..

ایم_ایس_حسین سہرساوی
سب سے پہلے تو ہم یہ طے کر لیں کہ "موصل الی المطلوب” ہے کیا ؟
کوئی اظہار کرے یا نہ کرے لیکن حقیقت یہی ہےکہ "موصل الی المطلوب” ایک اچھی "ڈگری” کے حصول کی عربی تعبیر ہے اور اپنی زبان میں "فراغت کے بعد خاطر خواہ ‘تخواہ’ ملنے لگنا” کا دوسرا نام ہے.
جو کوئی "موصل الی المطلوب ” کےلیے "تبدیلئ نصاب” کو ضروری قرار دیتا ہے وہ اپنے بیانیے میں اگر منافق نہیں تو مخلص بھی نہیں ہے ممکن ہے جہالت اور تعصب کے پردے بھی اب تک چاک نہ کیے ہوں ؛ آسان لفظوں میں کہوں تو آج اگر "مدارس کی ڈگریوں” کی اہمیت وہی ہو جائے جو یونیورسٹیوں اور کالجوں کی ہے اور مدارس کے ڈگری ہولڈرز وہی تنخواہ پانے لگ جائیں جو مذکورہ ادارے کے ہولڈرز پاتے ہیں تو یقین جانیے "نصاب مدارس” پہ حرف گیری کرنے والے _ گدھے کے سر سے سنگھ کی طرح_ غائب ہوجائیں گے(اب اسے منافقت نہیں تو اور کیا کہا جائے) مزید آسان بنانے کےلئے اسے آزمایا بھی جاسکتا ہے مثلا؛ ایک خالص پرائیوٹ غیر سرکاری ادارہ بنایا جائے (مدعی کے مطابق اس میں "موصل الی المطلوب” نصاب کی تعلیم دی جائے) اور اس میں "ڈاکٹریٹ” کا مکمل کورس کا انتظام اچھے اچھے اساتذہ کی زیر نگرانی کرایا جائے ، جب کورس مکمل ہوجائے تو اس میں سے صلاحیت مند ڈاکٹر کو ایک کلینک کھول کر بٹھا دیا جائے ؛ اگلے دن اس ڈاکٹر پر نہ صرف 420 کا کیس ہوگا بلکہ ایک مدت کی جیل کے ساتھ ساتھ معاوضہ کے بغیر چھٹکارا ممکن نہیں.
"نصاب” اصل نہیں ہوتا "مطلوب اور مقصود” اصل ہے اور تبدیلئ نصاب مدارس کے چاہنے والوں کے نزدیک ایک اچھی ملازمت کا مل جانا اصل ہے ؛ "نصاب” اگر غیرمدارس والوں میں سے مثلا پروفیسر کا دیکھا جائے تو وہ مدارس کے بچے بچے کے چٹکیوں کا (بندہ کا آزمودہ) کھیل ہے ؛ ایم_اے میں کیا پڑھایا جاتا ہے ؟ وہی افاسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کی سوانح حیات ، کچھ تاریخ اور کچھ چرب زبانی اور عہدہ ملتا ہے پروفیسری وغیرہ وغیرہ کا ؛ لگے ہاتھوں نصاب مدارس کی بات کی جائے تو اس میں سب سے بڑی چیز "اصول” کی تعلیم دی جاتی ہے ہر درجہ میں اس پہ بھرپور توجہ مرکوز ہوتی ہے اور یہ چیز زندگی میں ہر گام کام آنے والی بھی ہے ہر فن پر فٹ بیٹھتی ہے یہی وجہ ہےکہ اگر مدارس کے بچوں کا _مقابل کے_ غیرمدارس بچوں سے مقابلہ کرایا جائے تو یقینا مدارس کے بچے بازی لے جائیں گے.
"موصل الی المطلوب” کی مزید وضاحت کےلیے "بہار مدرسہ بورڈ” کو دیکھ لینا بھی کافی ہے ، اس کی بھی ایک مثال دیتا چلوں: آج کل میں ایک صاحب مٹھائی کھلانے والے ہیں ، یہ صاحب "علی گڑھ مسلم یونیورسٹی” میں پی_ایچ_ڈی کے طالب علم ہیں خوش قسمتی سے انہیں "بہار مدرسہ بورڈ” کی سرٹیفیکٹ پہ سرکاری ملازمت مل گئی ؛ یوں بیچ سال میں "نصاب” کو پس پشت ڈال کر "موصل الی المطلوب” کے ہوکر رہ گئے.
خلاصہ کلام؛ تبدیلئ نصاب حل نہیں "قبولیت” اصل ہے نصاب کوئی بھی ہو اس کا اپنی حدود میں کارآمد ہونا ضروری ہے ، اس نصاب والے آج تلک _سرکاری منظوری کے بغیر_ لوگوں کے درمیان اپنی الگ چھاپ اور نمایاں شان رکھتے ہیں یہی اس کی اصل کامیابی ہے ؛ دیگر "نصابوں” کی حیثیت "سرکاری دستخط” سے زیادہ کی نہیں اگر ان نصابوں سے سرکاری دستخط ہٹا لیے جائیں تو اس کا وجود ریت کا محل ثابت ہو، سرکاری دستخط لگ جائے تو کاغذ بھی "سونا” اور "دربان” بھی "موصل الی المطلوب” ، اور "نہ لگے” تو ڈاکٹریٹ اور انجیئرنگ کی ڈگریاں بھی ردی کی ٹوکڑیوں میں.
ہاں؛ وقت، حالات اور بچوں کی ذہنی و فکری انتما و انحتاط کو دیکھتے ہوئے _اپنی حد کو برقرار رکھتے ہوئے_ ترمیم و اضافہ ضروری ہے جس پر کام تدریجا کیا جاسکتا ہے ، کیا جانا چاہیے اور کیا جا بھی رہا ہے.
Comments are closed.