شخصیت: مولنا وحید الدین خان

خاکہ نویس: عبدالغفار شیرانی
اسمِ گرامی وحید الدین، ولدیت فرید الدین، رہائش نظام الدین، پیرو در ادبِ عربی علامہ حمید الدین، راہرو در ادبِ اردو علامہ ابو الکلام محی الدین، مقام عالمِ دین، کام دعوتِ دین، تحریک احیائے دین، تنقید بر تحریکِ نفاذِ دین، تصانیفِ ممتاز بنام اظہارِ دین و تجدیدِ دین۔ متین و فطین، امنِ عالم کے امین، مکالمہ بین المذہب کے کلیم۔ ژرف نگاہ، نکتہ رس و بسیار نویس، زود فہم، زود رس و زود نویس، خوش سخن، خوش اخلاق و خوش نویس، خلیق، ہمدرد و ملنسار، شفیق، خود دار و خاکسار۔ شخصیت ان کی ساحرانہ، تقریر فلسفیانہ، تحریر شاعرانہ، انداز ادیبانہ، اسلوب ناقدانہ اور تنقید عالمانہ تھی۔ ان کے اعجازِ بیان، جادوئے زبان، سحرِ قلم اور طلسمِ فکر نے برصغیر کی تین نسلوں کو اپنا اسیر بنائے رکھا۔ آپ ایک منصف مزاج مصنف، ایک بلند پایہ سایہ، ایک متفکر مقرر، ایک دور بین عالمِ دین اور ایک قد آور دانشور تھے۔ آپ کی اسلوبِ گفتگو، ندرتِ استدلال اور مطالب کی آمد نے آپ کی شخصیت کو چار چاند لگا رکھے تھے۔
قدیم مناطقہ نے انسان کو حیوانِ ناطق، ارسطو نے معاشرتی حیوان، مرزا غالب نے حیوانِ ظریف جبکہ مولنا وحید الدین خان نے خود کو تفکیری حیوان سے موسوم کیا ہے۔ فکر ان کا اوڑھنا، تدبر بچھونا جبکہ سوچنا اور سمجھانا ان کا کھانا پینا تھا۔ ہر بیہودگی سے علیحدگی، ہر فرسودگی پر اُفسردگی، ہر کشیدگی پر خفگی، ہر آوارگی سے پرے، ہر گندگی سے بعید، ہر درندگی سے دور، ہر پسماندگی سے اختلاف، ہر کمینگی کے خلاف، ہر بوسیدگی کی مخالفت، ہر عداوت سے بیگانگی، عشقِ خدا میں دیوانگی، بے چارگی میں بھائی چارگی، زندگی میں بے قاعدگی نہ بے ضابطگی، مشکلات پر دل گرفتگی نہ آرزدگی. جذبات میں سوختگی نہ خیالات میں پراگندگی. دعوت سے وابستگی، انداز کی بے ساختگی، وعدے کی پختگی، کردار میں درستگی، معمولات میں سادگی، معاملات میں پاکیزگی، چہرے پر سنجیدگی، تقریر میں شُستگی، لہجے میں شگفتگی، گفتگو میں شائستگی اور خِرد میں فرزانگی کی وجہ سے شخصیت میں ان کی مردانگی نمایاں جبکہ فکر میں انفرادیت کی موجودگی عیاں ہے.
مولنا وحید الدین خان کے جد امجد حسن خاں تھے جو اپنے برادر حسین خاں سے اختلافات کے باعث سوات چھوڑ کر جون پور میں مقیم ہوئے۔ اُس وقت جون پور کا حکمراں سلطاں خان تھا۔ بعد میں ان کے خاندان میں سے کچھ لوگوں نے جون پور سے ہجرت کرکے اعظم گڑھ کو اپنا مسکن بنایا۔ مولنا وحید الدین خان نے یکم جنوری ۱۹۲۵ء کو اتر پردیش کے مردم خیز ضلع اعظم گڑھ کے بڈھریا نامی گاؤں میں جنم لیا۔ اپ کی والدہ زیب النساء گھریلو خاتون تھیں۔ پانچ برس کے تھے کہ شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے۔ برادرِ کبیر عبدالعزیز خان نے برادرِ عزیز کی تعلیم و تربیت سے اسے تمام علمی و فکری معززین میں ہر دلعزیز بنا دیا۔
ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے گاؤں کے ایک مکتب سے حاصل کی۔ ۱۹۳۸ء میں عربی تعلیم کے لئے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ میں داخلہ لیا، جہاں سے ۱۹٤٤ء میں انہوں نے دینی علوم کی سند حاصل کی۔ مولنا حمید الدین فراہی کے نامور شاگرد مولنا امین احسن اصلاحی اور مولنا اختر احسن اصلاحی ان کے استاد تھے مگر انہوں نے اسلوبِ تفسیر میں اپنے استادوں کی تقلید کی نہ نظمِ قرآن کے مسئلے میں فکرِ فراہی کی تائید۔ عربیت کے لئے آپ نے مولنا فراہی اور اردو دانی کے لئے مولنا آزاد کو پڑھا، تاہم ان دونوں کی سیاسی سوچ سے آپ اتفاق نہیں کر پائے۔ دینی تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے اپنی محنت سے انگریزی زبان میں خصوصی مہارت حاصل کی اور اس کی بدولت تمام عصری علوم بالخصوص سائنسی فنون سے اچھی خاصی شناسائی پیدا کی۔ عصری علوم کو آپ سیکولر علوم سے تعبیر کرتے تھے۔ سائنسی علوم سے قریبی واقفیت کی بدولت ان کے استدلال میں فطرت سے قربت کی جھلک ہے۔
آپ کے فکر کی تشکیل میں تجربات و مشاہدات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ آپ کو دینی تعلیم میں مہارت اور عصری علوم پر دسترس کے ساتھ فلسفیانہ استدلال پر بھی عبور حاصل تھا۔ بقول ان کے انہوں نے پامسٹری سے لے کر اسٹرانمی تک ہر مضمون کا مطالعہ کیا ہے. مولنا ایک فلسفی مزاج مفکر تھے، ان کی سوچ کا طرز فلسفیانہ، دعوت کا اسلوب ادیبانہ اور استدلال کا انداز سائنسی تھا۔ آپ دینیات میں بھی سائنسی طرزِ فکر کے پرچارک تھے۔ تہذیبی سلیقے اور ادبی ذائقے کے ساتھ سادہ زبان میں اپنے گہرے افکار کو اختصار سے پیش کرنا ان کا شاہکار کارنامہ ہے۔ ان کے مطابق اقلیت و اکثریت کا دارومدار تعلیم پر ہے، جو قوم تعلیم یافتہ ہے وہ کھبی بھی اقلیت میں نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے ہمیشہ تشدد، تصادم اور تناؤ سے دور رہنے پر زور دیا۔
سیاست میں آپ مولنا سید ابو الاعلیٰ مودودی سے متاثر ہوکر تقسیمِ ہند کے تین ماہ بعد نومبر ۱۹٤۷ء میں جماعتِ اسلامی ہند کے شریکِ سفر بنے۔ ۱۹٤۸ء میں ان کے فرزند ارجمند ظفر الاسلام خان کی پیدائش ہوئی۔ کچھ عرصہ جماعت کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے ممبر رہے۔ ۱۹۵٦ء میں جماعتِ اسلامی ہند کی مرکزی شعبہ تصنیف سے وابستہ ہوئے۔ اس مقصد کے لئے آپ رام پور تشریف لے گئے۔ یہیں ۱۰ دسمبر ۱۹۵۹ء کو آپ کے دوسرے فرزند ثانی اثنین خان کی پیدائش ہوئی۔ چھ سال تک رام پور میں قیام رہا۔ آپ جماعتِ اسلامی کی تعمیری ادب کی تدوین کا حصہ رہے۔ اسی دوران جماعتِ اسلامی کے بانی سے ان کا فکری اختلاف ہوا، جس کے لئے مولنا صدر الدین اصلاحی، مولنا جلیل احسن ندوی، مولنا ابو اللیث ندوی اور خود مولنا سید ابو الاعلیٰ مودودی سے خط و کتابت بھی ہوئی۔ نظریات کے معاملے پر انہوں نے قلمی مناظرے کی بھرپور کوشش کی، تاہم مولنا مودودی نے اپنے نقطہ نظر پر مناظرے سے ہمیشہ گریز کیا۔
پہلے دس سال تک انہوں نے یکسوئی کے ساتھ جماعت کے ساتھ کام کیا، تاہم بقیہ پانچ سال وہ کشمکش میں رہے۔ یہ ان کے فکری تذبذب کا دور تھا۔ آخر کار پندرہ سالہ رفاقت کے بعد انہوں نے اپنی بصیرت کی روشنی میں اپنا الگ سفر شروع کیا۔ مولنا مودودی کی تصنیف ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات“ میں اصلاحات کی خاطر مدلل تنقید کے لئے اولین قلم انہوں نے اٹھایا۔ ۱۵ ۱کتوبر ۱۹٦۲ء کو انہوں نے جماعتِ اسلامی سے استعفیٰ دیا جو ۲۵ اپریل ۱۹٦۳ء کو جماعت کی قیادت کی جانب سے منظور ہوا. جماعتِ اسلامی سے رفاقت کے اختتام پر آپ دوبارہ اعظم گڑھ چلے گئے۔ ”تعبیر کی غلطی“ کی صورت میں انہوں نے اپنے فہم کے مطابق مولنا مودودی سے اسلام کی سیاسی تعبیر پر اختلاف کا اظہار کیا۔ یہ کتاب فکرِ مودودی سے ”فکرِ وحیدی“ کے اختلاف کا بیان ہے۔ جو پہلی دفعہ ۱۹٦۳ء میں منظرِ عام پر آئی۔
مولنا مودودی فکری سفر میں مولنا وحید الدین خان کے پہلا شعوری پڑاؤ ہیں۔ تاہم جماعتی فکر پر اختیارات کی کشمکش میں آپ جماعت کے دھارے سے الگ ہوئے۔ آپ اقامتِ دین کے فریضے اور حکومتِ الہیہ کے قیام کو سیاسی اسلام قرار دیتے تھے۔ مولنا مودودی کی جانب سے پیش کردہ اسلام کی سیاسی تعبیر اور دین کامل کے تصور کو انہوں نے ”تعبیر کی غلطی“ قرار دیا۔ ”تعبیر کی غلطی“ ان کی فکری تعبیر کا مقدمہ ہے، بقول بعض مولنا کی باقی کتب اسی مقدمے کی شروحات ہیں۔ مولنا مودودی کی مخالفت میں مولنا منظور نعمانی، مولنا غلام غوث ہزاروی، مولنا محمد عمر اچھروی اور غلام احمد پرویز سمیت لاتعداد دیو قامت آوازیں بلند ہوئیں مگر ایک صدا جو سدا بہار ثابت ہوئی وہ مولنا وحید الدین خان کی تھی۔ مولنا مودودی کی طلسمی فکر کا اثر انہوں نے اپنے سحر انگیز قلم سے توڑا۔
جماعتِ اسلامی سے ناطہ توڑا تو مولنا سید ابوالحسن علی ندوی کی دعوت پر ندوۃ العلماء سے رابطہ جوڑا۔ ۱۹٦۳ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں قیام کے دوران مجلسِ تحقیقات و نشریاتِ اسلام سے وابستہ رہے۔ مجلسِ تحقیقات میں فکرِ مودودی کے حوالے سے اپنی تشکیک کو تحقیق کی مرحلے سے گزارا۔ ان کی شخصیت کی تعمیر میں کسی حد تک مولنا ابو الحسن علی ندوی کا بھی حصہ ہے۔ تین سال ندوہ میں اقامت کے بعد واپس اعظم گڑھ کا رخ کیا۔ جماعتِ اسلامی سے ان کی فکری رقابت کے بعد اور جمعیۃ علماء ہند سے قربت کے ایام میں تبلیغی جماعت سے ان کی دعوتی رفاقت کا آغاز ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہندوستان میں امن و آشتی کے انسانی تاج محل اور قلم کی عزیمت و تقدیس کے قطب مینار تھے۔ وہ عظمت کے اس مقام پر تھے کہ تبت کے معروف روحانی پیشوا دلائی لامہ کو بھی جھک کر ان سے ملنا پڑا۔
جدید الحاد کے خلاف عصری اسلوب میں ان کی تصنیف نے نصف اسلام کو اپنا اسیر بنائے رکھا۔ ۱۹٦٦ء میں منظرِ عام پر آنے والی ”علمِ جدید کا چیلنج“ دینی حلقوں میں ان کی سب سے مقبول ترین کتاب ہے۔ بقولِ شخصے یہ تصنیف ان کی شخصیت کا آفاقی تعارف ہے، عرب دنیا میں اس کا ترجمہ ۱۹۷۰ء میں ”الاسلام یتحدیٰ“ کے نام سے شائع ہوا جو ان کی پہچان کا ذریعہ بنا۔ یہ ترجمہ ان کے فرزند ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کیا۔ مذکورہ کتاب بعد ازاں ”مذہب اور جدید چیلنج“ کے نام سے جدید مذہبی اور قدیم سائنسی دونوں حلقوں سے خراجِ تحسین وصول کرتی رہی۔ سائنسی الحاد کو انہوں نے فکری الحاد اور اشتراکی الحاد کو جبری الحاد سے تعبیر کیا۔ مارکسزم ان کے خیال میں خوش خیالی پر مبنی ایک خیالی فلسفہ ہے۔ آپ اختلاف کے باوجود احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے تھے۔ اختلافِ رائے کے باوجود ان کی کتاب ”مذہب اور جدید چیلنج“ کا انتساب، اعترافِ عظمت کے ساتھ مولنا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور مولنا سید ابو الحسن علی ندوی کے نام ہے۔
ندوۃ العماء ہند کے بعد جمعیۃ العلماء ہند آپ کی اقامت گاہ ٹہری۔ مولنا سید اسعد مدنی کی دعوت پر ۲٤ جون ۱۹٦۷ء کو آپ دہلی آگئے اور ہفت روزہ الجمعیۃ کے مدیر کے طور پر کام شروع کیا۔ روزنامہ الجمعیۃ کے مدیر عثمان فارقلیط تھے اور ہفت روزہ الجمعیۃ کی ادارت مولنا وحید الدین خان کے پاس تھی۔ ان کی معقول طرزِ ادارت نے ہفت روزہ الجمعیۃ کو دینی حلقوں میں مقبول بنا دیا۔ الجمعیۃ کی ادارت نے جمعیۃ علماء اور دیوبند میں بھی ان کا حلقہ ارادت پیدا کیا۔ یہ حلقہ ارادت دارالعلوم دیوبند کے ساتھ ان کی خصوصی قربت کا باعث بنا۔ چنانچہ ایک دور میں دیوبند میں ان کی آمد و رفت بھی شروع ہوئی۔ دارالعلوم کی دارالحدیث میں مولنا وحید الزمان کیرانوی کی رفاقت میں مولنا وحید الدین خان کی خطابت کا دور بھی اہل دیوبند نے دیکھا۔ ان کے زیرِ ادارت الجمعیۃ کا یہ دور ۱۹۷٤ء تک جاری رہا۔ الجمعیۃ کی اشاعت بند ہوئی تو انہوں نے واپس اعظم گڑھ لوٹنے کا فیصلہ کیا، تاہم شریکِ حیات اور اولاد کے اصرار پر دہلی میں ہی رک گئے۔
۱۹۷۵ء میں انہوں نے تبلیغی جماعت کے ساتھ اپنی رفاقت کو بھی خیرباد کہہ دیا، اگلے سال دہلی میں اسلامک سنٹر کی بنیاد اور اکتوبر ۱۹۷٦ء میں الرسالہ کے اجراء سے انہوں نے باقاعدہ اپنے افکار کی ترویج کا آغاز کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے خیالات پر مشتمل اپنی ایک الگ خیالی دنیا آباد کرلی، جس میں جماعت بھی وہ خود تھے اور موذن بھی، امام بھی خود اور مستقل مقتدی بھی ان کا اپنا ہی خاندان۔ الرسالہ بقول ان کے مسلمانوں کی اصلاح اور ذہنی تعمیر کی تحریک تھی۔ اس جریدے کا تمام تر فکری اور ادبی مواد وحید الدین خان کے دماغی سانچے سے تیار ہوکر آتا تھا۔ الرسالہ کی نسبت سے ان کی فکری حرکت کو ”تحریک الرسالہ“ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی شبانہ روز محنت سے یہ رسالہ برصغیر میں دعوت، یادِ آخرت اور شعورِ امت کا پیامبر بنا۔ الرسالہ انسان کی داخلی شخصیت میں تبدیلی کی تحریک تھی۔ ان کے بقول ہمارا پروگرام ہے، پروگرام ساز افراد تیار کرنا۔ مصر کی اخوان المسلمون سیاسی دعوت کی تحریک تھی تو ہند کی اخوان الرسول دعوت کی سائنسی حرکت۔ ۱۹۸٤ء میں ان کی دختر فریدہ خانم کی کاوشوں سے الرسالہ کے انگریزی ایڈیشن کا اجراء ہوا۔ مولنا آزاد کا الہلال ہندوستان میں حکمت و دانائی کا اولین فکری ماہتاب تھا تو مولنا وحید الدین خان کا الرسالہ ہند میں الہلال کی تحریک کا سب سے روشن ستارہ۔
سر سید احمد خان کی علمی تحریک نے ہندوستان کو دبستانِ شبلی دیا تو دبستانِ شبلی کی فکری حرارت نے ہندوستان کو مولنا وحید الدین خان دیا۔ وہ افغانستان میں ہوتے تو وہاں کے باچا خان ہوتے، ایران میں ہوتے تو خمینی ثانی ہوتے اور ترکی میں ہوتے تو دوسرے نجم الدین اربکان ہوتے۔ انہیں ہند کی مرکزیت کے حوالے سے جانا جائے تو دہلوی تھے، امام فراہی کے مکتبِ فکر سے جوڑا جائے تو اعظمی تھے اور اپنی ذات سے منسوب کیا جائے تو وحیدی تھے۔ تقسیمِ برصغیر نے پاکستان کو محمد علی جناح کی صورت میں مذہبی سیاست کا قائد اعظم دیا تو ہندوستان کو وحید الدین خان کی شکل میں دینی دعوت کا خانِ اعظم۔ ہند میں ابوالکلام آزاد کے سرکاری جانشین اگر ڈاکٹر عبدالکلام تھے تو سر سید احمد خان کے فکری جانشین مولنا وحید الدین خان ہیں۔ دنیاوی اصلاح میں آپ سر سید احمد خان کے مقلد اور اخروی فلاح میں مولنا الیاس دہلوی کے وارث تھے۔
دین کے تجدید اور فکرِ اسلامی کی تفہیم کرنے والی شخصیات کسی بھی دور میں خود کو متقدمین پر تنقید سے دور نہیں رکھ سکتے۔ مگر یہ تنقید ذاتی نہیں علمی ہوتی ہے۔ مولنا وحید الدین خان کے بقول حقیقت یہ ہے کہ تنقید اجتماعی زندگی کی عظیم ترین بھلائی ہے۔ ان کے بقول مگر شرط صرف یہ ہے کہ تنقید کرنے والا اصول اور انصاف کے مطابق تنقید کرے جبکہ سننے والا اس کو مصلحت اور انانیت سے بلند ہوکر سنے. ان کے بقول ان کی زندگی کے اولین پچیس سال درسی تعلیم، جبکہ اس کے بعد والے پچیس سال تحقیقی مطالعہ میں صرف ہوئے۔ اسی بات کو مزید بڑھایا جائے تو اس سے متصل پچیس سال سابقہ تحقیقات کی تالیف و تدوین اور بقیہ سال ان تحقیقی تالیفات کی تبلیغ و تشریح میں صرف ہوئے۔
فتنہ تکفیر کے خلاف انہوں نے اپنی فکر کو باقاعدہ فن کی شکل میں پیش کیا۔ انہوں نے دینی دعوت کو سیاسی جدوجہد کے ہم معنی بنانے کی شدید مخالفت کی۔ سیاسی جہاد کے خلاف انہوں نے ہندی ساختہ علمی اجتہاد کیا۔ وہ اسلام کو دعوت کی دین سمجھتے تھے اور زندگی بھر اسی دعوت کو پیش کرتے رہے۔ دعوت کے لئے وہ جذبہ خیر خواہی کے ساتھ پر امن انداز، پر سکون ماحول اور حکمت و بصیرت کو شرط قرار دیتے ہیں۔ ان کی تفسیر میں علمی نکات سے زیادہ دعوتی اسلوب کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ اگرچہ یہاں بھی فلسفیانہ رنگ غالب ہے۔ اقوامِ عالم کے سامنے انہوں نے علمی انداز، عقلی نگارش اور سائنسی اسلوب میں اسلام کی دعوت پیش کی۔
کسی علمی فرد کی انفرادیت سے اجتہادی شخصیت کی تشکیل ہوتی ہے اور اجتہادی شخصیات کے ساتھ علمی تفردات ضرور ہوتے ہیں۔ آپ زندگی بھر دہلی کے علاقے نظام الدین میں مقیم رہے لیکن نظامِ دین اور نفاذِ دین کے لئے دینی جماعتوں کے قیام اور نظام سے زندگی بھر متفق نہ ہوسکے۔ ان کے مطابق اقامتِ دین کا مطلب اتباعِ دین ہے نہ کہ تنفیذِ دین۔ اخوان الملسمین مصر کی حامی جماعتیں ہوں یا اتحاد المسلمین ہند کی داعی تنظیمیں وہ سب کے ناقد رہے۔ پراگندگی سے بچنے کے لئے آپ ہدف کے تعین اور پھر اس کے لئے پرامن جدوجہد کو لازمی اور ہر ممکن کوشش کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کی تحریرات رازِ حیات سے لبریز، زندگی کی حرارت سے بھرپور اور عمدہ نثر کا بہترین نمونہ ہوا کرتی تھیں۔ جنگ و جدل کے مخالف اس ہندی نژاد کو علمی دنیا میں ہمیشہ نزاعات کا سامنا رہا۔ مولنا مودودی کی تحریکِ تجدیدِ دین کے طرح مولنا وحید الدین کی دعوتِ احیائے دین بھی علمائے دین کی طرف سے شدید تنقید کی زد میں رہی، تنقید کی اس زد کو ان کے حامی ہمیشہ ناقدین کی بے جا ضد قرار دیتے رہے۔
مولنا وحید الدین خان کے بقول ایمان تقلیدی عقیدہ نہیں بلکہ زندہ شعور کا نام ہے۔آپ تصوف کی بجائے معرفت کی اصطلاح استعمال کرتے۔ ان کے بقول خالق کی شعوری دریافت کا نام معرفت ہے۔ گویا معرفت ان کے ہاں شناسائے حقیقت ہونا ہے۔ ان کے مطابق اہلِ سیاست کا کام تنظیم انسانی ہے اور اہلِ علم کا کام تعلیمِ انسانی۔ خود کو انہوں نے ہر دَور میں سیاست سے بہت دُور اور تعلیمِ انسانی کے لئے وقف کر دیا تھا۔ ان کے بقول مسلمان مظلوم نہیں بلکہ اپنی غیر حکیمانہ منصوبہ بندی کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ہند کے فسادات کے ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دینے کے بیانات کو ہند کے مسلم حلقے ہمیشہ غیر ذمہ دارانہ بیانات سے تعبیر کرتے رہے۔ وہ برصغیر کی سب سے بڑی علمی دینی شخصیت تھی، جو حصولِ طاقت کے لئے استعمالِ مذہب کو ناجائز سمجھتے تھے۔
مولنا وحید الدین خان کے فکر و حکمت اور زبان و بیان سے سیرابی پانے والے کچھ کم نہیں، خود مولنا وحید الدین خان فکر و آگہی کے دستیاب ہر چشمے سے سیراب ہوئے۔ انہوں نے اپنی تشنگی بجھانے کے لئے ہر چشمے سے جام بھرے۔ان کا مطالعہ ان کے افکار کا مطلع بنا، اور پھر آپ اس افق پر آفاقی پیغام کے ساتھ نمودار ہوئے۔ انہوں نے دستیاب تمام معقول و مقبول افکار و نظریات سے استفادہ کیا اور سچ یہی ہے کہ ان کی فکرِ کبیر نظریاتِ کثیر کا معجون ہے۔ بہت سے مقامات پر انہوں نے مقبول عالمی شخصیات کی علمی نظریات کو اپنے خیالات، اسلوب اور استدلال کے ساتھ اپنے افکار کا حصہ بنا ڈالا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فکرِ وحیدی پانچ چشموں سے سیراب شدہ گلستان ہے۔ ان کے افکار علی گڑھ کی عصریت، ندوہ کی ادبیت، دیوبند کی فقاہت، مودودیت کی رومانویت اور فراہیت کی قرآنیت کا مجموعہ ہیں۔ بعض مسائل پر آپ علمائے دیوبند کے ہم فکر، چند چیزوں میں مولنا مودودی کے ہمنوا اور کچھ معاملات میں اہلِ حدیث کے ہم نظر تھے۔ مولنا وحید الدین خان اپنے دور کے نواب وحید الزمان تھے۔ ہر مسلک میں مقبول مگر تمام مسالک کے لئے ناقابلِ قبول۔
اپنی تنقید کو شہد کے غلاف میں بند کرکے انہوں نے دیوبند، ندوہ، علی گڑھ سمیت سب کو نشانہ بنایا۔ اپنے خیالات کو عمدگی سے پیش کرنے کا جو سلیقہ ان کے پاس تھا، اس میں مولنا مودودی کے بعد اردو کا کوئی ہی ادیب شاید ان کے مقابل ہو، اگرچہ مولنا مودودی سے نظریاتی اختلاف کے باب میں ان کے ہاں اعتدال کا فقدان ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ فکر کی دنیا میں دلیل و برہان کے ساتھ علمی و ادبی انداز میں مولنا مودوی کو چیلنج کرنے کا اعزاز بھی ان کے پاس ہے۔ انہوں نے امت کی امتیازی شان کا نشان سمجھے جانے والے بہت سے متداول خیالات و افکار کو استدلال کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنایا۔ آپ کے دینی افکار میں عصریت اور جدیدیت کی بہتات تھی۔ تاہم اس کے باوجود اسلوب کی انفرادیت اور افکار کی ندرت نے ان کی شخصیت کو شاہکار بنا دیا تھا۔ بقولِ بعض مولنا مودودی کے مقابلے میں مولنا وحید الدین خان کے افکار زیادہ متنازعہ ہیں تاہم اس کے باوجود سیکولر حضرات کے ہاں وہ مولنا مودودی سے زیادہ معقول اور دیوبندی حلقوں میں مولنا مودودی سے زیادہ مقبول ہیں۔
ان کے مطابق سب سے بڑی نیکی یعنی فضیلت اور تقویٰ مثبت فکر جبکہ سب سے بڑی برائی یعنی شیطنیت اور سطحیت منفی سوچ ہے۔ اس خیال کو وہ اپنی آخری دریافت قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول انسان کا اپنا ضمیر اس دنیا میں خدا کی عدالت ہے۔ قدامت پسندی اور اکابر پرستی کے شدید ناقد تھے۔ اولاد پرستی کو انہوں نے خدا پرستی کے منافی قرار دیا۔ ڈاکٹر اسرار کے برعکس انہوں نے اپنی کوئی جماعت تشکیل نہیں دی اس کے باوجود وہ ہند کی مقامی مسلم اجتماعیت کا حصہ نہ رہ سکے۔ تاہم ان کا علمی اور فکری کام بھی ڈاکٹر اسرار کی طرح ان کی اولاد نے سنبھالا ہے۔ آپ کی دختر نیک اختر ڈاکٹر فریدہ خانم، فرزندان ڈاکٹر ظفر الاسلام خان و ثانی اثنین خان اور ثانی اثنین خان کی صاحبزادیاں سعدیہ خان، صوفیہ خان اور ماریہ خان آپ کی دعوتی تحریک کا ہراول دستہ ہیں۔
مسلسل غور و فکر، تجزیہ و تحلیل اور مشاہدہ و مطالعہ کی بنیاد پر آپ اپنے خیالات و افکار کی روشنی میں حالات و واقعات سے فکر انگیز نتائج نکالتے۔ ان کا قلم انتہائی سبک رفتار اور اسلوب بے حد جاندار ہے۔ آپ سادہ زندگی اونچی سوچ کے حامل اور اسی فلسفے پر عامل تھے۔ اپنی تحریروں میں انہوں نے سنجیدگی اور سادگی کے ساتھ ادبی شگفتگی اور علمی شستگی کا بھرپور خیال رکھا ہے۔ انہوں نے فکر کی عمدگی اور تہذیب کی شائستگی کو ہمیشہ برقرار رکھا۔ وہ ہر شعر، نثر پارے، فن پارے، روزمرہ کے لمحات، زندگی کے حالات اور واقعات سے اپنے مطلب کی بات اور نصیحت کا کوئی خوبصورت پہلو نکال لیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے مصنوعیت کی دنیا میں نصیحت کو بطورِ صنعت فروغ دیا۔
انہیں عربی، فارسی، ہندی، اردو اور انگریزی پر عبور تھا۔ کردار سازی، دین داری اور خود داری سمیت مختلف موضوعات پر ان کی اردو، عربی اور انگریزی میں تحریر کردہ کتب کی تعداد دو سو سے زائد ہے۔ تعمیرِ شخصیت سے شروع ہوکر انہوں نے مذہبی سیاسیات پر طبع آزمائی کی، بعد ازاں فکریات اور دعوت کو موضوعِ سخن بنایا اور پھر تا آخر دمِ حیات روحانیات پر اظہارِ خیال کرتے رہے۔ انہوں نے ”رازِ حیات“ کو پالیا اور پھر حیاتِ جاوداں کی شروعات تک اس آبِ حیات کو انسانیت میں تقسیم کرتے رہے۔ ان کے ہاں دعوت مومن شخصیت کی کلید ہے اور بقول ان کے یہی وہ شعور ہے جو دوسری قوموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق کی تشکیل کرتا ہے۔ ان کی دعوت میں انسانیت سے عداوت ہے نہ آدمیت سے نفرت، اندازِ تحریر میں تحقیر ہے نہ اندازِ تقریر میں طنز، بیان میں استہزاء ہے نہ دھیان میں تمسخر۔ فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کے لئے پیرِ ہندی نے رواداری پر مبنی ”ایک کی پیروی، سب کا احترام“ والا فارمولا دیا۔ ان کی آواز میں ان کے قلب کا سوز و گداز، انداز میں ان کے یقین کی جھلک اور خیالات میں ان کے فکر کی شیرینی محسوس ہوتی ہے۔
عظمت کے لحاظ سے آپ ہند کے کوہِ ہندو کش تھے۔ آپ کا تحریری کام کوہِ ہمالیہ جتنا بلند، تعمیری کاوشیں کوہِ پامیر جتنی عظیم اور فکری لغزشیں کوہ سلیمان جتنی اونچی ہیں۔ رام مندر کا احتجاج ہو یا شتمِ رسول کے خلاف برپا مسلم احتجاجی تحریکیں، وہ ہمیشہ انہیں دعوت کُش سرگرمیوں سے تعبیر کرتے تھے۔ ان کے بقول اظہارِ دین یا اعلاء کلمۃ اللہ سے مراد اصلاً حدود و قوانین کا نفاذ نہیں بلکہ اس سے مراد فکری غلبہ ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو حقوق طلبی کی مہم ترک کرنے کا مشورہ دیا۔ مسلم مفکرین کی جانب سے جدید فکر و تہذیب کی مخالفت سے انہوں نے ہمیشہ اختلاف کیا۔ انہوں نے مغربیت کو حریف تصور کرنے کے برعکس اپنا حلیف خیال کرنے کی سوچ پروان چڑھائی۔ ان کے ناقدین ان کی اس روش کو مغربیت سے مرعوبیت اور ان کی اس دعوت کو مرعوبیت کی مدتِ عدت سے تعبیر کرتے ہیں۔
ان کا جانشین کوئی نہیں تاہم دیوبندی مکتبِ فکر میں مولنا محمد خان شیرانی کسی حد تک ان کے فکری ہم نشیمن اور فراہی مکتبِ فکر میں جاوید احمد غامدی ان کے نظریاتی ہم نشین ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ ان کے اس فکری ہم نشیمن اور نظریاتی ہم نشین میں بھی بعد المشرقین ہے۔ راشد شاز، خضر یاسین اور جاوید غامدی پر ان کی فکر کے اثرات نمایاں ہیں مولنا شیرانی کو میں نے قریب سے دیکھا اور سنا جبکہ مولنا وحید الدین خان کو غور سے پڑھا اور سمجھا ہے۔ میرے نقطہ نظر سے مولنا شیرانی ہندوستان میں ہوتے تو وہاں کے مولنا وحید الدین خان ہوتے اور مولنا وحید الدین خان پاکستان میں ہوتے تو یہاں کے مولنا محمد خان ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی فکر میں شکستگی نہیں بلکہ ضبط و تحمل، رواداری اور سنجیدگی کا درس ملتا ہے۔
۸ رمضان المبارک ۱٤٤۲ھ بمطابق ۲۱ اپریل ۲۰۲۱ء کو ان کا انتقال ہوا۔ بستی نظام الدین سے متصل پنج پیراں قبرستان میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔ بیسویں صدی میں ان کی عظیم بصارت نے انہیں اکیسویں صدی کا صاحبِ بصیرت بناکر پیش کیا۔ ان کا ہر تبصرہ صبر و شکر دونوں کا علمی و ادبی مجموعہ ہوتا۔ اکیسویں صدی کے اکیسویں سال اپریل کی اکیس تاریخ کو بیسویں صدی کے بیس بڑے ہندی مفکرین میں سے ایک غروب ہوگیا۔ ان کی رحلت ایک علمی عہد کی موت ہے۔ اکیس اپریل وحید و اقبال دونوں کا یومِ وفات ہے۔ علامہ اقبال شاعرِ مشرق تھے تو علامہ وحید شعورِ ہند۔ فکری اختلاف کے باوجود عظمت و عزیمت کے لحاظ سے ہمارے لئے علامہ محمد اقبال ”وحید العصر“ تھے اور مولنا وحید الدین خان ”اقبال العصر“۔
Comments are closed.