صحیح و جمہوری مسلم قیادت کے طور پر ایس ڈی پی آئی کو سمجھنا اور آگے بڑھانا وقت کی اہم ترین ضرورت۔

تحریر: مفتی حسین احمد ہمدم

(ایڈیٹر: چشمہ رحمت ارریہ، بہار)

 گذشتہ دنوں جب مجاہد صفت بزرگ عالم دین حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب نے بہت ہی نرم مشفقانہ لہجے میں اور انتہائی انکسار کے ساتھ نام نہاد مسلم قیادت ایم آئی ایم کے سربراہ کو معقول نصیحت کی تو سوشل میڈیا پہ موجود ان کے جنونی حمایتیوں نے مولانا دامت برکاتہم کو بھی نہیں بخشا، ان کی شان میں گستاخانہ جملوں کا استعمال کیا، شوباز، سپا سے بکا ہوا اور علمائے سو تک کہہ دیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ حالانکہ مولانا مدظلہ اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے متحرک ترین اور مخلص ترین قائد ہیں، شاہین باغ تحریک کے سرپرست رہے ہیں، پورے ملک میں آرایس ایس جیسی فسطائی طاقت سے دفاع کی تیاریوں کے لئے نوجوانوں کو بیدار کرتے ہیں۔ دلتوں پچھڑوں کی سب سے اہم تنظیم بام سیف کے اسٹیج سے مسلم+دلت اتحاد کی کوششیں کرنے والے عالی دماغ رہنما ہیں، کئی دینی دعوتی و تحقیقی اداروں کے روح رواں اور وعظ وتذکیر کے ذریعے تزکیہِ نفوس کا کام کرنے والے عظیم مصلح اور مربی ہیں۔ سیاسی لیڈران ان کے قدموں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہیں۔

مولانا نے پہلے بہت تواضع کے ساتھ باربار اس بات کی کوشش کی کہ نام نہاد مسلم قیادت کے سردار صاحب سے بات اور ملاقات ہوجائے؛ لیکن سیاسی لیڈر صاحب کو اندازہ تھا کہ مولانا کیا فرمانے والے ہیں؛ اس لئے وہ مولانا سے ملنے سے اعراض کرتے رہے اور دوسری طرف مولانا مدظلہ کی دست بوسی کرتے ہوئے اپنی تصویریں سوشل میڈیا میں سیاسی اغراض کے لئے پھیلاتے بھی رہے، مجبورا حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کو اویسی صاحب کے نام کھلا خط لکھنا پڑا تاکہ مستقبل قریب میں پیش آنے والے ممکنہ نتائجِ بد سے قیادت کے دعویداروں اور ان کے جذباتی حمایتیوں کو پہلے ہی آگاہ کردیا جائے اور حجت تام کردی جائے؛ لیکن اویسی صاحب کے عقل سے پیدل حمایتیوں نے مولانا کی نصیحت پر جس طرح جنون اور عدم برداشت کا اظہار کیا ہے وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور غور کرنے سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ مجلس اور مجلس والے حقیقی مُسلم قیادت نہیں ہیں، مسلم قیادت تو علمائے حق کو اپنا سرپرست سمجھتی ہے، طبیعت کے خلاف ہو تب بھی ان کے مشورے کو اہمیت دیتی ہے، ان کی شان میں گستاخی نہیں کرتی۔ علماء اور خیرخواہوں سے بدگمان رہنے والے اور اختلاف رائے رکھنے والے مسلمانوں کو گالیاں دینے والے مسلم قیادت کیسے ہوسکتے ہیں؟

اطلاع
اہم اطلاع۔ یوٹیوب پر BASEERAT ONLINE چینل کو سبسکرائب کیجئے۔

اب یہ ناگزیر ہوگیا ہے کہ مسلمان اپنے صاحب بصیرت علماء اور دیدہ ور انٹلیکچولس کی نگرانی میں واقعی مسلم قیادت کو سامنے لے آئیں، ورنہ خالی جگہ ہوا سے بھر جاتی ہے۔ ہوائی باتیں کرنے سے اور محض مسلم قیادت کے خوبصورت نعرے سے کسی شاطر، مکار، متکبر و بدزبان کی سیاسی امنگوں کو مسلم قیادت سمجھنا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس کو عملا معصوم عن الخطاء مان کر اس سے اختلاف رکھنے کو گناہ عظیم بنادینا، اس کی حمایت میں ایسا اندھا بہرا ہوجانا کہ کسی بڑے سے بڑے کی بھی عظمت و اہمیت کا پاس و لحاظ نہ رکھنا یہ مسلم قیادت نہیں ایک سخت سیاسی فتنہ ہے۔

کسی ایک مسلمان یا چند مسلمانوں کی ذاتی یا خاندانی سیاسی آرزو مندی ”مسلم قیادت“ نہیں ہوسکتی، مسلم قیادت تو جمہور مسلم کی رائے سے وجود میں آنے والی اور سسٹم سے چلنے والی پارٹی ہوگی۔ اور الحمدللہ مسلمانوں کی ایسی ہی ایک سیاسی پارٹی SDPI یعنی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ہے، اس پارٹی کے پاس فی الحال اگرچہ کوئی ایم پی نہیں ہے مگر یہ ملک کے بیشتر صوبوں تک زمینی رابطے رکھتی ہے، اس کا ڈھانچہ بہت مضبوط ہے، سسٹم جمہوری ہے، بی جے پی اور کمیونسٹ پارٹی کے بعد یہ ہندوستان کی تیسری کیڈر بیس پارٹی ہے جس میں لوگ تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور ایک یا چند قائد کے گرفتار یا فوت ہوجانے سے بھی کوئی کمزوری نہیں آتی، اس پارٹی کی بنیاد ملک کے سیکولر ڈھانچے سے سوفیصد ہم آہنگ ہے، آج اس پارٹی کو سمجھنے اور اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، جمہوری مسلم قیادت کے طور پر تھوڑی دیر ہی سے سہی ایس ڈی پی آئی کو آگے لانا صحیح سمت میں درست فیصلہ ہوگا۔

Comments are closed.