Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

نمستے کہنا اور پرشاد کھانا
سوال: کسی مسلمان صاحب کے اس موقف کے متعلق سوال ہے کہ زید اپنے غیر مسلم دوستوں کے سامنے اپنے اخلاق کے اظہار کے لیے کہ وہ نا راض نہ ہو جائیں، ان کو نمستے کرتا ہے اور ان کی پوجا کا پرساد بھی کھاتا ہےاور کہتا ہے کہ میرا یہ ایقان ہے کہ ایسا کرنے سے میرے ایمان میںکوئی فرق نہیں پڑتا، یہ تو کٹر مسلمانوں کا ذہنی فطور ہے، جواب چاہئے۔ (عبداللہ سید، علی گوڑہ)
۱۔ جواب: نمستے کا لفظ بہت سے اہل علم کی تحقیق کے مطابق بندگی کو ظاہر کرتا ہے، یعنی نمستے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ’’ میں آپ کی عبادت کرتا ہوں‘‘ بعض حضرات کے نزدیک یہ لفظ صرف احترام کے لئے ہے، یعنی میں آپ کا احترام کرتا ہوں، تو بہر حال اس میں مشرکانہ معنیٰ کا احتمال ضرور موجود ہے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مبہم الفاظ کے استعمال سے منع کیا ہے، جس میں مشرکانہ معنیٰ کی بھی گنجائش ہو، زمانہ جاہلیت میں غلام اپنے مالک کو ’’ رب‘‘ اور مالک اپنے غلام کو ’’ عبد‘‘ کہا کرتے تھے، رب کے معنیٰ مالک کے ساتھ ساتھ خدا کے بھی ہیں، اور عبد کے معنیٰ غلام کے ساتھ ساتھ بندہ کے بھی ہیں؛ اس لئے آپ نے اس تعبیر کے استعمال سے منع فرمایا ہے؛ لہٰذا نمستے کی تعبیر درست نہیں ہے۔
۲۔ جو پرشاد بتوں پر چڑھایا گیا ہو، اس کا کھانا جائز نہیں، یہ قرآن مجید کے حکم : ما ذبح علی النصب (المائدہ: ۳)میں شامل ہے؛ اس لئے اس سے بچنا ضروری ہے، اگر مجبوراََ لینا پڑے تو لے لے اور بعد میں ضائع کر دے، زید کا یہ کہنا کہ اس سے میرے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، بہت ہی ناسمجھی کی بات ہے، مسلمان ہونے کے لئے توحید کا اقرار کافی نہیںہے؛ بلکہ کفر وشرک کا انکار بھی ضروری ہے، اور کفر کا انکار صرف زبان کے بول ہی سے نہیں ہوتا، عمل سے بھی ہوتا ہے، جیسے کوئی شخص لا الٰہ الا اللہ بھی کہے اور مورتی کو سجدہ بھی کرے تو یہ عمل اس کے دائرہ ایمان سے باہر ہو جانے کے لئے کافی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان پر ثابت قدم رکھے۔

میڈیکل ٹسٹ کی ایک خاص صورت میں وضوء
سوال:- میڈیکل ٹیسٹ کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ معدہ تک نلکی پہونچائی جاتی ہے ، اور گوشت کا کوئی ٹکڑا مزید تجزیہ کے لئے باہر نکالا جاتا ہے ، تو کیا اس کی وجہ سے وضوء ٹوٹ جائے گا ؟ ( مزمل حسین، مہدی پٹنم)
جواب:- اگر نلکی منہ کے راستہ سے نجاست کے حصہ تک پہونچ جائے اور نجاست سے آلودہ ہوکر واپس لوٹے تو وضوء ٹوٹ جائے گا، اگر نلکی پر نجاست نہ لگی ہو ، یا گوشت کا چھوٹا سا ٹکڑا نکالا ہو اور وہ نجاست سے آلودہ نہ ہو تو وضوء نہیں ٹوٹے گا ، کیونکہ گوشت کے ٹکڑے کا جسم سے الگ ہونا ناقض وضوء نہیںہے۔ ’’ فصار کما لو انفصل قطعۃ من اللحم فإنہ لا ینقض‘‘ (الجامع للترمذي :۲/۳ ، باب ما جاء في کراھیۃ أکل الثوم و البصل ) اور منہ سے نکلنے والی چیز جب تک منہ بھر نہ ہو ، ناقض وضوء نہیںہوتی : لکن ما علیھا قلیل لا یملأ الفم فلا یکون حدثا (کبیری، ص: ۱۹۶)اور اگر نلکی پائخانہ کے راستہ سے ڈالی اور پھر نکالی جائے ، تو مطلق ناقض وضوء ہے ، اس پر نجاست نظر آنا ضروری نہیں ۔

اقامت میں دائیں بائیں چہرہ پھیر نا
سوال:- اذان کہتے ہوئے ’’ حی علی الصلاۃ‘‘ پر دائیں طرف اور’’حی علی الفلاح ‘‘ پر بائیں طرف رخ کیا جاتا ہے ، کیا اقامت کہتے ہوئے بھی اسی طرح دائیں اور بائیں رخ کرنا چاہئے؟ ( عبدالواحد قاسمی، کھمم)
جواب:- اذان میں’’ حی علی الصلاۃ‘‘ اور ’’حی علی الفلاح‘‘ پر دائیں اور بائیں گردن موڑنا حدیث سے ثابت ہے؛ لیکن اقامت میں اس طرح کہنا ثابت نہیں ، وجہ اس کی ظاہر ہے کہ اذان میں دور کے لوگوں کو باخبر کرنا مقصود ہے، اس لئے دائیں بائیں رخ کیا جاتا ہے ، تاکہ ہر طرف مؤذن کی آواز پہنچ جائے، اقامت کا مقصد جو لوگ مسجد میں موجود ہیں، صرف ان کو متوجہ کرنا ہے اور اس میں دائیں بائیں رخ کرنے کی حاجت نہیں ؛ گو بعض فقہاء نے اقامت میں بھی اذان کی مماثلت کی وجہ سے دائیں بائیں رخ کرنے کو کہا ہے، لیکن اکثر فقہاء کے نزدیک زیادہ صحیح اور درست یہی رائے ہے کہ اقامت میں ’’ حی علی الصلاۃ‘‘اور حی علی الفلاح‘‘ پر دائیں بائیں رخ کرنا مستحب نہیں،علامہ ابن نجیم مصریؒ کہتے ہیں: لا یحول فیھا لأنھا اعلام للحاضرین(البحرالرائق: ۱؍۲۵۸)اور جوہرہ میں ہے: ھل یحول في الاقامۃ؟ قیل: لا؛ لأنھا اعلام للحاضرین (الجوھرۃ النیرۃ: ۱؍۲۶)

گواہی میں عورت کا درجہ کم کیوں ہے؟
سوال:- شہادت و گواہی میں دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر مانا گیا ہے ، ایسا کیوں ہے ؟ (سائشتہ جبیں، ملک پیٹ)

جواب:- اس کی ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ گواہی کے لئے ضروری ہے کہ حالات و واقعات کا خود مشاہدہ کرے ، عورتوں سے چونکہ اندرونِ خانہ کی ذمہ داریاں متعلق ہیں، اس لئے وہ واقعات سے اس درجہ آگاہ نہیں ہو سکتیں جتنا مرد ہوسکتے ہیں ۔
دوسرے گواہی کے لئے ضروری ہے کہ واقعا ت کو اچھی طرح سمجھا جائے اور پھر اسے ذہن میں محفوظ رکھا جائے ، یہ صلاحیت مردوں میں زیادہ ہوتی ہے ، اور عورتوں میں نسبتا کم ، اس حقیقت کو علماء نفسیات بھی تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ دماغ کا حجم بھی عورتوں کا بمقابلہ مردوں کے کم ہوتا ہے ،اور یہ عورتوں کا نقص نہیں ، بلکہ فریضۂ نسوانی کی ادا ئیگی کے لئے ان کا اسی طرح ہونا ضروری ہے ، اصل میں خواتین کو بنیادی طور پر ایک بیوی اور ایک ماں کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے اور ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک حد تک زیادہ جذباتی ہوں ،چنانچہ دن رات اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ عورت کتنی بھی تھکی ہوئی ہو ، بدن چور چور ہو اور انگ انگ درد میں مبتلاء ہو ، لیکن اس حالت میں بھی اگر بچہ رویا ، یا اس نے پیشاب پائخانہ کیا تو ماں کی ممتا فورا حرکت میں آجاتی ہے ، اور وہ جب تک اسے آرام نہ پہنچادے بے سکون رہتی ہے ، باپ کتنا بھی مہربان ہو ، مگر اکثر اس کیفیت سے محروم رہتا ہے ، یہ عورت کے جذبات سے معمور ہونے ہی کا نتیجہ ہے ۔
اور قاعدہ یہ ہے کہ جذبات میں جتنی شدت ہوگی ، فہم و حافظہ کی قوت اسی قدر کم کام کرے گی ، چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ آدمی غصہ کے وقت یا شدتِ غم کے وقت بہت جذباتی ہوتا ہے ، اور اسی لئے ان حالات میں جو کچھ پیش آتا ہے ان کو سمجھنے میں اور یاد رکھنے میں آدمی سے اکثر غلطی ہوتی رہتی ہے، اسی لئے گواہی کے معاملہ میں عورتوں کو مردوں سے کم اہمیت دی گئی ہے ، ہاں اگر کوئی ایسی بات ہو جس سے عورتیں ہی واقف ہو سکتی ہیں اور وہی ان کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں، تو ایسے معاملات میں فقہاء نے عورتوں کی گواہی اور اطلاع کو زیادہ اہمیت دی ہے ۔

کمیشن ایجنٹ کا لاری کے سامان کو فون پر فروخت کر دینا
سوال:- حدیث میں سامان کو قبضہ میں لینے سے پہلے بیچنے کو منع کیا گیا ہے ، مگر بڑے شہروں میں عام طور پر سامان لاریوں سے آتا ہے اور شہر کے باہر ہی لاری ٹھہرا دی جاتی ہے ، نیز کمیشن ایجنٹ کو فون سے سامان کی اطلاع دی جاتی ہے ، اب وہ ایجنٹ اپنے فون کے ذریعہ گاہک تلاش کرتا ہے اور فروخت کر دیتا ہے ، سامان قبضہ میں نہیں لیتا اور سامان کے مالک کو اپنا نفع نکال کر رقم ادا کرتا ہے ، کیا یہ جائز ہے ؟ ( محمد رضوان، ملے پلی)
جواب:- یہ صحیح ہے کہ جو اشیاء منتقلی کے لائق ہوں ، ان کو قبضہ میں لینے سے پہلے بیچنا درست نہیں، (مصنف عبد الرزاق: ۸؍۳۸) لیکن اگر کوئی شخص اپنی طرف سے کسی اور کو قبضہ کرنے کا وکیل بنا دے اور وہ قبضہ کر لے تو یہ اسی کا قبضہ سمجھا جائے گا ،(ہدایہ: ۳؍۱۷۷) لہذا اگر لاری کا کرایہ کمیشن ایجنٹ ادا کرتا ہے ، تو لاری لانے والا اس کی طرف سے وکیل تصور کیا جائے گا ،فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر خریدار کے تھیلے میں بیچنے والا اس کی اجازت سے خریدا ہوا سامان رکھ دے ، تو یہ بھی خریدار کے قبضہ کے لئے کافی ہوگا ،(ہندیہ: ۳؍۱۹) لہذا جب خریدار لاری کا کرایہ ادا کر رہا ہے ، تو اس میں رکھا جانے والا سامان گویا خریدار کے قبضہ میں آگیا ، لہذا اب اگر کمیشن ایجنٹ کسی اور سے فروخت کرتا ہے تو گویا وہ اس مال کو اپنے قبضہ میں لے کر فروخت کررہا ہے اور اگر لاری کا کرایہ فروخت کرنے والا ادا کر رہا ہے ، تو اس کی حیثیت بیچنے والے کے وکیل کی ہے ، اب ایسی صورت میں کمیشن ایجنٹ کا محض فون پر دوسرے کے ہاتھ فروخت کر دینا قبضہ سے پہلے بیچنا شمار ہوگا اور اس لئے یہ صورت جائز نہیں ہوگی۔( یہ اس حقیر کی رائے ہے ، دوسرے اہل علم سے بھی اس سلسلہ میں دریافت کر لینا مناسب ہوگا)

قبرستان میں بینک انٹرسٹ کی رقم
سوال:- ہمارے یہاں سے قریب جو مسلم بستیاں وجودمیں آئی ہیں ان کے لئے کو ئی قبرستان نہیں ہے ،جو ہے وہ پُر ہونے کے قریب ہے ،اس لئے قبرستان کے لئے ۳/ایکڑ ۱۲/کٹھے زمین کی بات ہوئی ہے ،ایک لاکھ روپیہ اڈوانس دے کر سیل ڈید کی تکمیل کی گئی ہے ،باقی رقم ۱۴/لاکھ روپیہ معینہ مدت میں اداکرناہے ،اس کے لئے رقومات چندوں اور عطیات کے ذریعہ جمع کی جارہی ہیں ،بعض اہل خیر حضرات کی کافی رقومات بنکوں میں جمع ہیں ، جن کا سود علیحدہ کرکے رفاہی کاموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، اس سلسلہ میں بتائیے کہ کیا یہ رقومات قبرستان کی خریداری ، حصار بندی ، بورویل کی کھدائی وغیرہ کے سلسلہ میں استعمال کی جاسکتی ہیں یانہیں ؟(سید جلال الدین، چمپا پیٹ )
جواب:- قبرستان کے لئے زمین کا حصول قابل تحسین امر ہے ،اور ان سطور کے ذریعہ مسلمان بھائیوں سے خواہش کی جاتی ہے کہ وہ اس کار خیر میںتعاون کریں ،یہ بات بھی مناسب ہو گی کہ کمیٹی کے ذمہ دار حضرات لوگوں سے خواہش کریں کہ قبرستان میں سنت کے مطابق کچی قبر بنایاکریں ، پختہ قبر نہ بنایا کریں ،پختہ قبر بنانے کی وجہ سے ہی ہمارے قبرستان تنگ دامنی کا شکار ہورہے ہیں اور متولیان خرید وفروخت کررہے ہیں ،اگر کچی قبر بنائی جائے ،تو کم جگہ زیادہ دنوں کے لئے کفا یت کرسکتی ہے ،چنانچہ مدینہ منورہ میں جنت البقیع کا قبرستان معمولی اضافہ کے ساتھ گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال سے کام کررہا ہے ۔
بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ قبرستان اور اس کے متعلقات حلال وجائزرقم سے پوری کی جائیں اور اول اسی کی کوشش کی جائے ،لیکن اگر ایسی رقوم سے پوری قیمت مہیا نہ ہوپائے تو بینک انٹرسٹ کی رقم بھی استعمال کرنے کی گنجائش ہے ،کیونکہ علماء نے اس رقم کو رفاہی کاموں میں خرچ کرنے کی اجازت دی ہے ، اور قبرستان بھی رفاہی امور میں داخل ہے ،اور بظاہر شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے اس قبرستان سے غرباء ہی زیادہ فائدہ اٹھائیں گے اور اس کا نفع انہیں کی طرف لوٹے گا ۔

امتحان میں چوری
سوال :- امتحان میں ہم لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، ایک دوسرے کو بتاتے ہیں؛ تاکہ ہمارے ساتھی فیل نہ ہوں، اگر کوئی پرچی لکھ کر لے گئے اور اتفاق سے وہی سوال آگیا تو دوسرے ساتھی کو پرچی بڑھا دیتے ہیں؛ تاکہ ان کے اچھے مارکس آسکیں، ہم لوگ سوچتے ہیں کہ ان کا تعلق دینی مسائل سے نہیں ہے ، اس لئے کسی مسلمان کو اس سے فائدہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے ، آپ براہ کرم اس کی شرعی اعتبار سے وضاحت فرمادیجئے ؟ ( صباح الدین، اندرانگر)
جواب :- ہم بحیثیت مسلمان اپنی پوری زندگی کو اللہ کے حوالے کرچکے ہیں اورہمارے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے آپ کو احکام شریعت کا پابند رکھنا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے دائرہ میں رہتے ہوئے زندگی گزارنا ضروری ہے ؛ اس لئے امتحان وغیرہ کے معاملات کو دین کے دائرہ سے باہر تصور کرنا درست نہیں ہے ۔
جب آپ امتحان میں شریک ہوتی ہیں تو آپ بالواسطہ قوانین امتحان کی پابندی کرنے کا حکومت سے عہد کررہی ہیں ، اس عہد میں یہ بات داخل ہے کہ آپ چوری نہیں کریں گی ؛ لہٰذا پرچی لکھ کر لانا ، خود اس سے فائدہ اٹھانا ، دوسروں کو دینا ، یا زبانی دوسروں کوبتانا ، یہ سب دھوکہ اور بد عہدی میں شامل ہونے کی وجہ سے گناہ ہے ، چوری صرف مال ہی کی نہیں ہوتی؛ بلکہ بات کی بھی ہوتی ہے ، کوئی آدمی جو بات آپ کو سنانا نہیں چاہتا ،اس کو سننے کی کوشش کرنے کو حدیث میں چوری قرار دیا گیا ہے ؛ لہٰذا جس چیز کو دیکھنے ، سننے اور سنانے سے امتحان کے نظام میں منع کردیا گیا ہے ، ان کا سننا اور سنانا بھی چوری میں داخل ہے اور اس سے بچنا واجب ہے ، اسی طرح ممتحن کا استحقاق سے زیادہ نمبر دینا خواہ پیسے کی بنا پر ہو یا تعلق کی بنیاد پر یا کسی اور بنیاد پر ہو ، خیانت اور حرام ہے اور کسی صاحب علم کے شایان شان نہیں ؛ اس لئے ان تمام باتوں سے بچنا چاہئے ، کوئی برائی محض اس لئے جائز نہیں ہوسکتی کہ بہت سے لوگ اس کا ارتکاب کررہے ہیں ۔

اسکولوں میں ماہ مئی کی فیس
سوال:- عصری مدارس ( جو مسلم انتظامیہ کے تحت ہیں ) ماہ مئی کی فیس بھی طلبہ سے وصول کرتے ہیں ، جبکہ اسکول کو تعطیل ہوتی ہے اور ہر تین ماہ میں ٹرم فیس کے نام سے زائد رقم بھی وصول کرتے ہیں ، کیا اسے جائز کہا جاسکتا ہے ،خصوصا مسلمان انتظامیہ کے لیے ؟ ( ذوالفقار علی، محبوب نگر)
جواب:- اسکول والے جو تعلیمی فیس لیتے ہیں ،وہ پڑھانے کی اجرت ہے ، گویا فقہ کی اصطلاح میں ’’ اجارہ ‘‘ کا معاملہ ہے ، جس کی ایک فریق اسکول کی انتظامیہ ہوتی ہیں اور ایک فریق تعلیم حاصل کرنے والے بچے یا تعلیم دلانے والے سرپرست ہوتے ہیں ، اجارہ کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ دونوں فریق کے درمیان جو معاملہ طے پائے ، اس کے مطابق اس کی پابندی کرنا فریقین پر ضروری ہے ؛ لہٰذا جب اسکول کی انتظامیہ نے شروع ہی میں بتادیا کہ ماہ مئی کی فیس اور ٹرم فیس بھی دینی ہوگی ، تو یہ سب مقررہ اجرت کا ایک حصہ ہے ؛ لہٰذا اس کا ادا کرنا ضروری ہوگا ، یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اسکول کی انتظامیہ ٹیچرس کو مئی کی تنخواہ ادا کرتی ہے ، اور اگر اسکول کرایہ کی عمارت میں ہو تو اس ماہ کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے ؛ البتہ مسلم انتظامیہ کو بحیثیت مجموعی یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ تعلیم بنیادی طور پر ایک خدمت ہے نہ کہ تجارت ۔

Comments are closed.