Baseerat Online News Portal

” توریہ ومغالطہ، کام یابی کی کلید ہے“

(سیاسی اسباق)
”الحرب خدعۃ“

محمد فہیم الدین بجنوری
9 جمادی الاخری 1443ھ 13 جنوری 2022ء

جمہوری انقلاب نے، رزم کے تصورات تبدیل کردیے ہیں، ماضی کے طالع آزماؤں نے، جن اہداف کے لیے، شمشیر وسنان کی پناہ لی تھی، آج ان کی راہ بیلیٹ باکس سے ہو کر گذرتی ہے، نظریاتی مقاصد، معاشی منصوبے، تہذیبی امنگیں، لسانی ترجیحات، مذہبی رجحانات؛ غرض ہر ہدف کا بخت، انتخابی مہر سے وابستہ ہے، متنبی کے زمانے کا ”الدنیا لمن غلب“، ہمارے دور کے ”الدنیا لمن فاز“ سے تبدیل ہوچکا ہے، اقتدار کی تبدیلی سے، شعبہ ہائے حیات کس کس طرح متاثر ہوتے ہیں، اس کا ادراک، ہم ہندوستانی مسلمانوں سے زیادہ کس کو ہو سکتا ہے!
قدیم الایام کی عسکری تگ ودو اور عصر حاضر کے انتخابی معرکوں کی خاکہ بندی میں، بہت کچھ فرق رونما ہوئے؛ لیکن رزم بہ ہر حال رزم ہے؛ مبادی ناقابل تغیر رہیں گے، فتح کے جو بنیادی عناصر سدا بہار تھے، وہ ہمیشہ سدا جوان رہیں گے۔
رسول اللہ ﷺ کو شمال کی مہم در پیش ہوتی، تو جنوب کے کنووں اور راستوں کے احوال دریافت کرتے تھے، جس ذاتِ اقدس کی صداقت وراست گوئی کی قسمیں، نبوت سے قبل کھائی گئیں، اس نے جنگ کو، توریہ اور مغالطے کا مبنی بر حقیقت عنوان دیا ہے، اگر آپ کی تعبیر سیاسی نہیں ہے، توآپ سیاست کے میدان کی ابجدیات میں غلطی کھارہے ہیں۔
قائدِ حیدر آباد، جب سیاسی حصے داری کی بات کرتے ہیں، تو وہ بالکل صحیح جگہ کھڑے ہیں؛ لیکن اقتدار کے جس”سِمسِم“ کو کھولنے کے وہ آرزو مند ہیں، ان کے پاس اس کا درست ”پاس ورڈ“ نہیں ہے،”میم“ والے پاس ورڈ پر اصرار بہ دستور رہا، تو ڈر ہے کہ”ناگپوری رہزن“ کے ”چالیس چور“، ملت کو لقمہء تر، مزید خوش گواری سے بنائیں گے۔
صحابی رسول، سفیرِ اسلام، حضرت ربعی بن عامر ؓ، جب قادسیہ میں، ایرانی سپہ سالار، رستم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، یہ فرما رہے تھے کہ ہم مظلوم عوام کو، تمہارے جبر وستم سے آزاد کرانے آئے ہیں، تو اسلام و توحید کا انگارہ، ان کے دل کی انگیٹھی کو بے تحاشہ گرمائے ہوئے تھا، فدائے ملت، حضرت مولانا اسعد مدنی علیہ الرحمہ،جب واجپائی کے رو بہ رو، ”ملک بچاؤ“ کا نعرہ بلند کرتے تھے، تو واجپائی سمیت، سارا ہندوستان جانتا تھا کہ یہ اپنے مدارس، مساجد، مراکز اور قومِ مسلم کے بخت کی بات کر رہے ہیں، تعبیر اور نعرہ ہی، آپ کی سرخ روئی کا ضامن ہے، اس سے صرفِ نظر، نشانِ منزل کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
”مدنی وآزاد نظریہء سیاست“، ہندوستان کی تقدیر ہے؛ کیوں کہ وہ سر زمینِ ہند کے، اس سماجی تانے بانے کے حقیقی اور سچے تجزیے پر مبنی ہے، جس کی تشکیل نے، ایک درجن سے زائد صدیاں دیکھی ہیں، ملک کے موجودہ حکمرانوں نے، ہمارے اکابر کی اسی فکر کو”اَپڈیٹ“ کیا اور کام یابی حاصل کی، ”سب کا ساتھ، سب کا وِکاس“ اور پھر ”سب کا وِشواس“؛ اسی متحدہ قومیت سے کشید کردہ، نہایت خوب صورت اور بامراد نعرہ ہے؛ ہم تو اس فریب کو سمجھنے کے اہل تھے؛ لیکن پسماندہ آبادی کا، اس سائبان سے دھوکہ کھانا؛ ملک کی خفتہ نصیبی میں، سنگ میل ثابت ہوا اور صرف سات سالہ میعاد نے، زمین وآسمان بدل کر رکھ دیے۔
تیس کروڑ کی آبادی کو، مکی زندگی کے اسباق یاد دلانا گم راہ کن ہے، ہم احزاب کی صورت حال میں ہیں، رسول اللہ ﷺ کو کلیدی ومستقل دشمنوں اور”لہر“ ورجحان کے عارضی دشمنوں کے مابین فرق کا پورا ادراک تھا، وہ جانتے تھے کہ ہمیں نیست ونابود کرنے کا سودا قریش کو ہے، غطفان وغیرہ قبائل تو ”لہر“ اور ”پولورائزیشن“ کا بلبلہ ہیں؛ چناں چہ آپ نے غطفان کے سردار کو اعتماد میں لیا، خندق میں سرمایہ کار، خیبر کے یہود تھے، غطفان کو خیبر کی یک سالہ پیداوار پیش کی گئی تھی؛ رسول اللہ ﷺ نے، بلا جنگ واپسی کے لیے، مدینہ منورہ کی تہائی پیداوار کا آفر دیا، تو عیینہ بن حصن کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
ہمارے اللہ واسطے کے دشمن آج بھی محدود ہیں؛ لیکن نقیبِ ملت کی”میم“ والی تقریریں، ہر دو جانب ماحول خیز لہریں بناتی ہیں، پھر ان کے شکم سے جنم لینے والا ”کورونا“، تعدیہ وتعداد؛ دونوں میں بے قابو ہوجاتا ہے، اب وہ ملک گیر رہنما ہیں، ان کا قد، مخالف خیمہ کے مطلق العنان لیڈر سے آنکھیں ملاتا ہے، اس تناظر میں،ملت کی طرف سے، ان کے خطاب میں، توریہ کے فقدان کا شدید احساس، قرینِ قیاس ہے۔
ان سے -بہ خدا- قلبی محبت ہے، وہ اپنے ہیں، برادر ہیں، مسلم ہیں، سنی ہیں، اہل علم اور اہل دل سے محبت، عقیدت ورجوع رکھتے ہیں، انھوں نے کئی محاذوں پر دفاعِ دین کا فریضہ تنہا انجام دیا ہے، ایوانِ اقتدار میں ان کی خدمات، ان کی ذمہ داری سے زائد ہیں، وغیرہ وغیرہ؛ لیکن اصل الاصول اور مدار المہام اقتدار ہے، اگر اقتدار آپ کے خاکے کا حصہ نہیں ہے، تو مجرد سیٹوں کی فتح کا ہدف، ایک پُر خطر قواعد اور تقدیرِ ملت کے کھیل سے زائد کچھ نہیں۔
سیاست کے کھلاڑی کو نبض شناس ہونا چاہیے، دوہزار بارہ سے، دو ہزار سترہ تک رشکِ مُلک کارکردگی کے باوجود، ”یادو -مسلم“ لیڈر کو ہزیمت اٹھانی پڑی، آج ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ یادو ہیں، عربی رومال اور ٹوپی تو بہت پیچھے رہ گئے ہیں، نتیجہ عیاں ہے، انتخابی میزان کو بھاری کرنے والی، ملک کی حقیقی اکثریت، اس کے اقبال کی راہیں ہم وار کرنے کے لیے، یکسو ہو رہی ہیں۔
حیرت ہوتی ہے کہ ہمارا قریہ قریہ سیاسی رنگ میں رنگا ہوا ہے، عام دیہاتی بھی ذرائع ابلاغ کے سامنے، الفاظ وتعبیرات میں چوکنا ہے، جب وہ یہ کہتا ہے کہ سابقہ حکومت میں ان پر قد غن تھے، تو اس کا کنایہ محتاجِ تشریح نہیں ہوتا، سب سمجھتے ہیں کہ اب زیادتی کی آزادی ملی ہے، موب لنچنگ کا مواخذہ موقوف ہے، مغربی یوپی کا اکثریتی بیانیہ یہ ہے کہ سابقہ حکومت میں غنڈہ گردی عام تھی؛ لیکن ”مسلم غنڈہ گردی“ کی تعبیر سے سماعتیں محروم ہیں؛ جب کہ تشریح متعین ہے کہ ان میں جو معدودے چند رہنما، سر اٹھاکر چلنے کی افتاد رکھتے تھے، وہ بھی سرنگوں ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
ہمیں ایسی ہی سیاسی تعبیریں درکار ہیں، ہم دلتوں، پسماندوں، محروموں اور مظلوموں کی مدد کے لیے مبعوث ہیں، یہ ہمارا فرض منصبی ہے، یہ وہ تعبیریں ہیں، جو ملک کی اکثریت کو مانوس کریں گی، آپ کی صف میں خالی گوناگوں اسامیوں کو پر کریں گی، ان کے اجداد نے، ہمارے بزرگوں کا ساتھ دیا ہے، ان کے لیے در بندی مایوس کن ہے؛ پھر جب بارش، آپ سے مترشح ہو کر نکلے گی، تو اولاً نہال بھی آپ ہی ہوں گے۔

Comments are closed.