تجارت بھی عبادت بھی

اِبنُ السیف
میں حیران ہوں کہ یہ ذہنیت کس فلسفی نے ایجاد کی! کہ عبادت تو صرف مسجد میں ہی ہوتی ہے اور ملا ہی کر سکتا ہے۔ نہ کوئی تاجر اللہ کا محبوب بن سکتا ہے، نہ کوئی ٹھیلہ لگا کر حقوق اللہادا کر سکتا ہے۔ گویا کہ معاشرے میں موجود کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے انسان کے لیے، چاہیے وہ وکیل ہو یا کوئی طبیب، محنت کش مزدور ہو دفتر میں بیٹھا آفسر، صحافت سے وابستہ ہو یا تجارت سے منسلک، نیک اور اللہ کا مقرب بننے کا خواب بالکل نہیں دیکھ سکتا۔ یعنی مسجد سے باہر اور ملا کے علاوہ عبادت کا تصور ہی گناہ ہے۔ جب کسی تاجر کو دیکھا تو یہ گمان کیا کہ اس سے بڑا تو کوئی دنیا دار اور دین سے دور ہے ہی نہیں۔ وہ بھی بیچارے احساس کمتری کا شکار ہو کر یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کا ولی بننا تو صرف مولویوں اور فقیر درویشوں کا حق ہے، ہم جیسے دنیادار اور سرمایہ دار کیسے نیک بن سکتے ہیں! لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ شریعت میں تاجر اور بزنس مین کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت ہے۔
آمدنی کے ذرائع ملازمت، تجارت، زراعت وغیرہ میں سے تجارت اسلامی نقطہ نظر سے تمام پیشوں سے اعلیٰ وبہتر ہے۔ معیشت کے اتار چڑھاؤ میں بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ سب سے عمدہ اور پاکیزہ پیشہ ہونے کا اعزاز بھی تجارت کو حاصل ہے۔ شریعت مطہرہ میں بزنس مین اور بزنس کے فضائل بیان کر کے اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ امت کے افراد، تجارت اور کاروبار کو نوکری اور ملازمت پر ترجیح دے کر ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی اور معیشت کی مضبوطی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ قرآن مجید میں ان تاجروں کی خصوصیت کے ساتھ تعریف کی گئی ہے جن کی تجارت اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہونے، نماز قائم کرنے اور مال کی زکوٰۃ ادا کرنے میں آڑے نہیں آتی۔ دین اسلام نے رزقِ حلال کے دس حصوں میں سے نو کو تجارت سے جوڑ دیا، سچ بولنے والے تاجروں کے لیے عرش کے سائے اور جنت میں داخلے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ قرآن کریم میں تجارت و کاروبار کے زریعے سے حاصل ہونے والے نفع کو خاص فضل قرار دیا ہے۔ سچے اور امانت دار تاجروں کو قیامت کے دن انبیاء کرام، صدیقین اور شہداء کے ساتھ اٹھائے جانے کی بشارتیں سنائی گئی ہیں۔ حلال روزی کمانے والے کو ”رب العالمین کے دوست” اور ”حبیب اللہ” کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص حلال کمائی سے رزق حاصل کرے (اس نیت سے) تاکہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچے، بیوی بچوں کے لئے مشقت اٹھائے، اور پڑوسیوں کے لیے بھلائی چاہے، تو وہ قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی مانند چمک رہا ہوگا۔(بیہقی)
اکثر انبیاء اور صحابہ کرام کا پیشہ بھی تجارت تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر معاملے میں کامل اتباع کرنے والے تھے ان کو بھی تجارت کی فضیلت و اہمیت کا پختہ یقین تھا۔ جس کا اندازہ حضرت عمر کے اس قول سے ہو سکتا ہے۔فرمایا ”جہاد فی سبیل اللہ کے بعد اگر کسی حالت میں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے کہ میں اللہ کا فضل یعنی روزی بذریعہ تجارت تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھے موت آجائے”
یہ ساری فضیلتیں اس تجارت کے لئے ہیں جو عبادت اور مخلوقِ خدا کی خدمت کی نیت سے کی ہو۔ جس میں دھوکہ دہی اور فریب نہ ہو غلط بیانی اور جھوٹ سے اجتناب ہو۔ جس میں رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی بھی ہو اور شریعت کے اصولوں کی تعمیل بھی۔ جب تجارت میں میں نفع ہونے لگتا ہے، تو عموماً احکام خداوندی ہندی میں سستی ہونے لگتی ہے، اور ایسی حرص و ہوس پیدا ہو جاتی ہے کہ نہ نمازوں کا خیال رہتا ہے، نہ غریب کے ساتھ ہمدردی۔ نہ حلال کی تمیز باقی رہتی ہے نہ حرام کی۔ اسی لیے شریعت نے مال کمانے سے منع تو نہیں کیا۔ البتہ مال کی ایسی محبت سے روکا ہے جس میں حق اللہ اور حق العبد کا خیال نہ رکھا جائے۔ ایسی تجارت دنیا میں بھی ذلت ورسوائی کا سبب بن سکتی ہے اور آخرت کے لیے بھی باعث عتاب۔ شریعت مطہرہ نے تجارت کے تمام اصول و ضوابط مکمل طور پر تفصیل سے بیان کر دئیے۔ بس تھوڑی سی توجہ اور فکر کی ضرورت ہے۔
شرعی اصولوں کے مطابق کیا جانے والا بزنس مطلوب بھی ہے اور محمود بھی۔ اول تو وہ لوگ جو تجارت کو نری دنیا داری سمجھ کر اس سے کنارہ کشی کرتے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ سنت کی نیت سے چھوٹی موٹی تجارت شروع کر کے تجارتی فضائل و منافع حاصل کریں۔ دوسرے وہ تاجر برادری جنہوں نے تجارت کو مجبوری کے درجہ میں معاش کا ذریعہ بنا رکھا ہے، ان سے التماس ہے کہ تجارت کے شرعی طریقہ کار کو سیکھ کر دنیا و آخرت میں نفع ہی نفع کمائیں۔

 

Comments are closed.