مسلم نسل کشی کی تیاری۔۔۔۔؟!

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
ہری دوار دھرم سنسد کا اعلان مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلامیہ ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دھرم سنسد میں ہندوؤں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں تلواریں رکھیں ۔ پچھلے دنوںساورکر کی جینتی کے موقع پر طلبہ میں بھگود گیتا کے ساتھ ساتھ چاقو بھی تقسیم کئے تھے، کہا گیا تھا کہ ساورکر کا خواب تھا ’راج نیتی کا ہندو کرن اور ہندو ؤں کا سینیکی کرن ‘ مودی جی نے اس خواب کا پہلا حصہ یعنی راج نیتی کا ہندو کرن مکمل کردیا ہے ، چاقوؤں کی تقسیم اور ہندو سپاہیوں کی تشکیل کے ذریعہ اس کا دوسرا حصہ ہم پورا کررہے ہیں ۔ اسی طرح بجرنگ دل کے ذریعہ اپنے کیڈر کو ہتھیار چلانے کی تربیت کی خبریں تواتر سے آتی رہتی ہیں یعنی دھرم سنسد نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار رکھنے کی جو اپیل کی تھی اس پر عمل تو پہلے ہی سے ہورہا ہے ۔ یوں تو یہ سب مسلمانوں کے خلاف کسی واردات کا موقع آجائے اس کی تیاری ہے لیکن اصل میں یہ مسلم نسل کشی کی تیاری ہے دراصل یہ لوگ جانتے ہیں کہ جن لوگوں کے خلاف یہ تیاری میں جٹے ہوئے ہیں ان کی کوئی تیارینہیں ہے ۔ نہ مسلمانوں کے پاس کسی قسم کے کوئی ہتھیار ہیں اور نہ ہی انہیں ہتھیار چلانا آتا ہے ۔ نہ ہی مسلمان اپنے اسکولوں میں یا اپنے نوجوانوں کو لاٹھی ڈنڈے چلانے یا اپنا دفاع کرنے یا اپنے دفاع میں کسی پر حملہ کر نے کی کوئی منظم تربیت دیتے ہیں بلکہ مسلمانوں کی اکثریت تو لاٹھی ڈنڈے کے استعمال کو شرافت کے خلاف سمجھتی ہے ۔ اور اگر مسلمان اس قسم کی کسی تیاری کا عزم کرتے بھی ہیں تو مسلمانوں کے ان مخالفین کو خانہ جنگی کا خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے ۔ پچھلے دنوں جب جمیعت نے محض اسکاؤٹ اینڈ گائیڈ کے تحت مسلم نوجوانوں کی تربیت کا اعلان کیا تو اس پر خوب واویلا مچایا گیا تھا اور اس سے ملک میں خانہ جنگی کی سی صورت حال پیدا ہوجانے کا خڈشہ ظاہر کیا گیا تھا ۔ اور ویسے بھی حقیقت یہی ہے کہ اگر دھرم سنسد کی اپیلیں اور دھمکیاں عملی صورت اختیار کرتی ہیں تو جوابی حملے یا جارحیت تو چھوڑئے ہم اپنے دفاع کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں اپنی حفاظت کے لئے ہم پولس پر ہی منحصر ہیںاور شاید ہندو تنظیموں یا دھرم سنسد والوں کو بھی اس بات کااحساس ہے اسی لئے انہوں نے پولس اور فوج کو بھی نسل کشی میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے کہ وہ یہاں بھی میانمار کی طرح صفائی مہم چلائے ۔ سب جانتے ہیں کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی میں مذکورہ دھرم سنسد کے منتظمین قسم کے لوگوں کے ذریعہ ورغلائے ہوئے عام شہریوں کے ساتھ ساتھ پولس اور فوج بھی شامل تھی ۔ قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پولس اور فوج سے اس طرح کی اپیل کرنا بھی قابل تعزیر ہے کہ اس پر پولس یا فوج کو بغاوت کے لئے اکسانے کا مقدمہ بنتا ہے لیکن اس معاملے میں پولس نے جو کارروائی کی ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ اس معاملے میں پولس نے جیتیندر نارائن تیاگی کو بلی کا بکرا بناتے ہوئے نامزد کیا ہے باقی لوگوں کو ’ نامعلوم ‘ کے ضمرے میں رکھا ہے جبکہ دھرم سنسد کے باقی لوگ جیتیندر نارائن تیاگی سے زیادہ مشہور و معروف اور جانے پہچانے ہیںاور مقدمہ بھی صرف مختلف قومی گروہوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کی دفعات کے تحت ہی کیا گیا ہے جبکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں چونکہ’ حکومت کو ۱۸۵۷ کی بغاوت سے بھی خوفناک جنگ کی دھمکی دی گئی ہے‘ اس لئے اس میں دیش دروہ کا مقدمہ بھی قائم ہو سکتا ہے لیکن پولس نے ایسا نہیں کیا بلکہ برائے نام مقدمہ قائم کر کے ملزمین جانے پہچانے ہونے کے باوجود اور ان کی تقاریر کے ویڈیوز وائرل ہونے کے باوجود ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں کی بلکہ خصوصی تفتیشی ٹیم بنا کربس یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ کارروائی میں لگ چکی ہے ۔ اس کے الٹ یہ بھی خبر ہے کہ ایک ویڈیو میں اتراکھنڈ پولس کا انسپکٹر ان تمام ملزمین کے ساتھ کھڑا ہنستا ہوا نظر آرہا ہے ۔ پولس کا اس طرح غیر ذمہ دارانہ رویہ ہمارے لئے انتہائی تشویش کی بات ہے ۔ اور اس کا اشارہ بھی ہے کہ اگر اس طرح کی اشتعال انگیزیاں عملی صورت اختیار کرتی ہیں توپولس ہماری حفاظت نہیں کرے گی بلکہ ہم پر حملہ کرنے والوں کی مدد گار رہے گی ۔ اور اس طرح کی اشتعال انگیزیوں کا ایک مقصد ہمیںمشتعل کر نا بھی ہوتا ہے کہ ہم ذرا مشتعل ہوں ،قانون توڑیں اور ان کا کام آسان ہو جائے ، وہ ملک گیر پیمانے پرفسادات شروع کردیں اور اس کا الزام بھی ہمارے ہی سر منڈھ دیںاوران کے ذریعہ ورغلائے ہوئے لوگوں کی بھیڑ کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کر نے والے اور سلامتی اداروں کو بھی ہمارے خلاف میدان میں اتاردیں۔ ہمارے تئیں پولس کی جانبداری اور شکوک و شبہات کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی فسادات کی تاریخ ہے۔ اور پولس کا یہی رویہ ہمارے خلاف ہونے والی اشتعال انگیزیوں کے تئیں بھی ہوتا ہے ۔ پچھلے مضمون میں ہم ڈاکٹر کفیل خان کے متعلق بات کرچکے ہیں کہ کس طرح ان پر قومی سلامتی قانون لگادیا گیا تھا جسے بعد میں عدالت نے غلط قرار دیا لیکن مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزیاں کرنے والوں پر اس طرح کے قوانین نہیں لگائے جاتے اور ایسا نہیں کہ یہ صرف بی جے پی کے دور حکومت میں ہی ہو رہا ہے بلکہ ہر پارٹی کی حکومت میں یہی ہوا ۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزیاں کرنے والوں پر کبھی قانون کا شکنجہ کسا گیا ہو ایسی کوئی مثال شاید موجود نہیں ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی اشتعال انگیزیاں ایک عرصے سے جاری ہیں اور اسی کی وجہ سے سارا ملک مذہبی عصبیت کا شکار ہوکر مسلم مخالف ہو چکا ہے جو معمولی معمولی واقعات اور حادثات پر بھی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتا ہے اسی وجہ سے ملک میں کئی بدترین مسلم مخالف فسادات بھی ہو چکے ہیں پچھلی حکومتوں نے بھی ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی بلکہ ہمیشہ اپنے سیاسی فوائد کے لئے ان کی خاموش حوصلہ افزائی کرتی رہی ۔ اور اب مودی جی کے راج میں تو مسلم مخالفت کرنے والے نہ صرف بے لگام ہو گئے ہیں بلکہ انہیں یہ یقین بھی ہو گیا ہے کہ قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا سو ان کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ پولس کو اپنا بغل بچہ سمجھنے لگے ہیں اور شاید خود مودی جی اور ان کے وزراء کی مسلم مخالف بیان بازیوں اور بار بار اندرونی خطرات کا حوالہ دینے کی وجہ سے پولس بھی ان کا اشارا سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو ان شدت پسند عنا صر کا بغل بچہ سمجھ کر ہی کارروائی کرتی ہے ۔ ایسے میں اگر یہاں بھی میانمار کی طرح مسلمانوں کی نسل کشی شروع ہو گئی تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی۔لیکن کیا مسلمانوں کی نسل کشی اتنی آسان ہو گی؟؟؟
Comments are closed.