ورق پہ دل کے یہ تحریر اس کی آج بھی ہے

شہناز عفت ممبئی
ورق پہ دل کے یہ تحریر اس کی آج بھی ہے
ورق پہ دل کے یہ تحریر اس کی آج بھی ہے
کہ عشق غم ہے یہ تفسیر اس کی آج بھی ہے
مری نگاہوں سے وہ دور ہے بہت لیکن
مرے خیالوں میں تصویر اس کی آج بھی ہے
جنوں کی قید سے آزاد ہونے کی خاطر
وہی پرانی سی تدبیر اس کی آج بھی ہے
وہ بن کے پھیلا اجالا مری نگاہوں میں
ہر ایک ذرے میں تنویر اس کی آج بھی ہے
ہر ایک رند جسے دیکھتا تھا وحشت سے
کہ بزم رنداں میں تقریر اس کی آج بھی ہے
جسے خوشی کی ہمیشہ تلاش رہتی تھی
گھری غموں میں ہی تقدیر اس کی آج بھی ہے
پیا تھا زہر محبت کا میں نے جو عِفّتؔ
تمام جسم میں تاثیر اس کی آج بھی ہے
شہناز عِفّتؔ
ممبئی
Comments are closed.