Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

سرکاری زمین پر قبضہ
سوال: آج کل سب سے نفع بخش تجارت زمینوں کی تجارت سمجھی جاتی ہے، افسوس کہ اس تجارت میں بے ایمانی بھی شاید سب سے زیادہ ہوتی ہے، لینڈ گرابرس لوگوں کی زمین پر تو ناجائز قبضہ کرتے ہی ہیں، سرکاری تالابوں کو بھی بھر کر اس پر پلاٹنگ کر دیتے ہیں، اس کا نتیجہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کم ہوتی جاتی ہے اور بارش کے موسم میں سیلاب ایک مصیبت بن کر آبادیوں پر نازل ہوتا ہے، بیچنے والے کہتے ہیں کہ یہ سرکاری زمین ہے، کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے، کیا سرکاری زمین کا بیچنا اور دوسرے لوگوں کا اس کو خریدنا جائز ہوگا؟ (شیخ شرف الدین، کاچی گوڑہ)
جواب: سرکاری اراضی چاہے وہ تالاب کی شکل میں ہو یا پارک یا عوامی مفاد کی کسی اور شکل میں، یہ حکومت کی اور حکومت کے واسطے سے عوام کی ملکیت ہے، اس کی پلاٹنگ کرنا زمین کو غصب کرنا ہے، ایسا کرنے والے کو غصب کرنے کا گناہ ہوگا اور اس پر واجب ہے کہ زمین حکومت کو واپس کر دے ؛ تاکہ مفاد عامہ کے لئے اس کا استعمال ہو، اگر ایک شخص کی زمین غصب کرتا تو ایک شخص پر ظلم کا گناہ ہوتا اور جب ایسی چیز غصب کی جو پوری عوام کی ہے تو اس نے تمام لوگوں پر ظلم کیا، اسی لحاظ سے اس کو گناہ بھی ہوگا ، چاہے اس نے پلاٹنگ کی ہو اور رہائشی کالونی کے لئے مطلوب ضرورتیں جیسے سڑک، ڈرینج کی ضرورتیں پوری کی ہوں، مگر اس کی وجہ سے وہ اس کا مالک نہیں بنے گا، اور جب مالک نہیں ہے تو اس کے لئے اس کو بیچنا بھی جائز نہیں ہوگا: منھا أن یکون مملوکا لأن البیع تملیک ، فلا ینعقد فیما لیس بمملوک(بدائع الصنائع: ۴؍ ۳۳۹) اور جس شخص کو معلوم ہو کہ اس زمین پر ناجائز طریقہ سے قبضہ کیا گیا ہے، تو اس کے لئے اس کو خریدکرنا بھی جائز نہیں ہوگا: إن کان المغصوب أرضا وھو قائم بید الغاصب، فلا یجوز للآخر أن یشتریہ منہ (ردالمحتار: ۹؍۲۶۶) اور اگر کسی شخص نے ایسی غصب کی ہوئی چیز خرید ہی کر لی تو حکومت کو یا اگر وہ کسی شخص کی ملکیت ہو تو اس شخص کو حق ہوگا کہ وہ اس کو واپس لے لے، اور لینے والے شخص کو یہ حق ہوگا کہ وہ اس ظالم سے رجوع کرے اور پیسے وصول کر لے، جس نے یہ زمین اس کو بیچی تھی: لو باع السارق المسروق من انسان أو ملک منہ بوجہ من الوجوہ، فان کان قائما فلصاحبہ أن یأخذہ ؛ لأنہ عین ملکہ، وللمأخوذ منہ أن یرجع علی السارق (بدائع الصنائع: ۷؍۸۵)

وقف کی زمین کو فروخت کرنا
سوال: بد قسمتی کی بات ہے کہ مسلمان سرکار کی زمین تو غصب کرتا ہی ہے، بہت سی دفعہ اوقاف کی زمین پر بھی قبضہ کر لیتا ہے، اس کے لئے مختلف تدبیریں اور وسائل کا استعمال کرتے ہیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان کی وقف کی ہوئی چیز کو اگر مسلمان ہی استعمال کرے تو اس کی گنجائش ہونی چاہئے، یہ کس حد تک صحیح ہے؟ (ابرار احمد، ممبئی)
جواب: جب کوئی زمین وقف کر دی جاتی ہے تو وہ موجودہ مالک کی ملکیت سے نکل کر براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، اب و قف کرنے والے کا یا کسی اور شخص کا اس پر قابض ہو جانا قطعاََ جائز نہیں ہے، اور وہ اسے کسی کو فروخت نہیں کر سکتا، یہ کہنا کہ وہ مسلمان کی چیز تھی؛ اس لئے مسلمان اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں، خیانت ، بددیانتی اور اللہ سے بے خوفی ہے، اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ وقف کی ہوئی چیز کسی کو بیچی نہیں جا سکتی: إذا صح الوقف لم یجز بیعہ ولا تملیکہ، قال ابن الھمام: لم یجز بیعہ ولا تملیکہ وھو باجماع الفقھاء ( فتح القدیر: ۶؍۲۲۰) یہاں تک کہ اگر وقف کی زمین ویران ہو جائے تب بھی وہ وقف ہی رہے گی، وقف کرنے والے کی یا اس کے وارث کی ملکیت میں واپس نہیں آئے گی: ان الوقف لا یملک ولا یُباع یقتضي أن الوقفیۃ لا تبطل بالخراب ولا تعود الیٰ ملک الواقف ووارثہ (بحر الرائق: ۵؍ ۲۲۳)

عیسائی لڑکی سے نکاح
سوال: میں یونیورسیٹی کا طالب علم ہوں، مجھے اپنی کرسچن ساتھی لڑکی سے محبت ہو گئی ہے، وہ اور اس کے گھر والے مجھ سے نکاح کے لئے تیار ہیں؛ مگر میرے والدین اس کے خلاف ہیں؛ حالاں کہ ہم نے سنا کہ خود قرآن مجید میں یہودی اور عیسائی عورت سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے، میرے ماں باپ کا اس رشتہ سے انکار کرنا اور اس پر اصرار کرنا کہاں تک درست ہے؟ (محمد حسان شریف، دہلی)
جواب: آپ یہ فیصلہ جذبات کی رو میں بہہ کر کر رہے ہیں اور والدین کا مشورہ وسیع تجربات اور مستقبل کے خطرات کو سامنے رکھ کر ہے؛ اس لئے آپ کو اپنے والدین کی رائے پر عمل کرنا چاہئے؛ اسی میں آپ کی بھلائی ہے، قرآن مجید میں یہودی اور عیسائی عورتوں سے جو نکاح کی اجازت دی گئی ہے، اس میں تین باتیں اہم ہیں، اول: یہ کہ وہ سچ مچ یہودی اور عیسائی ہوں اور خدا پَر، نبوت ورسالت پر اور آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں، آج کل جو عیسائی ہیں وہ صرف نام کے عیسائی ہیں، عموماََ وہ ملحد اور خدا کے منکر ہوتے ہیں، دوسرے: وہ پاکدامن ہوں، قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر آیا ہے، (مائدہ:۵)آج کل عیسائی معاشرہ میں عفت وعصمت کا تصور ختم سا ہو چکا ہے، تیسری شرط یہ ہے کہ وہ مسلم ملک ہو، غیر مسلم ملک کی عیسائی اور یہودی عورت سے نکاح کرنا درست نہیں ہے: یحرم تزوج الکتابیۃ إذا کانت فی دارالحرب غیر خاضعۃ لأحکام المسلمین لأن ذلک فتح لباب الفتنۃ (الفقہ علی مذاہب الاربعہ: ۴؍۴۵)؛ اس لئے آپ اپنے ارادہ سے باز آجائیں اور والدین کو اعتماد میں لیتے ہوئے اپنی پسند کے مطابق کسی دین دار مسلمان لڑکی سے نکاح کرلیں، اس میں آپ کے لئے دنیا وآخرت دونوں کی بھلائی ہے۔

کم شرح سود پر ترقیاتی قرضے
سوال: حکومت ترقیاتی مقاصد اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی غرض سے بعض ایسے قرض دیتی ہے، جس پر معمول سے کم یا بہت کم انٹرسٹ لیتی ہے، کیا ایسا قرض لیا جا سکتا ہے اور اس کو سروس چارج قرار دیا جا سکتا ہے؟ (نادر علی، ملے پلی جواب: بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ حکومت کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ قرض پر انٹرسٹ کے نام سے کوئی رقم نہیں لے، اور لوگوں پر سروس چارج کی ایک مقررہ رقم لازم قرار دے؛ تاہم ہندوستان جیسا ملک جہاں نظام مقرر کرنا ہمارے آپ کے اختیار میں نہیں ہے، اگر واقعی حکومت کی طرف سے زائد وصول کی جانے والی رقم اتنی مقدار میں ہے جو عام طور پر ایسے کام کے لئے اجرت کے طور پر وصول کی جاتی ہے تو اس کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ قرآن مجید نے قرض کی لکھائی پڑھائی کی ذمہ داری مقروض پر رکھی ہے (بقرہ: ۲۸۲) اور فقہاء نے قاضی کے لئے فائل کی تحریر پر اور مفتی کے لئے فتویٰ لکھنے پر مروجہ مقدار میں اجرت لینے کی اجازت دی ہے: یستحق القاضي الأجر علی کتب الوثائق…….. کالمفتی فانہ یستحق أجر المثل علی کتابۃ الفتوی (در مختار مع الرد: ۹؍ ۱۰۸) اس لئے اس کو سروس چارج پر محمول کر کے ایسے قرض سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے۔

نو اسموکنگ زون میں سگریٹ پینا
سوال: آلودگی کے پھیلاؤ کی وجہ سے لوگوں کی صحت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس پس منظر میں ریلوے اسٹیشن ، مارکیٹ، شاپنگ مال اور ائیرپورٹ وغیرہ میں گورنمنٹ کی طرف سے ہدایت دے دی گئی ہے کہ یہاں سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہے، اور چوں کہ سگریٹ پینے والوں کی بھی بڑی تعداد ہے؛ اس لئے اس کے لئے اسموکنگ زون بنا دیا گیا ہے کہ جن حضرات کو سگریٹ پینا ہو، وہ اس جگہ آکر پی لیں، کیا اس قانون کی پابندی شرعی نقطۂ نظر سے بھی ضروری ہے؟ (کفایت اللہ، سنتوش نگر)
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی ایسے عمل سے منع فرمایا ہے، جس سے دوسروں کو نقصان ہو: لا ضرر ولا ضرار (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۲۳۴۰) فقہاء نے بھی اس اصول کو سامنے رکھ کر فتاویٰ دیے ہیں، جیسے حیض کے کپڑے اور خون کو دفن کرنے کا حکم دیا گیا ہے؛ کیوں کہ اگر ان کو دفن نہیں کیا گیا تو تعفن پیدا ہونے کا امکان ہے: تدفن أربعۃ: الظفر والشعر وخرقۃ الحیض والدم (فتاویٰ تاتارخانیہ: ۱۸؍۲۱۰) نیز فقہاء نے ایک اصول مقرر کیا ہے کہ جو چیز کسی نقصان کا ذریعہ بن جائے، وہ نقصان کو نوعیت کے اعتبار سے حرام یا مکروہ ہوگی: فھٰھنا أربعۃ أقسام: الأول وسیلۃ موضوعۃ للافضاء الی المفسدۃ…….. وجاء ت بالمنع من القسم الأول کراھۃ أو تحریما بحسب درجاتہ فی المفسدۃ (اعلام الموقعین: ۳؍۱۳۶) اس لئے یوں تو سگریٹ پینا ویسے بھی کراہت سے خالی نہیں ہے؛ لیکن نو اسموکنگ زون میں خاص طور پر سگریٹ پینا درست نہیں ہے، اور مکروہ تحریمی کے درجہ میں ہے۔

سفید سونا
سوال: آج کل ایک نئی دھات کو بہت فروغ حاصل ہو رہا ہے، جس کو ’پلاٹینیم‘‘ کہتے ہیں، اور اس کو سفید سونا کہا جاتا ہے، یہ مہنگا فروخت بھی ہوتا ہے اور خواتین اس کو زیور کے طور پر پہنتی بھی ہیں، تو کیا یہ دھات تمام مسائل میں سونے ہی کی طرح ہے؟ (برکت اللہ، بیگم بازار)
جواب: سونے سے مراد وہ خاص زرد دھات ہے، جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سونا کہا جاتا تھا، اس کو شریعت میں کرنسی مانا گیا ہے، اس میں زکوٰۃ واجب قرار دی گئی ہے، اس سے سود کے بھی بعض احکام متعلق ہیں؛ اس لئے اصل سونا تو وہی ہے، اور سونے کے احکام اسی پرجاری ہوں گے، کسی اور دھات کو سونا کہہ دینے کی وجہ سے وہ سونا نہیں ہو جائے گا، اس کی حیثیت صرف ایک قیمتی سامان کی ہوگی، کرنسی (ثمن) کی نہیں ہوگی۔

Comments are closed.