"احساسِ جواب دہی”

 

قراةالعین خالد (سیالکوٹ)

 

حدیثِ نبوی کے مطابق! ” تُم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارےمیں سوال ہوگا۔” پس بادشاہ حاکم ہے اور اِس کی رعیت کے بارے میں اِس سے سوال ہوگا۔ہر انسان اپنے گھر کا حاکم ہے اور اِس سے اِس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔سوچنے والی بات ہے, غور و فکر کا مقام ہے۔اللہ ربّ العزّت فرماتے ہیں کہ نشانیاں عقل والوں کے لیے ہیں۔ غوروفکر کرنے والوں کے لیے ہیں۔والد اپنے کنبے کا ذمہ دار ہے۔افراد خانہ کے دین کی حفاظت, دین کی تعلیم, جہنم سے بچانا گھر کے سربراہ کا فرض ہے۔شوہر کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ایمان کی فکر کرے۔اللہ ربّ العزّت سورہ مریم کی آیت نمبر 6 میں فرماتے ہیں کہ!

"اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔” ایک مرد نگران ہوتا ہے اپنے کنبے اور قبیلے کا۔وہ اپنی اولاد اور اپنی بیوی کے دین کا بھی نگران ہوتا ہے۔شوہر جو گھر کا سربراہ ہوتا ہے اس پر اپنے خاندان کے نان و نفقہ کی ذمےداری کے ساتھ آخرت کی جواب دہی کی ذمےداری بھی ہوتی ہے ۔اگر اس کی اولاد یا بیوی دین پر عمل پیرا نہیں ہوں تو اللہ ربّ العزت کی عدالت میں وہ کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔اسی طرح ایک عورت اپنے کنبے اور اولاد کی نگران ہوتی ہے۔اپنے شوہر کے مال اور عزت کی ضامن ہوتی ہے یہ ذمہ داری اللّٰہ ربّ العزت نے عورت کو دی ہے۔ اور جس کو روزِ محشر کے حساب کا خیال نہ ہو گا وہ یہ ذمہ داری کیسے نبھائے گا؟ حدیث رسول کے مطابق!

"اگر ایک شوہر اپنی بیوی کی حیا کی خفاظت نہ کرے یا اس کے پردے کا خیال نہ رکھے اور اُسے خواہش ہو کہ دوسرے نامحرم اِس کی تعریف کریں تو ایسا شخص دیو س کہلاتا ہے ۔اور دیوس جہنم کا ایندھن ہے۔”

بالکل اسی طرح اگر ایک ماں تربیت اولاد پر توجہ نہیں دے گی تو کیسے اِس کے قدموں کے نیچے جنت ہوگی؟؟ وہ کیسے نگران بنے گی؟احساسِ ذمہ داری بہت بڑی نعمت ہے۔بات ایک گھر یا اہل خانہ تک محدود نہیں ہے بلکہ سوسائٹی سے باہر کی بات ہے۔

"تم وہ بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو”۔ (القران)

کیا ہم کو بہترین اُمت نہیں کہا گیا؟اگر ہم بہترین اُمت ہیں تو بہتر ین بننے کا طریق کار بھی قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ جو نیکی اور بھلائی کی ترغیب دلاتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں پھر وہ روکنا ہاتھ سے ہو یا زبان سے یا اس کا تعلق ایمان کے سب سے نیچے والے درجے سے ہو یعنی اُس کو دل میں برا جاننے سے ہو۔برائی سے روکنا اور نیکی کا حکم دینا ہم پر فرض ہے۔ ہاں! یہی بہترین اُمت کی نشانی ہے ۔توکیا ہم بہترین امت بننے کے اہل ہیں؟ہم کس انتظار میں ہیں؟ کہ کوٸی باہر سے آۓ اور خیر امت بننے میں ہمارٕی مدد کرے۔

غور طلب بات ہے کہ بارش کا سب سے پہلا قطرہ ہوتا ہے جو ہمت کرتا ہے اور اپنی پوری طاقت لگا کر سب سے پہلے زمین کے باسیوں کی راحت اور زمین کو سیراب کرنے کے لیے قربانی دیتا ہے۔وہ ڈرتا نہیں کہ میں تنہا کیا کروں گا میرے ایک اکیلے کے کودنے سے کیا ہوگا؟وہ یہ نہیں سوچتا کہ کہیں میری قربانی رائیگاں نہ چلی جائے وہ سوچتا ہے تو بس یہ کہ !

"اللہ تعالی کو نفع مند مومن پسند ہے”۔

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا آسمان پانی کے قطروں سے بھر جاتا ہے جو زمین پر بے خطرہ کود پڑتے ہیں۔اور ساری دھرتی پانی سے جی اٹھتی ہے ۔ہر طرف سبزہ اور بہار کا سماں ہوتا ہے اور ایک قطرے کی قربانی راٸیگاں نہیں جاتی۔ اسی طرح نیکیوں میں سبقت لے جائیں اور پانی کے پہلے قطرے کی طرح بنیں جو قربان تو ہوجاتا ہے لیکن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوجاتا ہے۔قطرہ ، قطرہ دریا بنتا ہے۔اسی طرح اگر ایک شخص نیکی کی آواز لے کر اٹھے گا تو ایک دن اِس کا لشکر بن جائے گا۔تاریخ گواہ ہے کہ ابراہیم تنہا تھے۔محبت الٰہی میں تنہا ہی آگ میں کودئے اللہ نے انکا ذکر ہمیشہ کے لئے پیچھے آنے والو ں کے لیے چھوڑ دیا۔اسلاف کی نیکیاں نسلوں تک چلتی ہیں۔محمّد صلی علیہ السّلام کی آمد ابراہیم کی دعاؤں, ریاضتوں, اور قربانیوں کا ہی صلہ ہے۔رسول اللہ بھی تنہا نکلے ربّ کا پیغام لے کر, اپنے پیارے رشتے بھی دشمن بن گئے۔لیکن انہوں نے اللہ کی رسی کو نہ چھوڑا بلکہ مضبوطی سے تھامے رکھا۔اگر ہم اپنے اور اپنے گھر والوں کے دین کا خیال نہیں رکھیں گے تو سوسائٹی کیسے بہتر ہوگی؟ ہماری اولادوں نے اسی سوسائٹی میں باہر نکلنا ہے۔ اِس دُنیا کا ہر فرد چرواہا ہے اور اُسے اپنے ریوڑ کی حفاظت کرنی ہے ورنہ بھیڑیے اُسکے ریوڑ کو کھا جائیں گے۔ اگر سب کو نہ بھی کھاٸیں تو بھی ایک کو کھانے کے لیے جب وہ حملہ کریں گے تو باقیوں میں بھی بھگدر مچ جائے گی اور دشمن اِس سے فائدہ اٹھائیں گے۔اِس لیے اے نوجواں مسلم ! اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو۔سانحہ سیالکوٹ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ساری مغربی اقوام کو مسلمانوں کے خلاف ایجنڈا مل گیا ہے مگر سوچنے کی بات ہے کہ یہ سانحہ کیوں رونما ہوا؟ کبھی سوچا ہے کسی نے؟جی ہاں! جب چرواہے نے اپنے ریوڑ کی حفاظت نہیں کی تو بھیڑیے نے اس پر حملہ کر دیا۔

ہر بچہ دین فطرت کی پیداوار ہوتا ہے۔والدین اِس بلیک اینڈ وائٹ تصویر میں رنگ بھرتے ہیں وہ رنگ وفا کا ہو سکتا ہے اور بیوفائی کا بھی۔وہ رنگ خدا پرستی کا بھی ہو سکتا ہے اور خود پرستی کا بھی۔یا پھر خود غرضی, لالچ اور بغض کا بھی, وہ رنگ اپنوں سے محبت کا بھی ہو سکتا ہے اور اپنوں سے نفرت کا بھی۔وہ رنگ حیا کا بھی ہو سکتا ہے اور بےحیائی کا بھی۔وہ رنگ حکمِ ربی کا بھی ہو سکتا ہے اور حکمِ عدولی کا بھی۔وہ رنگ صبغۃ اللہ کا بھی ہو سکتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کا بھی۔تعلیم و تربیت کا سلسلہ صرف گھر تک محدود نہیں رہتا جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اور انسان پریکٹیکل لائف میں آتا ہے تو یہ سلسلہ وسیع ہوجاتا ہے۔ہم جس جگہ نوکری کرتے ہیں, جہاں ماتحت ہوتے ہیں وہ ہمارا مالک ہوتا ہے اور ہم اس کی رعیت, لیکن سوسائٹی میں دیکھا گیا ہے کہ ہر کاروباری شخصیت, ہر صنعت کار صرف پیسہ بنانے میں لگے ہیں وہ رب کے اِس حکم کو بالکل فراموش کر چکے ہیں کہ ہر حاکم سے اسکی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔سوال اٹھے گے تو جواب ملیں گے نا؟؟بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ تربیت کرنے کے لیے ایک مثلث کا استعمال ہوتا ہے یعنی والدین اور گھر والے, استاد اور سوسائٹی۔اگر والدین اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نہ نبھا سکیں اور اگر بچہ تعلیم کے میدان میں پیچھے جا رہا ہے تو اسے فیکٹری میں مزدوری کے کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ایسا ہی کچھ منظر ہمارے معاشرے کا ہے۔جب ایک مزدور کسی فیکٹری میں کام کے لیے بھرتی ہوتا ہے تو اس سے صرف دن رات کام لیا جاتا ہے۔اور وہ مزدور بھی پیسے کے پیچھے ہوتا ہے پہلے آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی پھر اوور ٹائم کے پیسے, مالک اور ملازم دونوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارا اصل مالک کون ہے؟ ہمارا رب جس نے یہ جان دی, مال دیا, عزت دی, اور ہم نے اس کی محبت میں کیا کیا؟؟

جیسے کوئی والد اپنی اولاد کی تربیت کے لئے شعوری طور پر کوشش کرتا ہے۔ کیا اس نےکاروبار میں کبھی اپنے ماتحت لڑکوں کے لیے بھی تربیت کی ایسی کوٸی کوشش کی؟؟تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو محمّد صلی اللہ و علیہ وسلم نے جنگی قیدیوں کی رہاٸی کے لیے فدیہ رکھ دیا کہ وہ صحابہ کو پڑھنا لکھنا سکھاٸیں۔آج بھی کچھ قید خانوں میں قرآن کی تعلیم دی جا رہی ہے۔گورنمنٹ آف پاکستان کا تعلیم کے میدان میں ایک عظیم قدم کہ قرآن و حدیث کی تعلیم لازمی مضمون۔کیا تعلیم صرف اسکول اور کالج میں ہی دی جانی چاہیے؟؟ہماری آدھی سے زیادہ آبادی مزدور طبقہ پر مشتمل ہے۔آبادی کا ایک بڑا حصہ دیہات میں آباد ہے جہاں تعلیم کا کچھ اتا پتہ نہیں۔ذرا بچہ تھوڑا بڑا ہواتو اسے مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔آج ہمارا مزدور طبقہ تعلیم و تربیت میں بہت پیچھے ہے اور اس بات کا مظاہرہ ہم "سانحہ سیالکوٹ” میں دیکھ چکے ہیں۔نہ والدین نے تربیت کی, نہ اُستاد کے زیرِ سایہ رہے۔پیسہ کمانے کے لیے نوکری پر لگی اور صرف دنّیا کے ہو کر رہ گئے۔کیا یہ مزدور رعیت میں شامل نہیں تھے؟کیا حاکم کا فرض نہیں تھا انکی دینی تربیت کرتا؟کیا وہ حاکم کل کو رب کی بارگاہ میں جوابدہ نہیں؟؟کیا وہ حساب نہیں دے گا کہ یہ مزدور تمہاری رعیت تھی تم ان کے عمل کے ضامن ہو؟جہاں گورنمنٹ کی کاوشں سے سکول کالج کا تعلیمی نظام تبدیل ہوا, ان فیکٹریز کے نظام میں بھی تبدیلی آنی چاہئے۔ہر کام ہم حکومت کے اوپر کیوں ڈال دیتے ہیں؟ہم خود بارش کا وہ پہلا قطرہ کیوں نہیں بن جاتے؟؟جو نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا ہوتا ہے۔جس قطرے کی تقلید باقی قطرے کرتے ہیں۔صنعت کار اور کاروباری افراد حکومت کے کن آرڈرز کا انتظار کر رہے ہیں جب کہ برسوں پہلے اللہ ربّ العالمین نے بتا دیا کہ تم سے تمہاری رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔تم کسی حد تک اُن کے اعمال کے ذمہ دار ہوگے۔آئیں! اپنے ربّ سے یومِ الست میں کیا وعدہ پورا کریں۔کیونکہ ابھی سورج سوا نیزے پر نہیں آیا۔ابھی صور نہیں پھونکا گیا۔ابھی قیامت کا دھواں نظر نہیں آیا۔ابھی جان حلق میں نہیں اٹکی۔ابھی موت ہم سے ذرا دور ہے۔ابھی وقت ہے "امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا” ابھی وقت ہے بہترین اُمت بننے کا۔ابھی وقت ہے کوشش کرنے کا۔آئیں ہم آغازِ صبح کریں۔پچھلی قوموں کی طرح نہ ہوجائیں بلکہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھیں۔اور اپنے ماتحتوں کو دین کی تعلیم دینا شروع کریں. آئیں موت کے سفر پر جانے سے پہلے زندگی میں نیکیوں کی طرف جانے کا سفر شروع کریں۔تا کہ یہ وقت ہمارے لئے حجت بن جائے اور ہمارے ماتحت ہمارے لئے صدقۃ جاریہ بن جائیں۔ربّ کے سامنے جواب دہی کے لئے اپنے سفر زندگی کے پرچے میں تمام جوابات تحریر کر لیں۔اللہ ربّ العزت ہم سب کو حق بات کہنے کی توفیق عطا فرماۓ (آمین)

Comments are closed.