Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی ۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

ایسی سرکاری اسکیم سے استفادہ جس میں ایک مقررہ مدت کے بعد سود ادا کرنا پڑتا ہے
سوال: حکومت اور مالیاتی اداروں کی بعض اسکیمیں اس اصول پر ہوتی ہیں کہ اگر مقررہ مدت مثلاََ پچاس دنوں میں پیسے ادا کر دئیے تو اس پر کوئی سود نہیں لگے گا، اور اگر اس مدت میں قرض کی ادائیگی نہیں ہوئی تو مقررہ شرح کے مطابق سود ادا کرنا ہوگا، نتیجہ کے اعتبار سے اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
الف: مقررہ مدت کے اندر قرض ادا کر دیا جائے۔
ب: مقررہ مدت کے اندر قرض ادا نہیں کیا جا سکا۔
کیا یہ صورت جائز ہے؟ (امجد علی، مہدی پٹنم)
جواب: اصل تو یہ ہے کہ اگر کسی قرض میں سود دینے کی شرط لگی ہوئی ہے تو اس سے بچا جائے؛ کیوں کہ سود ادا کرنے کا معاہدہ اور اس کا وعدہ بجائے خود گناہ ہے؛ اس لئے اس سے بچنا چاہئے؛ تاہم پہلی شکل جس میں قرض وقت پر ادا کر دیا جائے، بہت سے علماء کے نزدیک جائز ہے؛ کیوں کہ اصل ممانعت سود کے لینے اور دینے کی ہے، اور یہاں یہ صورت نہیں پائی جاتی؛ اس لئے کہ اس نے دونوں ،سود کے لین دین کا ارتکاب نہیں کیا ہے؛ لہٰذا اس بات کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ اگر اس کے پاس اتنی رقم یا اتنے اسباب موجود ہوں، جن کے ذریعہ وہ وقت پر قرض ادا کر کے سود سے بچ سکے، اور اس کا پکا ارادہ بھی ہو تو اس کے لئے ایسے قرض سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے، اور اگر مقررہ مدت کے اندر قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں ہو، یا کسی وجہ سے اس کا ارادہ نہیں ہو تو پھر اس کے لئے اصولی طور پر یہ قرض لینا جائز نہیں ہوگا، سوائے ان استثنائی صورتوں کے جن میں علماء نے سودی قرض لینے کی اجازت دی ہے۔

بوڑھے ماں باپ کا علاج اور ان کے لئے خادم کا انتظام
سوال: اگر ماں باپ بوڑھے ہو جائیں اور اُن کو علاج کی یا خادم کی ضرورت ہو تو کیا اولاد پر اس کا پورا کرنا ضروری ہے؟ (محمد عمران، سنتوش نگر)
جواب: والدین کا وجود انسان کے لئے رحمت الٰہی کا سایہ ہے، وہی ان کے وجود کا سبب ہیں، وہی ان کی جسمانی نشوونما کا فرض انجام دیتے ہیں اور اپنی صلاحیت کے مطابق علم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں، جب وہ کمانے کے لائق نہ رہیں تب بھی ان کی دعائیں بچوں کے کام آتی ہیں اور آخرت میں بھی وہ اولاد کے لئے جنت کا دروازہ ہوں گے، اور ان کے قدم کے نیچے جنت ہوگی؛ اس لئے والدین کی خدمت بڑی سعادت ہے، اگر ماں باپ خود صاحب استطاعت ہوں، اپنا علاج کرا سکتے ہوں اور اپنے لئے خادم کا انتظام کر سکتے ہوں تو اولاد کے لے اس سعادت کو حاصل کرنا مستحب اور اخلاقاََ واجب ہے، اور اگر والدین میں اس کی استطاعت نہ ہو تو شرعاََ وقانوناََ واجب ہے، اگر بچے اس میں کوتاہی کریں تو عند اللہ گنہ گار ہوں گے، مشہور شافعی فقیہ شیخ الاسلام زکریا انصاریؒ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ویجب الأدم والکسوۃ ومؤنۃ الخادم إن احتجا إلیہ وأجرۃ الطبیب وثمن الأدویۃ فالمعتبر الکفایۃ وھی غیر مقدرۃ (الغرر البہیۃ: ۸؍۵۷۳)

حکومت کی سبسیڈی سے استفادہ
سوال: حکومت بعض قرضوں میں سبسیڈی دیتی ہے، اسی طرح بعض خصوصی مدات میں اپنی طرف سے پیسے دیتی ہے، جیسے بیوہ عورتوں کے لئے وظیفہ، بیت الخلاء کی تعمیر، کیا ان کے لئے حکومت کی ایسی مدد کا قبول کرنا جائز ہے؟جب کہ حکومت کے خزانہ کو جو آمدنی ہوتی ہے، اس میں شراب کی تجارت کا ٹیکس بھی ہوتا ہے اور کئی ایسے ذرائع کی آمدنی ہوتی ہے جو شرعاََ جائز نہیں ہیں تو کیا پھر بھی حکومت کی ایسی اعانتوں سے فائدہ اٹھانا جائز ہے؟
(عبدالشکور، کوکٹ پلی)
جواب: عوام کی بنیادی ضرورتوں کا پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اور عوام اسی لئے حکومت کو ٹیکس ادا کرتی ہے، نیز حکومت کی آمدنی کا بڑا حصہ جائز ہوتا ہے اور اگر حکومت جائز وناجائز کی پرواہ نہ کرے تو وہ اس کی ذمہ داری ہے، عوام کا اس سے کوئی تعلق نہیں، اسی اصول پر فقہاء نے حکومت سے انعام لینے کی اجازت دی ہے، ہاں اگر متعین طور پر کسی پیسہ کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ حرام ہے تو اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے: أخذ الجائزۃ من السلطان قال بعضھم: ……… ان الشیخ أبا القاسم کان یأخذ جائزۃ السلطان (فتاویٰ ہندیہ: ۵؍ ۳۴۲)

تعمیر ِمسجد کے صرف وعدہ سے وہ جگہ مسجد نہیں ہو جاتی
سوال: بعض دفعہ مسلم علاقوں میں رئیل اسٹیٹ کا بزنس کرنے والے لوگ پلاننگ کرتے وقت کسی پلاٹ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس پر مسجد تعمیر ہوگی؛ لیکن اس پر مسجد ابھی تعمیر نہیں ہوئی اور بعد میں وہ پلاٹ کسی شخص کو بیچ دیا گیا تو کیا اس کو مسجد کی جگہ سمجھا جائے گا، اور کیا پلاٹ خریدنے والے مسلمان شخص کے لئے اس کو خریدنا درست ہوگا؟(محمد فضل اللہ، ممبئی)
جواب: پلاننگ کرنے والے صاحب نے جس جگہ کو مسجد بنانے کا ارادہ کیا تھا، ان کو اس ارادہ پر قائم رہنا چاہئے، اس سے مُکر جانا وعدہ خلافی میں داخل ہے؛ لیکن صرف مسجد کا ارادہ کرنے سے کوئی جگہ مسجد نہیں بن جاتی، مسجد ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی جگہ مکمل طور پر الگ کی جائے، اس میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی جائے، اور اس میں نماز پڑھ لی جائے، جب تک یہ باتیں نہیں پائی جاتیں، وہ مسجد شرعی نہیں ہوگی: وأجمعوا علی أن من جعل دارہ أو أرضہ مسجداََ، یجوز وتزول الرقبۃ عن ملکہ لکن عزل الطریق وإفرادہ والإذن للناس بالصلاۃ فیہ، والصلاۃ شرط عند أبی حنیفۃ ومحمد رحمھما اللہ حتی کان لہ أن یرجع قبل ذلک (بدائع الصنائع: ۵؍ ۳۲۶)

پارک کی زمین میں نماز اور مسجد کی تعمیر
سوال: بعض کالونیوں میں حکومت کی طرف سے یا کالونی بنانے والوں کی طرف سے زمین کا کوئی ٹکڑا پارک کے طور پر چھوڑ دیا جاتا ہے، قریب میں مسجد نہ ہونے کی وجہ سے لوگ یہاں پڑھنے لگتے ہیں، اور دوسرے لوگ بھی اس پر خاموشی اختیار کرتے ہیں، ایسی صورت میں کیا وہ پلاٹ مسجد شرعی کے حکم میں ہوگا؟ (مشتاق احمد،حیدرگوڑہ)
جواب: وہ پلاٹ سرکاری یا عوامی ملکیت ہے؛ اس لئے اول تو ایسی جگہ پر نماز پڑھنے سے گریز کرنا چاہئے، ہاں اگر کوئی اور جگہ میسر نہیں ہو؛ البتہ اگر حکومت نماز ادا کرنے کی اجازت دے، یا دوسری جگہ فراہم نہیں کرے، یا اوقاف کی مغصوبہ زمین نماز کے لئے مسلمانوں کو نہیں دے تو وقتی طور پر وہاں نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے وہ جگہ مستقل طور پر مسجد نہیں ہو سکتی؛ کیوں کہ زمین کے مالکان نے اس کو مسجد کے لئے وقف نہیں کیا ہے: مسجد بنی علیٰ سور المدینۃ قالوا: لا یصلی فیہ لأن السور حق الحامۃ (فتاویٰ ہندیہ: ؟؟؟؟؟؟؟)

گورنمنٹ کی امدادی اسکیموں کے لئے ایجنٹ کو پیسے ادا کرنا
سوال: گورنمنٹ کی امدادی اسکیموں سے مستفید ہونا آسان نہیں ہوتا، اکثر ایجنٹوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور ان کو پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں تو کیا اس کے لئے پیسے دینا اور ایجنٹ کا پیسے وصول کرنا جائز ہے، جب کہ یہ رشوت کی صورت نظر آتی ہے؟ (عبدالباری، ملک پیٹ)
جواب: رشوت کا لینا اور دینا حرام ہے؛ لیکن اپنے جائز حقوق کے لئے رشوت دینے کے سوا چارہ نہ رہے تو اس کی گنجائش ہے: دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسہ ومالہ والإستخراج حق لہ لیس برشوۃ، یعنی فی حق الدافع ( ردالمحتار علی الدر المختار: ۱۰؍۶۰۷) البتہ بلا استحقاق کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے رشوت دینا جائز نہیں ہے، اس اصول کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب اس طرح ہے:
الف: جس شعبہ سے آپ کو اپنا حق حاصل کرنا ہو، اگر اسی شعبہ کا ملازم جس کے ذمہ اس کام کو انجام دینا ہے، پیسے لے کر کام کرتا ہو تو یہ رشوت ہے، اور اس کا لینا جائز نہیں۔
ب: اگر دینے والا اپنے جائز حق کو حاصل کرنے کے لئے اس پر مجبور ہو تو اس کو گناہ نہیں؛ کیوں کہ وہ مجبور ہے۔
ج: اگر ایجنٹ کا اس دفتر سے تعلق نہ ہو ، باہر کا ہو، کام کی نوعیت ایسی ہو کہ اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہو اور اجرت متعین ہو جائے تو یہ جائز ہے؛ کیوں کہ یہ اس دوڑ دھوپ اور محنت وکوشش کی اجرت ہے ، اور ایجنٹ کی حیثیت اس کے وکیل کی ہے۔

Comments are closed.