یوپی الیکشن اور مسلمان

مولانامحمد اسعد قاسمی سلطانپوری
ملک کی 5 ریاستوں میں الیکشن کی تاریخوں کا اعلان کیا ہوا، ہر طرف ہلچل مچ گئی ، خاص طور سے یوپی میں جسے سیاست کا گڑھ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ الیکشن در اصل فرقہ پرستوں اور سیکولر طاقتوں کے بیچ جنگ کی حیثیت رکھتا ہے ۔پانچ میں سے تین ( یوپی گووا اور اتراکھنڈ) پر پہلے سے ہی بی جے پی قابض ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ اس بار ووٹرس کے سامنے مہنگائی ، بے روزگاری ، دیہاڑی مزدورں کی بے بسی ، آکسیجن کی کمی اور گنگا میں تیرتی لاشیں مدعا بن پاتی ہیں یا لوگوں میں ابھی بھی فرقہ پرستی کا خمار باقی ہے۔
اس وقت مسلمانوں کی سوجھ بوجھ کا سخت امتحان ہے،کیونکہ مسلمانوں کے لئے یہ فیصلہ کرنا ذرا مشکل ہے کہ وہ کدھر جائیں ؟ کیا مسلمان برادران وطن سے خود کو الگ تھلگ کر کے ، محض اپنے کچھ فی صد ووٹوں کے دم پر مسلم ریاست کا خواب دیکھیں گے یا پھر کسی ایک سیکولر طاقت (نام نہاد ہی سہی ) کو سپورٹ کرکے کم از کم ان مشکل حالات میں اسلام دشمنوں کی حوصلہ شکنی کے لئے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں گے ؟
اس تعلق سے میرا نظریہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے قومی دشمن کے خلاف متحد ہو جائیں اور اسے ہی ووٹ دیں جو کھلے ہوئے اسلام دشمنوں کو شکست دے سکے ۔
یاد رکھیں! اگر آپ کی تقسیم کے نتیجہ میں دوبارہ کھلے ہوئے اسلام دشمنوں کا اقتدار آ گیا تو ان سارے کرتوتوں کے ذمہ دار آپ بھی ہونگے۔
اگر آپ خود پر اپنے کرتوتوں سے ظالم کو مسلط کریں گے تو ظلم و بربریت کا گلہ شکوہ کرنے کا حق آپ کھو دیں گے،پھر تو غلامی و مظلومیت ہی آپ کا مقدر ہوگی۔ اسلامی شناخت کے ساتھ زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔
جب الیکشن کے وقت دھمکیوں کا سلسلہ چل رہا ہے،تو پھر آئندہ کیا توقع کر سکتے ہیں؟ پھر بھی ، آپ نے اپنی تقسیم کے ذریعہ انہیں طاقتور بنانے کا کام کیا تو آپ جانیں آپ کا کام جانے ۔پچھتانے، افسوس کرنے اور رونے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
اگر آپ کو خود اپنے وجود کی اور اپنی نسلوں کی ذرہ برابر بھی پرواہ ہے تو بہت ہی سوچ سمجھ کر ووٹ کرنا ہوگا۔
ہوش سے کام لیں ابھی بھی وقت ہے ۔
بالخصوص یوپی کے مسلمانوں کو بنگال کے مسلمانوں سے سبق لینے کی ضرورت ہے ،جو نہ تو جوش میں آئے اور نہ ہی ہوش کھوئے بلکہ پوری دانشمندی کے ساتھ اسی پارٹی کے ساتھ رہے جو جیتنے کے لائق تھی ۔
یوپی کے مسلمانوں کو بھی ایسے ہی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔لیکن پہلے اس پارٹی کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے پابند کرنا ہوگا۔ اس کے لیے سوچنے اور لائحہ عمل بنانے کا ابھی موقع ہے، بعد میں یہ وقت بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔

Comments are closed.