سانخہ سیالکوٹ

 

قراةالعین خالد(سیالکوٹ)

 

یوں تو اس دل دہلا دینے والے سانحہ کو رونما ہوئے ایک ہفتہ بیت گیا ہے۔ مگر اس سانحہ کے اثرات ہمارے دلوں پر برسوں رہیں گے۔ سنا تھا نماز جمعہ کے بعد سعودی عرب میں مجرموں کو سرعام پھانسی دی جاتی ہے تاکہ وہ باقی افراد کے لئے نشان عبرت بن جاٸیں اور معاشرے میں جرائم کی تعداد کو کنٹرول کیا جا سکے۔ وہ پھانسی رب کی حدود کو تجاوز کرنے والوں کا مقدر ہوتی ہے۔ وہ پھانسی قانونِ شریعت توڑنے والوں کو رب کی تجویز کردہ سزا ہوتی ہے۔ لیکن 3 دسمبر 2021 بروز جمعہ سیالکوٹ وزیرآباد روڈ پر جب شہر اقبال کے مکین اپنے اہل خانہ کے ساتھ نماز جمعہ کی تیاری میں مشغول تھے توکس کو خبر تھی کہ چند نوجوان معذرت کے ساتھ جو دین اسلام کی "د” بھی نہیں جانتے حدود اللہ کو پامال کر رہے تھے۔ شریعت کے قانون کو اور ریاست کے قانون کو توڑتے ہوئے ایک نہتے انسان پر حملہ آور ہو رہے تھے۔مجھے اس تکلیف کا شدت سے اندازہ اس لئے ہے کہ یہ ہمارے آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے ۔کیسے ایک نہتے انسان پر درندوں کی طرح کئی افراد نے حملہ کیا پھر جو جس کے ہاتھ میں ہتھیار آیا اس نہتے کو مارا اور رسول اللہ کی جھوٹی محبت کے دعوی دار نماز جمعہ جو امت پر فرض ہے اسے چھوڑ کر قتل عام میں مشغول تھے۔ "جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا”۔ وہ غیر مسلم ہمارے مسلمان ملک میں کام کرنے آیا تھا اپنی بیوی بچوں سے جدا ان کے لیے کما رہا تھا۔ہم تو اس دین محمدﷺ کے پیروکار ہیں کہ اگر دشمن بھی آپﷺ کی پناہ میں آ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پناہ دیتے۔ وہ فرد ایک اسلامی ریاست "اسلامی جمہوریہ پاکستان” میں تھا. اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی عزت جان و مال کی حفاظت فرض ہے. فرمان نبویﷺ کے مطابق "جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالی اس پر جنت حرام فرما دے گا”۔

اس واقعے کے کئی پہلو ہیں۔ سب سے پہلے تو اقلیتوں کے حقوق کی بات ہے۔ اس کو تاڑ تاڑ کیا گیا۔ قرآن و حدیث کے مطابق ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ جس نے ظلم کیا بدلہ و سزا کا بھی وہی مستحق ہے۔ اگر اس غیر مسلم نے توہین مذہب کیا تھا، تو بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا دین اسلام اجازت دیتا ہے کہ ہم خود اس سے بدلہ لیں گے؟ کیا ہمارا دین اجازت دیتا ہے کہ اسے پتھر مار مار کر مار دیا جائے؟ کیا اس کو سنگسار کرنے کا حق ہمارے پاس تھا؟کیا اس نے زنا جیسا جرم کیا تھا؟ کیا اس کے جرم پر چار گواہ تھے؟ کیا اس کو عدالت میں پیش ہونے کا حق نہیں تھا؟ کیا اس کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے تھا؟ کیا یہ بات ریاست تک نہیں پہنچائی جانی چاہیے تھی؟ فرمان نبویﷺ کے مطابق "خبردار! جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اس کا حق مارا یا اس پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اس سے چھین لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔”

اب اس سانحہ کے دوسرے پہلو کی طرف آپ سب کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گی۔ جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو بہت سے تماشائی تماشہ دیکھنے کی غرض سے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ فرمان نبویﷺ کے مطابق ” اگر تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے ، ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے ، اور اگر زبان سے روکنے کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو اسے دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا سب سےکمزور درجہ ہے۔” سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایمان کے نچلے درجے سے بھی گر گئے ہیں ؟ کیا ہم کھائی میں گر گئے جو جہنم کے اندھیروں جیسی ہے ؟ اس سارے تماشے میں صرف ایک فرد منظر عام پر آیا جو ہاتھ سے ،زبان سے برائی کو روکنے کی کوشش کررہا تھا، باقی قوم خاموش تماشائی بنی کھڑے ہو کر تماشہ دیکھتی رہی۔ لمحہ فکریہ ہے آج وہ غیر مسلم ہمارے ہتھے چڑھا کل یہ ذہنی مریض لوگ اپنے اندر سے کسی فرد پر حملہ کر سکتے ہیں ۔ وہ غیرمسلم روتا، چینختا رہا، چلاتا رہا ، دہائی دیتا رہا مگر کوئی ایک بھی فرد آگے نہ بڑھا اس کی مددکو. جب مار کر جی نہیں بڑھا تو اس کے جسم کو جلا دیا۔ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ گئے میرے کیا آگ کا عذاب دینا کسی انسان کے اختیار میں ہے؟ کیا کسی کو جہنم واصل کرنا کسی انسان کا ا ختیار ہے؟ کیا جہنم کسی انسان کے بنائی ہوٸی ہے؟ نہیں بلکہ”جہنم کا ایندھن تو انسان اور پتھر ہیں۔”

کیسے انسان ہوں گےجو جہنم کا ایندھن بنیں گے؟ وہ جو رب کی حدود سے تجاوز کریں گے۔ وہ جو رب کی حدود کو پامال کریں گے۔وہ جو رب کی بنائی شریعت کے نظام کا لحاظ نہیں کریں گے ۔وہ جو صبر نہیں کریں گے ۔وہ جو نافرمان ہوں گے۔اس سانحہ کے ایک اور پہلو کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہوں گی ۔ہمیشہ کی طرح پولیس واقعہ کے بعد آئی اور پھر c-c-tv کیمرہ کی مدد سے جو جو ہاتھ لگا اس کو پکڑ کر لے گئی۔ہمیشہ کی طرح قصوروار کے ساتھ کچھ بے قصور بھی اس کی زد میں آگئے۔وہ دنیا کی نظر میں تو بے قصور ہیں لیکن اللہ کے نزدیک ایمان کے نچلے درجے سے بھی نیچے ہیں کیونکہ وہ بھی اس تماشے میں دیکھنے کا کام کر رہے تھے۔ تو جو جو بھی کیمرہ میں نظر آیا وہ قانون کے شکنجے میں ہے یہ تصدیق کیے بغير کہ وہ ملوث تھا یا نہیں۔ ایسا تو چلتاہی رہتا ہے۔ یہ بات تو حقيقت ہے کہ”اللہ پاک بہترین انصاف کرنے والا ہے۔” اللہ پاک سے بڑھ کر کوئی عدل کرنے والا نہیں لیکن اس دنیا میں عدالتیں بھی قائم ہیں تو اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس واقعہ میں بھی حق کو حق اور باطل کو باطل کر دیکھائیں اور مجرموں اور بے قصوروں کی پہچان کروائیں۔(آمین)

علم کی ہی بنیاد پر آدم کو فرشتوں نے سجدہ کیا۔ علم ہی ہے جس نے آدم کو خاص بنایا اور "قیامت کے نزدیک علم اٹھا لیا جائے گا۔” اور یہ اس شریعت کے علم کی کمی ہے کہ جس شریعت نے انسان کو صبر کرنا سیکھایا،تشکر کے جذبات سے روشناس کروایا،امن کا گہوارہ بنایا،ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری سکھائی،ایثار و قربانی کا ایسا جذبہ سکھایا کہ پیاس کی طلب سے مرتے ہوئے افراد ایک دوسرے کو ہی پانی پیش کرتے رہے۔ ہمیں یہ سکھایا کہ ہاتھ اور زبان سے کسی دوسرے کو تکليف نہیں دینی۔آج یہ مزدور طبقہ انسانيت سے گر گیا۔ آج چند ذہنی طور پر مفلوج لوگ ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟تعليم و تربيت دونوں کے فقدان کی وجہ سے۔کوئی انسان ایک دم سے اتنا ظالم نہیں بن جاتا یہ دینِ اسلام کی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ہے کہ انسان حیوانیت اور فرعونیت کے درجے تک پہنچ گئے ۔کیونکہ عام سے خاص بننے کا سفر علم کے بغير ممکن نہیں اور عام اشیاء تو بھیڑ کی مانند ہوتی ہیں۔ ان ذہنی مفلوج لوگوں نے جو رویہ دکھایا وہ ایک دن کا غصہ نہیں تھا بلکہ وہ سالوں اس غصے اور بےصبرے پن کو خود میں پالتے رہے اور ان کی تربيت کرنے والی ماؤں نے توجہ نہیں دی۔اگر یہی مائیں دین کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کرتی تو آج یہ نتائج برآمد نہ ہوتے۔نماز ِجمعہ جو فرض ہے اسے چھوڑ کر یوں جذباتی نہ ہوتے،قانون کی پاسداری کرتے۔

قصہ مختصر "تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔”زیست کے پنوں میں ضرور کہیں نہ کہیں جب بچے محلے کے کسی بچے سے جھگڑا کر کے آتے ہوں گے تو دو طرح کے رویے سامنے آتے ہیں۔ ایک تو ایسی ماں جس کا تعليم سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہ ہو وہ کہے گی جس نے مارا ہے اسے دو چار تم بھی لگا آؤ اور دوسری وہ ماں جس کا رب سے تعلق مضبوط ہے جو آخرت کے دن پر یقين رکھتی ہے۔جہاں ہر ظلم و زیادتی کا بدلہ انصاف کے ساتھ دیا جائے گا وہ بچے کو سمجھاتی ہے کہ کسی کے ساتھ جھگڑا نہیں کرنا اگر کوئی مارتا ہے تو درگزر کرو صبر کرو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔وہ بچے کو بھلائی کا،امن کا،ایثار اور قربانی کا درس دیتی ہے اور اس کا تعلق رب کاٸنات سے جوڑتی ہے۔ اور دوسری وہ ماں جو اپنی کم عقلی اور کم علمی کے سبب فوراً بدلہ لینا،گالی نکالنا اور مارنا سیکھاتی ہے کیا اس طرح دونوں کی اولادیں برابر ہو سکتی ہیں؟؟؟ تو آج جو رویہ سانحہ سیالکوٹ میں لوگوں کا نظر آیا آپ کیا کہتے ہیں کہ کس طرح کی ماں نے ان کی پرورش اور تربيت کی ہو گی؟جبکہ "اولاد کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے۔” ایک بچے کی زندگی میں ، والدین اور معاشرہ اس کی تربيت گاہ ہوتے ہیں ۔جو کبھی سکول نہیں گئے وہ استاد سے محروم رہے، باقی بچے والدین۔ اور ماں کی ذمہ دار زیادہ ہوتی ہے اولاد کی تربيت ماں کے حصے میں آتی ہے۔اس سانحہ کو کافی لوگوں نے قلم بند کیا لیکن مجھے لگا کہ اس پہلو پر غورو فکر کی ضرورت ہے کہ یہ جاہلانہ،جارخانہ،ظالمانہ رویہ آیا کہاں سے؟ اگر بیماری کو جڑ سے نہیں پکڑیں گے تو یہ ناسور بن جائے گا جو پورے جسم میں پھیل جاتا ہے۔ اگر ہم اس بات تک نہ پہنچے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے تو اصلاح حاصل کرنا ناممکن ہے۔ "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پرفرض ہے۔” یہ ایک جملہ اکثر دیواروں کی زینت بنا ہوتا ہے۔ ہم انسانوں کا ہجوم کب اس جملے پر عمل کرے گا؟ سانحہ سیالکوٹ ہمارے ذہنوں میں بہت سے سوال چھوڑ گیا ہے ۔ ہر پہلو سے ضرور سوچیے گا کہ کیا یہ دینِ محمدیﷺ ہے؟کیا یہ رویہ ریاستِ مدینہ کے مکینوں کا تھا؟کیا دینِ اسلام کا علم حاصل کرنا ضروری نہیں؟ کیا ماں کا تعليم یافتہ ہونا ضروری نہیں؟ کیا معاشرے کا تعليم یافتہ ہونا ضروری نہ یں ؟؟؟؟؟

Comments are closed.