عصر حاضر میں ووٹ کی حیثیت جاننا از بس ضروری ہے

ازقلم:احمد حسین مظاہری پرولیا (بنگال)
رابطہ واٹس ایپ:9735462318
ووٹ کی حقیقت سے بہت سے آدمی ناواقف ہیں ،نیز الیکشن کے وقت کچھ آدمی ووٹ سے کنارہ کشی اختیار کر تے ہیں۔
اس لیے مناسب سمجھا کہ ووٹ کی شرعی حیثیت کو سپرد قرطاس کردوں ، اس مضمون میں ووٹ ڈالنے کے متعلق بہت ہی اہم باتوں کو قلمبند کیا ہوں، اس لیے مضمون کو از اول تا آخر ضرور پڑھیں!
پہلی بات کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاست سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں، حالانکہ یہ سوچ انتہائی غلط فہمی پر مبنی ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب زیدمجدھم فرماتے ہیں کہ سیاست شریعت میں کوئی شجرہ ممنوعہ نہیں ہے، بلکہ دین ہی کا ایک شعبہ ہے،لیکن ہم مسلمانوں کو یہ بات کسی وقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہماری سیاست غیر مسلموں سے بالکل مختلف ہونی چاہیے ،اسلام میں ایسی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں جس میں جھوٹ اور مکرو فریب کی کھلی چھوٹ ہوتی ہے۔
دوسری بات جیسے ہی انتخابات قریب ہوجاتے ہیں۔
کچھ لوگ ووٹ ڈالنے میں عدم دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں،جو انتہائی قبیح سوچ ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ایک ووٹ نہ ڈالنے سے کون سا فرق پڑتا ہے اور وہ اس سوچ کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالتے، حالانکہ بسااوقات ایک ووٹ ہی فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے۔
لہٰذا ووٹ سے کنارہ کشی اختیار کرنا در حقیقت اپنی سیاسی قوت کو کمزورومدھم کرنا ہے۔
ہمارے ملک میں حکمرانوں کا انتخاب ،بلکہ دیگر ممالک میں بھی حکمرانوں کا انتخاب عوام و باشندوں کے ووٹوں کی شکل میں اظہار رائے کے ذریعہ کیا جاتا ہے؛ اس لیے ووٹ کی حیثیت معلوم کرنا از بس ضروری ہے؛اب یہاں پر یہ سوال درپیش ہے کہ ووٹ کیسے شخص اور کس امیدوار کو دیا جائے؟اور امیدوار میں کن صفات و اوصاف کو دیکھا جائے؟
یادرکھیں! ووٹ ایک امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال اسلامی فریضہ ہے ۔باصلاحیت،امانت داراور قوم وملت کے ہمدرد کو ووٹ دینا ضروری ہے، ورنہ امانت میں خیانت ہوگی۔
واضح رہے کہ ووٹ جمہوری نظام میں رائے شماری کے عمل کا نام ہے،جس کا مقصد ملکی نظام اور عوامی نمائندگی کے لئے مناسب نمائندہ کا انتخاب کرنا ہے ـ
اس لیے ووٹ کا استعمال اس امیدوار کے حق میں کریں جو امانت و دیانت کے ساتھ قو م کی خدمت کے جذبے سے اس میدان میں آیا ہو مزید برآں مقصد فقط قوم وملت کی خدمت کرنا، مظلوموں کی امداد کرنا، ناجائز مقدمات میں پھنسے لوگوں کو باعزت بری کرانا ہووغیرہ۔۔۔۔
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ:اگر مسلمانوں کے ووٹ سے کسی سیاسی مجلس کا انتخاب کیا جائے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ امورِسیاسیہ میں جو شخص ماہر اور مسلمانوں کا خیرخواہ اور ان کے حقوق کی حفاظت کااہل ہو، اس کو ووٹ دیں ۔مذکورہ اوصاف کے ساتھ اگر شریعت کا بھی پابند ہو اور نیک صالح ہو وہی مستحق ہے۔انتخاب کا معاملہ بہت سخت ذمہ داری کا ہے رائے دینے والے پر فرض ہے کہ وہ اس شخص کو رائے دیں نیک و سمجھ دار نیز ملک و قوم کا خیر خواہ ہو۔
ووٹ ایک امانت اور سفارش ہے یا ایک قسم کی شہادت ہے اس اعتبار سے کسی فاسق یا فاجر انسان کو ووٹ نہیں دینا چاہیے ایسے شخص کو دینا چاہیے جو قوم کے لیے مفید ثابت ہو؛ تاہم جہاں کہیں پارٹی کی بنیاد پر الیکشن ہو تو اس میں شخصیت کے مقابلے میں پارٹی کے منشور کو مد نظر رکھنا زیادہ مناسب ہے۔
ہمار املک ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے،جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں ہر عاقل و بالغ مرد وعورت کی آراء و مشورے سے ملک کا نظام چلے۔اس لیے ہر شخص اس کو ایک فریضہ سمجھتے ہوئے امانت دار امیدواروں کو ووٹ ضرور دیں۔
اگر ہم لوگ اس دینی امانت اور اسلامی فریضہ کی ادائیگی میں ہمیشہ کی طرح سُستی اور کاہلی برتتے رہے تو نہ ملک میں مسلمان مامون رہے گااور نہ ہی مسلمانوں کے ہمراہ کیے گئے ظلم و تشدد میں تخفیف ہوگی۔
اگر ووٹ کا استعمال اسلامی فریضہ کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا رہاتو یادرکھیں! قرآن وسنت کی رو سے واضح ہے کہ نااہل، ظالم، فاسق اورغلط آدمی کو ووٹ دینا گناہِ عظیم ہے۔!
اگر غلط آدمی کو اپنا لیڈر بنائے تو مسلمانوں کے ہمراہ ظلم و زیادتی دن بدن بڑھتی ہی چلی جائے گی جس طرح فی الحال مسلمانوں کے ہمراہ رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔۔۔وہ قبیح روش عیاں ہیں۔
لہٰذا رائے دہندگان اگراچھے امیدوار کا انتخاب کریں گے تو یہ عمل ہمارے لیے باعثِ اجر ہوگا اور اگر غلط امیدوار کا انتخاب کریں گے توباعثِ مواخذہ ہوگا۔
امید ہے کہ ہم سب مل کر اورہر قسم کے تعصبات و ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر وسیع تر قومی و دینی اور ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر ووٹ کا دیانت دارانہ و ذمہ دارانہ استعمال کریں گے تو ان شاء اللہ! بہتر نتائج سامنے آئیں گے، اور اگر ہم اس سلسلے میں غفلت و لاپرواہی کا مظاہرہ کریں گے تو اس کے نقصان و خسارہ کے اثرات و نتائجِ بد سے نہیں بچ سکیں گے ۔
آخر میں یہ بات بھی ذکرکرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ
جس حلقے میں چند امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹر کو معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابلِ ترجیح ہے، تو اس کو چھوڑ کر دوسرے کو ووٹ دینا اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے صحیح بخاری کی حدیث میں ہے اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:جھوٹی گواہی دینا اکبر کبائر ۔اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت و انجام کو مد نظر رکھتے ہوئے ووٹ دےمحض رسمی مروت یا کسی طمع یا خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے۔
بارگاہ رب جلیل میں دست بدعا ہوں حق جل مجدہ اپنے بیکراں فضل و احسان کے صدقے میں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے ۔(آمین)
Comments are closed.