اویسی تیرے حوصلے کو سلام

 

از: محمد اللہ قیصر

2014 سے پہلے کے مناظر یاد کیجئے ، مودی آرہا ہے، کا شور ہر طرف گونج رہا تھا، مسلمانوں کو خوف کی اندھیری کوٹھری میں دھکیلنے کیلئے ہر اسٹیج سے یہی ایک آواز سنائی دے رہی تھی کہ "مودی آیا تو مسلمانوں کا کیا ہوگا” اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی اکثریت خوف کی کال کوٹھری میں بند ہوگئی” مودی آیا ،فرقہ پرستی پہلے کے مقابلہ بڑھ گئی، ماحول مسلسل زہر آلود ہورہا تھا، کہیں سے دھمکی کہیں سے گالی، سب کچھ سنائی دے رہے تھے، مسلم قیادت خاموش، علماء، سیاسی لیڈران سب پر سکتہ طاری، جلسہ کر کے حکومت کو آنکھ دکھانے والے بڑی بڑی تنظیموں کے سربراہان سب "ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم” کہ تصویر بنے تھے، یوں کہئے ایک "ہو” کا عالم تھا، ہر طرف ڈراؤنے منا ظر تھے، یہاں مآب لنچنگ، وہاں گالی گلوچ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر آلود تقریریں، کبھی پاکستان کا نام لیکر تو کبھی بغاوت کا الزام تھوپ کر، کبھی دہشت گردی سے جو ڑ کر، ہر ممکن طریقے اختیار کئے جا رہے تھے کہ، مسلمانوں میں خوف و ہراس اس درجہ بیٹھ جائے کہ وہ اپنی حق تلفی پر چوں تک نہ کر سکیں، بلکہ کسی حادثہ کے بعد دل کو بہلانے کیلئے ظالم کے بجائے خود کو مجرم مان کر خاموش بیٹھنے پر مجبور ہوجائیں، ظلم چاہے جس قدر ہو، وہ "آہ” کرنے سے بھی گھبرائیں، ایسے حالات تھے جو فطری طور پر خوف زدہ "بکری کے گلوں” کو مزید ہراساں کر رہے تھے، اس پورے کھیل کے پیچھے یہی اصل منصوبہ تھا کہ ڈرا سہما کر اتنا پژمردہ کردو کہ ہر کوئی صرف اپنی جان کی سلامتی کی دعا کرے، اپنی بے بسی کو اپنی قسمت سمجھ کر جینا سیکھ لے، زندگی کی بھیک تو مانگے لیکن جد و جہد کی فکر سے اس کا وجود لرز جائے، اور ایک دفعہ ایسا ہوگیا تو دفاع کی صلاحیت از خود ختم ہو جائے گی ، پھر اس کا شکار کرنا ایسا ہوگا جیسے جال میں پھنسے پرندوں کو دبوچنا آسان ہوتا ہے۔

فرقہ پرستوں کے مقابلہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں ہیں، جو سیکولرزم کی حفاظت کے بجائے مسلسل نرم ہندوتوا کی طرف مائل ہونے میں ہی عافیت محسوس کر رہی ہیں، ان کو خوف ہے کہ کہیں ہندو ووٹ ان سے پوری طرح کھسک نہ جائے، مسلمانوں کی یاد انہیں صرف الیکشن میں آتی ہے، بقیہ مکمل 5 سال مسلمانوں پر ظلم و تشدد ان کے یہاں معمولی حادثہ ہے، دہلی کی مثال ہمارے سامنے ہے ، مسلمانوں نے ایک متبادل دیکھ کر ایک خاص پارٹی کو یک طرفہ ووٹ دیا، لیکن کیا ہوا، فساد، خون ریزی پھر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری، مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ میں کہیں نہیں لگا کہ یہاں مشہور فرقہ پرست پارٹی کی حکومت نہیں ہے

یعنی ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے،

کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

کھلے دشمن کا خوف ہے ہی لیکن خود کو سیکولرزم کا محافظ کہنے والے بھی ہمیں خوف زدہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے، "بی جے پی آجائے گی” یہ ہنگامہ سب سے زیادہ سیکولر پارٹیوں نے کیا، اس کے پیچھے اصل مقصد تھا، مسلم ووٹوں پر قبضہ۔

کون نہیں جانتا کہ جس قوم سے جد و جہد اور دفاع کی صلاحیت مفقود ہوجائے وہ اپنی موت آپ مر جاتی ہے، ایسے برے حالات میں کوئی لیڈر نہیں تھا جو ڈری سہمی قوم کو کم از کم تسلی دے سکے، بلکہ خوف اس قدر گھر کر گیا تھا کہ صرف تسلی بھی نا کافی تھی، دنیا جانتی ہے جب خوف اعصاب پر سوار ہوجائے، تو محض تسلی اس کا مقابلہ نہیں کرپاتی، جوش، ولولہ، ہمت و حوصلہ کی جھڑکی سے ہی خوف کا زور ٹوٹ سکتا ہے،” دل کی دھڑکن جب زیادہ سست پڑتی ہے تو "شارٹ” دیتے ہیں، "بیٹری اگر مکمل ٹھنڈی پڑجائے تو بجلی کا شارٹ ہی کام کرتا ہے” ہماری قوم اور اس کی قیادت کچھ اسی طرح ٹھنڈی پڑ رہی تھی، اویسی آئے اور وہ ہندستان بھر میں گھوم گھوم کر اپنی قوم کو "جھڑکی” دیکر خوف سے پیدا ہونے والی غنودگی سے بیدار کرنے کی کوشش میں جٹ گئے، انہیں جنجھوڑکر کر جگانے میں لگ گئے، پارلیمنٹ سے پورے ہندستان کو یاد دلایا کہ ملک کا قانون بلا تفریق مذہب و ملت ہر شہری کو یکساں حقوق فراہم کرتا ہے، جب کبھی ملکی آئین کے روح کے منافی بل پیش ہوا تو بھرپور دلائل کے ساتھ اپنی مخالفت درج کرائی، مسلمانوں پر مظالم ہوئے تو انصاف کیلئے بھیک مانگنے کی بجائے ظالموں کو للکار کر کہا کہ اپنی قوت پر مت اتراؤ کہ اس کائنات کا مالک تم سے بھی بڑی قوت والا ہے، اور اس کی پکڑ بڑی سخت ہے، مظلوموں کو حوصلہ دیا کہ اپنے حقوق کی خاطر جمہوری جنگ تمہارا آئینی اور پیدائشی حق ہے، اسلئے، تھک ہار کر بیٹھو مت، اٹھو، لڑو، بھرو، کہ جد و جہد کے بغیر زندگی بے معنی ہے،

اک جہد مسلسل ہے یہ کار گہ دنیا

ہم پھولوں کے بستر پر آرام نہیں کرتے

اور ظالموں کو آئینہ دکھاؤ، جو لوگ مذہب کا سہارا لیکر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر تشدد روا رکھتے ہیں ان کو نصیحت کی کہ اپنے مذہب کی غلط تشریح کرکے اسے ترقی نہیں دے سکتے، ہاں! بدنامی میں اضافہ ضرور ہوگا۔

اس دوران اویسی کو "اپنوں” کا سہارا کیا ملتا، وہ الٹا برس پڑے، "اتنا چیخ کر مت بولو، وہ ناراض ہو جائیں گے” کی نصیحت کی جانے لگی، ” آپ نے کبھی ایسا منظر دیکھا ہے کہ چاروں طرف سے دشمنوں نے گھیر لیا ہو، ایسے میں اگر کسی کے سانس کی آواز بھی تیز ہوتی ہے، تو دوسرے لوگ، منہ ہر انگلی رکھ کے اسے آہستہ سانس لینے کی ہدایت کرتے ہیں، ایسا تب ہوتا ہے جب مقابل کی ناقابل تسخیر قوت اور اپنی بیچارگی کا مکمل یقین ہوجائے، جب انسان یہ سونچ لے کہ جد و جہد کی ہماری ادنی کوشش ہمارے وجود کو حرف غلط کی طرح مٹادینے کیلئے کافی ہوگی، اسلئے جس حال میں ہیں اسی حال میں "الامان و الحفیظ” کا ورد کرتے رہی ۔ اسی میں عافیت ہے، یہی حال تھا مسلمانوں کا، اور اب بھی ایک بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا ہے، جس کو دیکھو اویسی کو کوسنے میں لگا ہے، اور ہر کسی کی دلیل یہی تھی کہ اکثریت اقلیت سے ناراض ہوجائے گی، واہ، یعنی ظلم کو ظلم کہنا بھی جرم ٹھہرا، لیکن سلام ہے اویسی کے حوصلے کو، اپنوں کی بزدلی، اور غیروں کی ناراضگی کی پروا کئے بغیر، اپنی قوم کو جھنجھوڑتے رہے، باالآخر کم از کم وہ ڈر کا ماحول بہت حد تک ختم ہوا، لوگوں نے خوف کی بیہوشی کو جھٹک کر یہ سوچنا شروع کیا کہ ہمارے ملک کا قانون جب ہر کسی کو یکساں حقوق فراہم کرتا ہے تو کیوں نہ ہم اسی آئین کو ہتھیار بناکر اپنے مخالفین کا مقابلہ کریں، جمہوریت کا سہارا لے کر ہم اپنے حقوق کا مطالبہ کریں، اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، تشدد اور فرقہ واریت کی آگ میں جھلسے بغیر ظلم و تعدی کا مقابلہ ممکن ہے،

خوف کا ایک انجام طے ہے "اپنے وجود کا خاتمہ” لیکن جد وجہد میں امکانات بڑھ جاتے ہیں، ناکامی کی صورت میں ظلمت کا خوف بھی ہے لیکن کامیاب ہوئے تو روشنی ہی روشنی جس کا امکان زیادہ ہے، لوگوں نے سوچنا شروع کیا کہ کسی نہ کسی کو "جدوجہد "کی چکی میں پسنا تو پڑے گا، ہم نہیں تو ہماری نسلیں، اپنی عافیت کی فکر ہماری نسلوں کو زندہ درگور کردے گی، تو اپنی نسلوں کی حفاظت کیلئے کیوں نہ ہم ہی اس آگ کو بجھانے کی کوشش کریں، جبکہ ابھی آگ کی تپش بھی بہت تیز نہیں، وقت گزرنے کے ساتھ وہ شدید تر ہو سکتی ہے۔

اویسی آج بھی اپنوں کے ستم اور غیروں کے غضب کا نشانہ بن رہے ہیں، لیکن سب کچھ برداشت کرتے ہوئے، وہ ایک دیوانے کی طرح گھوم گھوم کر اپنی قوم کو یہ پیغام

دینے میں مگن ہیں

کہ :ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کے دریا پار کرو؛

ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اب بھی ہمارے لئے مسئلہ ہمارا وجود ہے، دین و ایمان یے، مقامی مسائل ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، وجود رہے گا تو سڑکیں، اور دیگر سہولیات کی ضرورت رہے گی، ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اصل حملہ ہمارے وجود پر ہے پھر بھی ہمیں فکر نہیں تو اس بے فکری پر حیرت کے علاؤہ کچھ نہیں کرسکتے، آنکھ بند کرکے بیٹھ جانے سے خطرہ ٹل نہیں جاتا۔

اسدالدین اویسی نے یہی سکھایا ہے کہ حالات کا مقابلہ کرو، شتر مرغ کی طرح نظریں چھپا لینا، مسئلہ کا حل نہیں یے، ہندستان کی آزادی سے لیکر تعمیر میں ترقی میں ہمارا کردار کسی سے کم نہیں پھر بھی تعصب و تنگ نظری کا نشانہ اسلئے بنے کہ ہم ایک سیاسی پلیٹ فارم پر نہیں ہے، اگر ہمیں اپنا وجود اور دین و ایمان محبوب ہے تو سیاسی قوت پیدا کرنی ہوگی، لڑنا بھرنا، مسئلہ کا حل نہیں بلکہ اصل اہمیت سیاسی قوت کی ہے

Comments are closed.