نادرؔ کاکوروی؛ نکل جانِ حزيں اس جسم خاکی میں دھرا کیا ہے۔

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

قفس میں مرغِ بسمل یوں تڑپنے کا مزا کیا ہے؟

نکل جانِ حزیں اس جسمِ خاکی میں دھرا کیا ہے

یہ شعر اپنے آپ میں درد و آہ کی داستان ہے، ایک مکمل زندگی، شب و روز کی تگ و دو اور کڑوے کسیلے تجربات کی عکاس ہے، دو لائنوں نے دنیا اور انسان کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے، انسان کی روح جسم میں داخل ہونے کی وجہ سے یہ جسم زندہ ہے، مگر یہی زندگی اسے کوفت، روح کو مجروح اور تنگ کر کے رکھ دیتی ہے، تعب آشنا شخص جب تسلسل کے ساتھ غم و حزن کی بستی میں بھٹکتا ہے، ایک غیر یقینی صورتحال سے ہوتے ہوئے سانسوں کی ڈور تھام کر جسم کا بوجھ ڈھوتا پھرتا ہے تب اسے لگتا ہے کہ اس روح نے جسم کی معیت پاکر کتنا نقصان کرلیا ہے، جس روح کو پاک و صاف اور شیشے کی طرح ستھرا ہونا چاہیے تھا، جس کو آئینہ بن کر چمکنا چاہیے تھا وہ اب گدلا، گندا اور کیچڑ میں اَٹا ہوا ہے، فساد، قتل و غارت گری، دکھ و درد کا سراپا بنا ہوا ہے، انسان کی روح جب اسی کشمکش سے گزرتی ہے تو یقیناً زندگی حرام ہوجاتی ہے، وہ گویا کوئی پرندہ ہے جو اس سونے کے پنجڑے سے آزاد ہونا چاہتا ہے، اپنے بازوؤں کو پھیلائے فضاؤں میں اڑنا چاہتا ہے، فضول کی بندشیں، زمانے کی لغو رنجشیں اور وقت کی ستم ظریفی کے درمیان بلندی کو چھونا چاہتا ہے، یہ حق ہے کہ پنجڑہ سونے کا بھی ہو تب بھی وہ کوفت و آفت کا باعث ہے، ایک انسان جیل میں قید کی زندگی گزارے، اسے سب کچھ دیا جائے، رہائش و آرائش میں کوئی کمی نہ ہو؛ لیکن پھر بھی اسے وہ تکلیف محسوس ہوگی کہ ساری آسائشیں ہیچ لگیں گی، وہ آزاد ہونا چاہے گا، اس قید کی زنجیروں کو توڑ کر اور تمام حدود پھلانگ کر باہر نکلنا چاہے گا، تو پھر انسان کی روح کو جسم میں قید ہو تو وہ کیوں نہ آزادی چاہے؟ بالخصوص جب زندگی نے اسے کشمکش سے دوچار کردیا ہو، اور گردش ایام نے اس کے گلے میں پھندے ڈال دئے ہوں، تو پھر وہ نادرؔ کاکوروی کی زبان میں یہی کہتا ہے، جو آپ نے پڑھ آئے ہیں۔

اس شعر کو پڑھ کر دل میں ہوک اٹھتی ہے کہ ایسے شاعر کے متعلق معلومات حاصل کی جائے، اس کے سوز و ساز میں ڈوب کر دیکھا جائے، اتفاق سے – اقبال کے معاصرین- از: محمد عباللہ قریشی صاحب کی کتاب سے مدد ملی اور انہیں سمجھنے کا موقع ملا، اسی سے قلم ملاکر کچھ باتیں لکھی جارہی ہیں– نادر کاکوروی کا پورا نام شیخ نادر علی تھا۔ وہ کاکوروی کے مشہور عباسی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔۱۸۶۷ء میں پیدا ہوےٗ۔اُن کے والد کا نام شیخ حامد علی اور دادا کا شیخ طالب علی تھا۔نادر کے ذاتی حالات بہت کم ملتے ہیں،دنیا نے اُنھیں فراموش کر دیا ہے، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا انتقال ۲۰ اکتوبر ۱۹۱۲ء کو عین جوانی کے عالم میں ہوا اور لوگوں نے ان کی ذات سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ یک دم خاک میں مل گئیں، مگر نادر ساری عمر اس بات کے گلہ مند رہے کہ انھیں سازگار ماحول میسر نہ آیا، کوئی قدردانِ سخن نہ مل سکا:

نادر افسوس! قدردانِ سخن

ایک ہندوستان میں نہ رہا

یہ بات ان کی شاعری سے بھی جھلکتی ہے، ان کی زندگی کا اثر ایک ایک لفظ سے ٹپکتا ہے، جسے نہ وہ کسی سے کچھ کہہ سکے، نہ کوئی ان کی بات سمجھ سکا:

پھیر لیتا ہے مکدر ہو کے منہ، وہ ہم کس سے کہیں

ہاےٗ جو جی پر گزرتی ہے، وہ ہم کس سے کہیں

نادرؔ اس محفل میں ہیں وہ نام کے صدر انجمن

آپ کو کہنا ہو جو کچھ اہلَ مجلس سے کہیں

مگر پھر اہل مجلس سے شکایت بھی کرتے ہیں، انہیں حقیقت کا آئینہ دکھاتے ہیں کہ وہ اگرچہ ان کا ظاہراً احترام. کرتے ہیں لیکن وہ شرپسندوں میں سے ہیں، ان لوگوں کی طبیعت میں شر ہے، وہ مخلص نہیں، چنانچہ کہتے ہیں:

میں سمجھا تھا مرے حق میں دعاے خیر کرتے ہو

مجھے تم کوستے ہو ہمدمو،اندھیر کرتے ہو

دراصل وہ زمانہ ایسا تھا کہ ہندستان میں ہنر کا قدردان ہی کوئی نہ تھا اور اگر تھا بھی تو اپنے فرائض سے غافل تھا، علامہ اقبال بھی انھی حالات سے گذر رہے تھے۔وہ خود کہتے ہیں:

ذوقِ گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں

میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں

اس لحاظ سے دونوں شاعر ایک ہی کشتی میں سوار تھے۔ان کی سوچ کے دھارے بھی یکساں ہی تھے۔چناچہ نادر نے اپنی نظم، شاعری میں ایک شعر یوں کہا ہے:

تو مرے قابل نہیں ہے،میں ترے قابل نہیں

مجھ کو جو سامان ہیں درکار،وہ حاصل نہیں

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پہلا مصرعہ یا تو اقبال کے ایک مصرعہ سے ٹکرا گیا ہے یا تضمین کیا گیا ہے۔ اقبال نے اپنی نظم ؛رخصت اے بزمِ جہاں؛ میں یوں کہا ہے:

رخصت اے بزمِ جہاں سوے وطن جاتا ہوں میں

آہ! اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں میں

 

بس کہ افسردہ دل ہوں، درخودِ محفل نہیں

تو مرے قابل نہیں ہے، میں ترے قابل نہیں

نادرؔ کو البتہ اس بات کا افسوس ہے کہ وہ قوم کو کوئی پیغام نہ دے سکے، شاید اس کی وجہ ان کے ناگفتہ بہ حالات تھے، جس سے وہ زندگی بھر جوجھتے رہے، وہ فرماتے ہیں:

شکایت کر کے غصہ اور ان کا تیز کرنا ہے

ابھی تو گفتگوے مصلحت آمیز کرنا ہے

یہ دنیا جاے آسائش نہیں ہے، آزمائش ہے

یہاں جو سختیاں تجھ پر پڑیں انگیز کرنا ہے

غزل خوانی کو اس بزم میں آیا نہیں نادرؔ

تجھے یاں وعظ کہنا، پندِ سود آمیز کرنا ہے

اگر موت انھیں مہلت دیتی تو شاید وہ دنیا کو کوئی سود مند پیغام دے جاتے، مگر اب تو ان کے ذاتی جوہر ہی نہیں پہچانے جا سکے اور دنیا نے بھی انھیں وہ کچھ نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے۔لے دے کے ایک اقبالؔ تھے کہ وہ اپنا رازِ دل بتا سکتے تھے۔انھی کی طرف وہ نظریں اُٹھا اٹھا کے دیکھتے تھے اور کبھی کبھی ان کی آواز میں آواز ملاتے تھے،چناچہ اقبالؔ کی نظم – شمع – دسمبر ۱۹۰۲ء کے مخزن میں شائع ہوئی جو اسطرح شروع ہوتی ہے:

بزمِ جہاں میں میں بھی ہوں اے شمع! دردمند

فریاد درگرہ صفتِ دانہٗ سپند

دی عشق نے حرارتِ سوزِ دروں تجھے

اور گل فروشِ اشکِ شفق گوں کیا مجھے

ہو شمعِ بزمِ عشق کہ شمعِ مزار تو

ہر حال اشکِ غم سے رہی ہم کنار تو

تو اس سے متاثر ہو کر نادر کاکوری نے نظم – شمع مزار- لکھی جو – خدنگِ نظر- میں ماہِ جنوری ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی۔اس میں نادر نے بھی اپنے آپ کو اقبال کی طرح دردمند ظاہر کیا ہے:

بیٹھی ہے کس سکوت میں شمعِ مزار تو؟

اے شمع کس شہید کی ہے تکیہ دار تو؟

کیا تیرا دل بھی میری طرح درد مند ہے؟

تجھ کو بھی کنجِ شاِ غریبی پسند ہے؟

اس تیرہ روزگار و پُرآشوب دور میں

دو تیرے درد مند ہیں اقبال اور میں

اس میں کوئی شک نہیں کہ نادرؔ کی شاعری کی عمر بہت کم رہی؛ کیونکہ ۲۰ اکتوبر ۱۹۱۲ء کو پنتالیس برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا،لیکن وہ اپنے زمانے کے اچھے پڑھے لکھے، باوضع، نیک، شگفتہ مزاج، ملنسار اور محبِ وطن انسان تھے۔ انگریزی زبان و ادب کے رموز و نکات سے خوب واقف تھے، انھوں نے لارڈ بائرن اور سر ٹامس کی بعض انگریزی نظموں کے نہایت لاجواب منظوم ترجمے کیے۔طبعِ خداداد کے جوہر بھی دکھاےٗ اور نیچر کی شاعری کے کئی قابلِ قدر نمونے بھی یادگار چھوڑے۔ ان کی شاعری میں بلا کی سادگی اور پُرکاری ہے، غرض:

اس خرابے سے کوئی گزرا ہے نادرؔ نام بھی

جابجا دیوار پر اشعار ہیں لکھے ہوئے

نادرؔ اپنی رفیقہ حیات کے انتقال کے بعد رنجور و مغموم رہتے تھے۔اس زمانے کے کلام میں حقائقِ حیات اور درد و سوز کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے۔مندرجہ ذیل اشعار ان کے وارداتِ قلبی کا حقیقی عکس ہیں:

نوا سنجی کو کیا کچھ بلبلیں اس باغ میں کم تھیں

مجھے تکلیف ناحق دی چمن پیراےٗ عالم نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے چارہ گر! دوا کر، سودا تجھے ہوا ہے

مجھے کو سنبھالتا ہے، اب مجھ میں کیا رہا ہے

دل ہے مگر کہاں اب اس میں ہجومِ ارماں

گھر رہ گیا ہے لیکن اُجڑا ہوا پڑا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب نہ حسرت،نہ یاس ہے دل میں

کوئی بھی اس مکان میں نہ رہا

 

کیا شکایت جو کٹ گےٗ گاہک

ممال ہی جب دکان میں نہ رہا

 

مر کے رہنا پڑا اب اس میں آہ

جیتے جی جس مکان میں نہ رہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وفات سے کچھ دن قبل مرضِ خناق میں مبتلا ہو گےٗ تھے۔ لکھنؤ کے مشہور ڈاکٹروں سے مشورہ کیا مگر کوئی علاج پوری طرح سودمند نہ ہوا۔آخر کار حافظ عبدالکریم سب اسسٹنٹ سرجن ملیح آباد نے آپریشن کیا ۔گردون پر نشتر سے شگاف کیا جا چکا تھا مگر نادر کے حوصلے اور ضبط کی کیفیت یہ تھی کہ اس وقت بھی اپنے دکھ درد سے بے نیاز فکرِ سخن میں محو تھے، آپریشن کے بعد اپنے ہم وطن دوست مولانا صفیر بلگرامی کو اپنے حال کی اطلاع دیتے ہوےٗ لکھا:

ہوتے ہیں بیمار سب، پر تم نے سادھی ایسی چُپ

حال بھی کہتے نہیں نادر، تم اپنا صاف صاف

 

ہاےٗ میں کم بخت حال اپنا کہوں تو کیا کہوں

ایک زخم اندر گلے کے،اور ایک باہر شگاف

نزع کی شب نادر کے چھوٹے بھائی مولوی شاکر علی نے، جو ان کی تیمارداری کر رہے تھے، ایک مصرع پڑھا:

قفس میں مرگ بسمل یوں تڑپنے کا مزا کیا ہے

نادرؔ نے سنتے ہی فی البدیہہ مصرعِ ثانی کہہ کے شعر مکمل کر دیا:

قفس میں مرغِ بسمل یوں تڑپنے کا مزا کیا ہے؟

نکل جانِ حزیں اس جسمِ خاکی میں دھرا کیا ہے

نادرؔ نے آزادؔ اور حالیؔ کے لگاے ہوے نظمِ جدید کے پودے کی خونِ دل سے آبیاری کی اور مغربی خیالات اور انگریزی کی لطافتوں کو نہایت سلیقے سے اردو میں سمونے کی کامیاب کوشش کی، ان کی بعض نظمیں بہت مقبول ہوئیں؛ مثلا رات کے بے چین لمحے،اے ہمصفیر میرے سینے میں دل نہیں، اکثر شبِ تنہائی میں،بوڑھے دنیا پرست کی موت،حسن و عشق، شمع و پروانہ، شعاعِ امید، پیکرِ زبان، فلسفہ شاعری، سیرِ دریا وغیرہ۔ ان کے کلام کا مجموعہ (جذباتِ نادر) کے نام سے دو حصوں میں شائع ہو چکا ہے، سر ٹامس مور کی مشہور کتاب (لائٹ آف دی حرم) کی طرز پر ایک مثنوی بھی لکھی تھی جس کا نام انھوں نے (لالہ رخ) رکھا تھا۔یہ بھی اب جذباتِ نادر میں شامل ہے۔ اتنا کچھ کہنے کے باوجود ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔اس کو اگر کسی نے پہچانا تو وہ صرف اقبالؔ کا دلِ درد مند اور ذوقِ آشنائی تھا۔اقبال نے انھیں اپنا (ہم سخن) اور (ہم صغیر) کہہ کر (تثلیت فی التوحید) میں شامل کیا۔ گویا اقبال کے نزدیک نادر اور نیرنگ شاعری میں انہی کے خاندان کے فرد تھے:

نادرؔ و نیرنگؔ ہیں اقبالؔ مرے ہم صفیر

ہے اسی تثلیث فی التوحید کا سودا مجھے

ہو نہیں سکتا کہ یہ محبت اور قدر افزائی یک طرفہ ہو اور ان ہم آوازوں میں دلوں کا تبادلہ نہ ہوتا ہو۔میر غلام نیرنگؔ بھیک کے نام تو اقبالؔ کے چند خطوط مل بھی جاتے ہیں مگر افسوس! کہ نادرؔ کے نام اقبالؔ کا کوئی خط ہم تک نہیں پہنچ سکا۔بہرحال یہ تو اقبال کے شعر ہی سے ظاہر ہے کہ نادر کاکوری نہایت اخلاص اور عقیدت کو دور ہی سے دیکھتے رہے اور ملنے کی حسرت اپنے ساتھ قبر ہی میں لے گئے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ اعلی مقام عطا کرے آمین:

پاس والوں کو تو آخر دیکھنا ہی تھا مجھے

نادرِ کاکوری نے دور سے دیکھا مجھے

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.