جمعیۃعلماء ہند اور آر ایس ایس کا تقابلی جائزہ !
جمعیۃ علماء ہند اور آر ایس ایس کا ابتدائی دور کیسا تھا؟ موجودہ وقت میں دونوں تنظیمیں کہاں کھڑی ہیں؟

ظفرلکھیم پوری
بصیرت آن لائن
۱۸۳۱ میں ملک کی پہلی تحریک آزادی اور ۱۸۵۷ میں تحریک شاملی کی ناکامی کے بعد علماء نے سیاست سے کنارہ کشی کرلی اور ۱۸۶۷ میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈال کر تعلیمی سرگرمیوں کی متوجہ ہوئے؛
لیکن ۱۹۰۵ میں جب دارالعلوم دیوبند کی قیادت شیخ الہند رح کے ہاتھ آئی تو ایک نئے دور کا آغاز ہوا ،انہوں نے سیاسی نوعیت سے بہت سارے ناقابل فراموش کام انجام دیےـ
عالم اسلام کے خلاف ہورہی چیرہ دستیوں نے علماء کو پریشان کر رکھا تھاـ
پہلی جنگ عظیم کے بعد جب اتحادیوں نے خلافت کے خلاف حملہ بولا تو علماء نے حکومت برطانیہ سے خلافت کے تحفظ کا مطالبہ کیا، یہ اسی احساس کا نتیجہ تھا کہ علماء نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا، لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ مسلم لیگ ان کے مقاصد کے لیے موزوں نہیں ہےـ
چنانچہ۲۲ دسمبر ۱۹۱۹ خلافت کانفرنس کے بعد قومی بین الاقوامی حالات پر بحث و مباحثہ ہوا، جس میں یہ بھی بات سنجیدگی کےساتھ رکھی گئی اس وقت مختلف اقوام کی اپنی اپنی تنظیمیں ہیں ،علماء کی کوئی تنظیم نہیں ہے، ایک طویل بحث کے بعد حاضرین کے اتفاق رائے سے”جمعیت علماء ہند” کے نام سے تنظیم کی بنیاد رکھی گئی ـ
اس کے بعد ۲۸ دسمبر ۱۹۱۹ سے لیکر یکم جنوری ۱۹۲۰ تک جمعیت علماء کا پہلا اجلاس مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں جمعیت علماء کے اغراض و مقاصد پر مشتمل مسودہ پیش کیاگیا ـ
جمعیت علماء ہند کی اہمیت و کارنامے:
میں سمجھتا ہوں کی جمعیت علماء ہند کے سیاسی، مذہبی اور تاریخی اہمیت سے کوئی بھی باخبر انسان جرأتِ انکار نہیں کر سکتا، یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر ہندوستان میں شیخ الہندؒ مفتی کفایت اللہؒ، شیخ الاسلامؒ اور دیگر اکابرین جمعیت علماء ہند کی مجاہدانہ جدوجہد جمعیت علماء کا نظام قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوتی تو آپ دیکھتے کہ آج مذہب کی جاذبیت بے کیف، اس کے ادراکات روحانی بے معنی، اس کے اثرات زائل ہو چکے ہوتے،
درحقیقت یہ جمعیت علماء ہند ہی کی جد وجہد تھی جس نے صدیوں تک اسلام کو ہندوستان میں زندہ رکھنے کا زریں موقع دیاـ
جب سے جمعیت وجود میں آئی اسی وقت سے جمعیت علماء نے مسلمانوں کی سیاسی، مذہبی، دینی مسئلوں کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھالیا، بڑی بڑی قربانیاں دیکر اس فریضے کو ادا کیا، تاریخ پر نظر ڈالیں تومعلوم ہوگا کہ جمعیت جب وجود میں آئی تو قومی اور بین الاقوامی مطلع غبار آلود تھا ، وہ زمانہ شورش کا تھا لیکن جمعیت نے بے جگری سے ہر محاذ پر مقابلہ آرائ کی، اپنے دوسرے ہی اجلاس عام میں ترک موالات پر فتویٰ دیکر حکومت کو آنکھ دکھانا شروع کر دیا جس فتویٰ پر ۴۷۴ علماء نے دستخط کئے جس کی پاداش میں بہت ساری گرفتاریاں بھی ہوئیں، جمعیت نے ازادی کی تحریک میں ہمیشہ کانگریس کے دوش بدوش کھڑی رہی ـ
آزادی سے قبل کے فسادات ہوں یا پھر تقسیم کو روکنا ہو، جمعیت علماء نے مسلمانوں کی بقاء کےلیے وہ عظیم کارنامے سرانجام دیےجنہیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ـ
انہیں مجاہدین کے مجاہدانہ کارناموں کی وجہ سے آج مسلمان قومی دھارے میں شامل ہیں ـ
جمعیت علماء ہند نے مختلف شعبوں میں ادارے قائم کئے
مسلمانوں کی سیاسی، اقتصادی، مذہبی، سماجی،اعتبار سے بحالی کے لئے ہر ممکنہ اقدامات کئے اور کامیابی بھی ملی ، یہ وہ زمانہ تھا جب جمعیت علماء ہند عروج پر تھی ، ہر معاملے میں کے خلاف کھڑی ہوکر موثر اور جرأت مندانہ فیصلے کرتی ، بے شمار شواہد اس پر گواہ ہیں ـ
جمعیت علماء ہند اور آر ایس ایس کا مختصر تقابلی جائزہ:
آزادی سے پہلے بھارت میں دو تنظمیں قائم ہوئیں
ایک جمعیت علماء ہند، دوسری آر ایس ایس، دونوں کے نظریات اور مقاصد میں حددرجہ فرق ہے۔
جمعیت علماء ہند کے مقاصد میں قوم کی سیاسی بحالی اور مذہبی ،قومی، خدمات شامل ہیں، جبکہ آر ایس ایس کے مقاصد میں ہندتو کی تبلیغ اور ہندو راشٹر کے خواب کی تکمیل شامل ہے۔
لیکن اگر نگاہ ڈالیں تو اس وقت جمعیت علماء ہند اور جمعیت علماء کے چار پانچ سال بعد قائم ہونے والی آر ایس ایس کے درمیان کوئی موازنہ نہیں رہاـ
ایک تنظیم نے عروج کی وہ منزلیں طے کیں جن کی توقع بھی نہ تھی اور ایک تنظیم اپنے بزرگوں کی امانت کو صحیح معنوں میں محفوظ رکھنے میں کامیاب نہیں رہی،
یہ بات کسی بھی جمعیت علماء سے محبت رکھنے والے کو ہضم نہیں ہوتی ہوگی کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ آر ایس ایس سو سالوں کے اندر دنیا کی سب سے بڑی تنظیم بن گئی کہ جو ہندوستان میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
آخر کن میدانوں میں جد و جہد کرکے سنگھی سوا سو ارب ہندوستانیوں کی قسمت الٹنے پلٹنے والے بن گئے؟
آر ایس ایس سے تقریباً پانچ سال قبل وجود میں آنے والی جمعیت کیوں وقت کے ساتھ ساتھ سکڑتی چلی گئی ـ
وہ تنظیم جس کو جمعیت کے عروج کے وقت کوئی خاصی پہچان حاصل نہیں تھی، جس نے اپنی ابتدا کے وقت ہی پابندی کا سامنا کیا ہو وہ وقت کےساتھ ساتھ کہاں سے کہاں پہنچ گئی ـ
اس نوعیت کے درجنوں حیران کن سوالات ہیں،
لیکن جب آر ایس ایس کی تاریخ، اس کی اپنی قوم کے تئیں قربانیاں، کارکنوں کی جد وجہد، مقاصد کے حصول کی خاطر محنتیں، ہندتو کی تبلیغ کے لئے ان کی نےپناہ مشقتیں دیکھیں گے تو آپ کی حیرانی حقیقت کے اعتراف سے بدل جائے گی ـ
سنگھ کی اہمیت صرف اس کے نظم و ضبط، تعلیم و تربیت اور لگن کی وجہ سے نہیں، بلکہ سنگھ ایک نظریاتی تحریک ہے، جو افراد اور اجتماع سے ظاہر و باطن دونوں کی تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے، سنگھ کا مقصد پورے سماج کی تبدیلی ہے، اسی لیے انہوں نے ہر میدان میں افرادی سازی کا کام کیا اور تنظیمیں قائم کیں، تاکہ ملک کے بڑے سے بڑے عہدوں پر براجمان ہوا جائے، سنگھ نے اپنے اسی مقصد اور نظریات کے استحکام کے لیے تعلیمی اور تربیتی ڈھانچے کو خوب سے خوب مضبوط کیا، سنگھ کے ایجنڈے میں ہے کہ ہندتو کے پروپیگنڈے کے استحکام کے لیےدیہی علاقوں میں بالخصوص چھوٹے چھوٹے غریب، نادار بچوں کی تعلیم و تربیت پر محنت کی جائے، انہوں نے اسکولوں کے نجی نیٹورک کو پھیلانے کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا، آج ملک بھر میں کئی ہزار ماڈل اسکول اور کالج سنگھ کے چلتے ہیں،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ تعلیم ہی واحد راستہ ہے ہندو راشٹر کے خواب کی تکمیل کا ـ
سنگھ کے اسکولوں سے ہر سال لاکھوں بچے پڑھ کر کہاں جاتے ہیں؟
کوئی جج بنتا ہے، کوئی پولیس بنتا، کوئی آئی ایس افیسربنتا ہے، کوئی وزیر اعلیٰ اور کوئی وزیر اعظم، جو نہ صرف آر ایس ایس کے کٹر حامی ہوتے ہیں، بلکہ کام بھی انہیں کے اشارے پر کرتے ہیں اور پھر انہیں وزراء سے اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں، جو وزیر بنے ہی ہمارے حقوق کو ختم کرنے کے لئے ـ
سنگھ نے افراد سازی پر خوب محنت کی ،کارکنوں نے آر ایس ایس کو مظبوط کرنےکے لیے زندگیوں کو لگادیا، تاکہ ایسی نوجون نسل تیار ہو جو ہندو راشٹر بنانےمیں جانوں کا نذرانہ پیش کر سکےـ
آج ان کی ذیلی تنظیمیں 84877 کی تعداد میں ہیں دنیا کے 39 ممالک میں سنگھ کی تنظمیں ہیں ، دل چسپ بات یہ ہے کہ عرب ممالک میں بھی خفیہ تنظیمیں سنگھ کے لیے کام کرتی ہیں ـ
سنگھ کو قائم ہوئے تقریباً ۱۰۰ سال ہونے کو ہے کہ اس وقت سنگھ اپنے اثرات اور اثرورسوخ کے اعتبار سے عروج کی بلندیوں پر ہے، یہ سنگھیوں کی سو سالہ مسلسل محنت کا نتیجہ ہے،
جبکہ جمعیت علماء ہند کے پاس کوئی ذیلی تنظیمیں، ادارے وغیرہ نہیں ہیں، اورنہ ہی عوامی روابط کے لیے کوئی طریقہ کار موجود ہے ، جمعیت نے ٹھوس افراد سازی اور اندرونی محنتوں کے بجائے قومی جلسوں کا یکجہتی کانفرنسوں کا خوب اہتمام کیا ،لیکن فائدہ کیا نکلا آپ کو معلوم ہے، ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کی بحالی کا ذمہ ہم نے اپنے سر لے لیا ہے، ہم نے صرف مزدور، سودا فروخت اور فٹ پاٹ پر کام کرنے والے پیدا کیے، جبکہ آر ایس ایس نے قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا، آر ایس ایس نے قوم کو اس بات پر راضی کیا کہ بچوں کو ہمارے حوالے کرو ،کل کو یہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوں گے، بلکہ ملک کو بھی اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے قابل بنیں گےـ
آپ جمعیت علماء اور آر ایس ایس کے انتظامی ڈھانچے اور نظم و ضبط پر نظر ڈالیں تو زمین و آسمان کا فرق دکھائی دے گا، دونوں تنطیم کے کارکنوں کو دیکھیں تو بعد المشرقین سا فرق معلوم ہوگا، بزدلی جس سے اسلام کو ہمیشہ نفرت رہی ہے، جس نے اقوام و ملل کو صدیوں غلام بنائے رکھا ،افسوس ہمارے اندر یہی چیز سرایت کرگئ، جو ہمیں کسی بھی صورت میں قربانی، ایثار اور صعوبتوں کو برداشت کرنے پر نہیں تیار کرسکتی ـ
اگر آپ کا ہر مسند نشیں رنج و غم، خوف مرگ سے بے پرواہ ہوکر میدان عمل میں نکل پڑے تو ممکن ہے قوم کی بھی غیرت جاگ اٹھے، ورنہ صرف کاغذی تجاویز اور مطالبات سے کچھ نہیں ہونے والا، اگر قربانی کا جذبہ نہیں تو کاغذی تجاویز پیش کرکے آپ صرف وقت ضائع کر کے اپنی اور اپنی قوم اور اپنے خدا کی نگاہ میں مجرم بن رہے ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کی ان تمام تنظیموں اور قائدین ست گزارش یہ ہےکہ اگر آپ اپنی قوم کو بھارت میں خوددار اور با عزت دیکھنا چاہتے ہیں تو ایسی جماعت تیارکریں جس کا ہر رکن پیکر عمل اور مخلص ہو، ورنہ نہایت صفائی کیساتھ قوم سے معزرت چاہ کر عہدوں سے سبکدوش ہو جائیں تاکہ مسلمان کسی غلط فہمی کا شکار نہ رہیں۔
Comments are closed.