Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

صف لمبی ہونے کی وجہ سے پہلی کے بجائے دوسری صف میں نماز ادا کرنا
سوال:- مسجد چاہے کتنی وسیع وعریض کیوں نہ ہو، کیاپہلی صف پوری کرنالازمی ہے ، امام سے قربت کے لیے چھوٹی چھوٹی دوسری یاتیسری صف بنالینااوراس میں کھڑاہونا، کیابہتر نہیں ہوگا؟ (محمد فیصل، شاہین نگر)
جواب:- جب مسجد میں نما ز اداکی جائے ، تو نماز گاہ کے لیے مخصوص جگہ کی دونوں دیواروں کے درمیان کی پوری جگہ ایک صف متصور ہوگی اوربہتر یہی ہے کہ پہلی صف میں کھڑا ہوجائے ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے صف کی خالی جگہ کو پر کیا، اللہ تعالی اس کے درجہ کو بلند فرمائیں گے (جمع الفوائد، حدیث نمبر: ۱۷۵۰)اسی لیے فقہاء نے لکھاہے کہ پہلی صف میں کھڑ اہونادوسری صف میں کھڑے ہونے سے اور دوسری صف میں کھڑاہوناتیسر ی صف میں کھڑے ہونے سے افضل ہے ، یہاں تک کہ اگر پہلی صف میں خلاہوتودوسری صف کو پھاڑتے ہوئے پہلی صف میں جگہ لینی چاہیے : وإن وجد فی الصف الأول فرجۃ دون الصف الثانی یخرق الصف الثانی (ہندیہ: ۱؍۸۹)اس لیے پہلے اگلی صف کو پر کرناچاہیے ، اگلی صف میں نماز پڑھنے والے گو بظاہر امام سے دور ہوں؛ لیکن اصل میں وہی امام سے قریب سمجھے جائیں گے ۔

دوکان میں کام کرنے والے اور جماعت میں شرکت
سوال:- ایک شخص کے دو تین لڑکے ہیں سب کے سب ایک ہی دوکان میں کام کرتے ہیں، یہ سب ایک ساتھ مسجد میں جماعت کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے ، ان کے لیے کیا حکم ہے ؟ ( محمد اکرام الحق، سنتوش نگر)
جواب:- اگر قرب و جوار میں ایک سے زیادہ مسجدیں ہوں ،اور دونوں میں جماعت کے اوقات الگ الگ ہوں ، تو ایسا کیا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگ ایک مسجد میں نماز ادا کرلیں، کچھ لوگ دوسری مسجد میں ، اگر ایک ہی مسجد ہو تو اصل حکم تو یہی ہے کہ پانچ سات منٹ کے لیے دوکان بند کرلیں، یہ تھوڑا سا وقت ان شاء اللہ تجارت میں برکت ہی کا باعث ہوگا ، نہ کہ نقصان کا، آخر دوسری ضروریات کے لیے تو دوکانیں بند کی ہی جاتی ہیں ؛ تاہم آخری درجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ مسجد چلے جائیں اور کچھ لوگ دوکان ہی میں جماعت کرلیں ؛ چونکہ مسجد میں جماعت کا حکم بطور واجب کفایہ کے ہے؛ اس لیے ایک حد تک اس کی گنجائش ہے ، ترکِ نماز سے بہر حال بچیں ۔

ولادت کے بعد غسل اور نماز
سوال:- اکثر عورتیں بچہ تولد ہونے کے بعد چالیس دن تک نماز نہیں پڑھتیں ، اور چالیس دن کے بعد پانی پر کچھ دعا پڑھ کر پھونکتی ہیں، اور اس سے نہاتی ہیں ، ایام حیض کے بعد جب غسل کرتی ہیں ، تو اس وقت بھی پانی پر کچھ دعاء پڑھ کے غسل کرتی ہیں، کیا ایسا کرنا صحیح ہے ؟ ( ایک دینی بہن، حمایت نگر)
جواب:- (الف ) ولادت کے بعد جو خون آتا ہے اسے نفاس کہتے ہیں ،نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے؛ لیکن ہمیشہ چالیس دن ہی خون آنا ضروری نہیں، اگر چند دن خون آکر پاک صاف ہوجائیں ، تو اب غسل کرکے نماز ادا کرنی چاہئے، اگر چالیس دن تک نماز نہ پڑھیں ، تو خون بند ہونے کے بعد جو ایام گزرے ہیں، ان میں نماز نہ پڑھنے کا گناہ ہوگا، اور قضاء واجب ہوگی۔
(ب) ایسی کوئی مخصوص دعاء منقول نہیں، جو غسل کے پانی میں پھونک کر اس سے غسل کیا جائے، ہاں اگر ازراہ علاج کوئی ایسی دعاء جس میں مشرکانہ کلمات نہ ہوں، پڑھ کر دم کر کے اس سے غسل کرنے کو کہا گیا ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

اذان کے وقت استنجاء
سوال:-کیااذان کے وقت طہارت لینا درست ہے ؟ ( محمد سراج، کھمم)
جواب:- اگرکوئی شخص پہلے سے استنجاء کی حالت میں ہو اور اذان ہونے لگے تو کچھ حرج نہیں؛ البتہ اس حالت میں زبان سے اذان کا جواب نہ دے ،(درمختار علیٰ ہامش الرد: ۱؍۲۹۲)اگر استنجاء کو جانے سے پہلے اذان شروع ہوگئی اور استنجاءکاشدیدتقاضہ نہ ہو یایہ اندیشہ نہ ہوکہ ازدحام کی وجہ سے تاخیر کرنے کی صورت میں نماز کی کوئی رکعت یا نماز سے پہلے کی سنت فوت ہو سکتی ہے تو بہتر ہے کہ رُک کر اذان کا جواب دے دے، (ہندیہ:۱؍۵۷)اس کے بعد استنجاء کرے ،مسجدوں میںعام طورپر نمازوں کے اوقات میں اتناہجو م ہوجاتاہے کہ انتظار کرنے میں جماعت فوت ہونے کا یادوسروں کو دشواری پیداہونے کا اندیشہ رہتاہے،ایسی صورت میں اذان کے درمیان استنجاء کرلینے میں مضائقہ نہیں ؛کیوں کہ اصل میں اذان کا عملی جواب دینا واجب ہے ،اور وہ ہے ’’جماعت میںشرکت‘‘زبان سے جواب دیناواجب نہیں ۔

افعالِ غسل میں دعائیں
سوال:- بعض حضرات کہتے ہیں کہ غسل کے جتنے افعال ہیں، ان کے لئے الگ الگ دعائیں ہیں ، اور دعاؤں کو پڑھنا ضروری ہے؟ ( محمد سلیمان، مہدی پٹنم)
جواب :- غسل و وضو میں ہر فعل سے متعلق جو دعائیں بعض کتابوں میں لکھی ہیں، یا لوگوں میں مشہور ہیں، وہ حدیث سے ثابت نہیں ، اگر ان کو مسنون سمجھے بغیر پڑھ لیاجائے تو کوئی حرج بھی نہیں ، فقہاء نے لکھا ہے: غسل کرتے وقت مسنون ہے کہ پہلے غسل کی نیت دل ہی دل میں کرلے، اور اگر زبان سے بھی یوں کہہ لیں کہ ’’ میں جنابت دور کر نے کے لئے غسل کی نیت کرتاہوں ‘‘ تو بہتر ہے، پھر جب غسل کے لئے دونوں ہاتھ دھونے لگیں تو اس وقت بسم اللہ پڑھ لیں؛ کیونکہ وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کی تاکید آئی ہے، بس اتنا کافی ہے: ویسن أن یبدأ بالنیۃ بقلبہ ویقول بلسانہ ثم یسمی اللّٰہ تعالی عند غَسل الیدین (ہندیہ: ۱؍۱۴)

فراخیٔ رزق کی دعاء
سوال:- دوکان میں ترقی اور رزق میں کشادگی کے لیے کوئی دعاء ہو تو لکھیں ۔ (محمد عمران، ملک پیٹ)
جواب:- رزق میں وسعت اور برکت کے لیے نمازوں کا اور جن لوگوں کے حقوق آپ سے متعلق ہیں ، ان کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہئے ، اس سے رزق میں وسعت ہوتی ہے ، ویسے حدیث میں وسعتِ رزق کے لیے یہ دعاء منقول ہے: اَللّٰہُمَّ اکْفِنَا بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ ، اَللّٰہُمَّ اغْنِنَا بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ(ترمذی، حدیث نمبر: ۵۳۶۳) اے اللہ ! اپنی حلال رزق کے ذریعہ ہمیں اپنی حرام کی ہوئی اشیاء سے بچا اور اپنے فضل کے ذریعہ ہمیں اپنے ماسوا سے بے نیاز فرمادیجئے ‘‘

عصر کے بعد ذکر و دعا ء کا اہتمام
سوال:-جمعہ کے علاوہ عام دنوں میں عصر کے بعد غروب آفتاب کے قریب بہت سے لوگ دعاء کا اہتمام کرتے ہیں، ایک عالم صاحب سے دریافت کرنے پر بتایا کہ صرف جمعہ کے دن ہی دعاء کا اہتمام ثابت ہے ، باقی دنوں میں احادیث سے خاص طور پر اس وقت ذکر و دعاء کی فضیلت ثابت نہیں، اس سلسلہ میں حدیث کی روشنی میں وضاحت کیجئے؟ ( محمد شعیب، یاقوت پورہ)
جواب:- جمعہ کے دن غروب آفتاب کے وقت کی دعاء کے قبول و مستجاب ہونے کی حدیث تو ہے ہی ، اور بہت سے اہل علم کی رائے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی جس ساعت کو دعاء کی قبولیت کی ساعت قرار دیا ہے ، وہ یہی وقت ہے؛ لیکن عام دنوں میں بھی غروب آفتاب کے قریب ذکر و دعاء کا خصوصی اہتمام احادیث میں مروی ہے، مشہور محدث امام نووی ؒ فرماتے ہیں :
’’یستحب الإکثار من الأذکار بعد العصر و آخر النھار أکثر، قال اللّٰہ تعالیٰ: { وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِھَا } (سورۃ طٰہٰ من الآیۃ ، ۱۳۰ ) و قال اللّٰہ تعالیٰ: { وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ بِالْعَشِیِّ وَ الاِبْکَارِ} ( غافر : من الآیۃ ۵۵ )قال النبي علیہ السلام ؛ لأن أجلس مع قوم یذکرون اللّٰہ عز وجل من صلاۃ العصر إلی أن تغرب الشمس أحب إلي أن اعتق ثمانیۃ من ولد اسماعیل‘‘(الاذکار للنووی: ۱۲۸)
’’ عصر کے بعد دن کے اخیر حصہ میں زیادہ سے زیادہ ذکر کرنا مستحب ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ صبح و شام اپنے رب کے حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نمازِ عصر سے غروب آفتاب تک ذاکرین کے ساتھ رکا رہنا مجھے اولاد اسماعیل میں سے آٹھ غلاموں کو آزاد کرنے سے زیادہ پسند ہے ‘‘
واضح ہو کہ دعاء بھی من جملہ اذکار کے ہے ؛اس لئے دعاء اور دیگر اذکار دونوں اس حدیث میں شامل ہیں۔

گرم پانی میں ڈالاہوا ذبیحہ مرغ
سوال:- آج کل شادی اور دیگر تقریبات میں جو مرغ ذبح کئے جاتے ہیں،اس کو ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ بغیر چھری صاف کئے کئی مرغی کو ایک دوسرے کے سامنے ذبح کیاجاتاہے ،پھر اس کوگرم پانی کے بڑے برتن میں ڈال کرکافی دیر ابالاجاتاہے ،تاکہ اس کے پر آسانی سے صاف کئے جائیں،پانی عموما ً خون آلود ہوجاتاہے ،کیا ایسے مرغ کا گوشت کھانا جائز ہے ؟(محمد راشد،چارمینار )
جواب:- (الف) ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کوذبح کرنامکروہ ہے ، اس سے منع کرناچاہئے ،لیکن ذبیحہ کے حلال ہونے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
(ب) اگر مرغی کو اتنی دیر گرم پانی میں کھولادیاجائے کہ پانی گوشت کے اندر پیوست ہوجائے تویہ بالکل ناپاک ہوجائے گا ،اور دھونے کے باوجود پاک نہ ہوگا ،لیکن اگر اتنی دیر کے لئے پانی میں ڈالاکہ پانی کی حرارت جلد کی سطح تک پہونچ جائے اور مسامات اس طرح کھل جائیں کہ بال آسانی سے نکل سکیں،تواس صورت میں تین دفعہ دھونے سے گوشت پاک ہوجائے گا ، علامہ شرنبلالیؒ نے ’’ مراقی الفلاح‘‘ اور’’ طحطاوی‘‘ نے اس کے حاشیہ پر وضاحت کے ساتھ یہ بات لکھی ہے ،(مراقی الفلاح: ۸۶) اس لئے اول تواحتیاط کاتقاضہ یہ ہے کہ مرغ کے ذبح کرنے کا خصوصی انتظام کیاجائے ،اور اندرونی آلائش کو نکال کر اوپر سے مسامات کھلنے کے بقدر گرم پانی ڈالاجائے ،تاہم اگر ایسا نہ کیاجائے توکم سے کم گوشت کو تین پانی سے دھونے کااہتمام کرلیاجائے ۔

Comments are closed.