حجاب سے نفرت: یہ کیسا دوغلاپن ہے۔

از: محمد اللہ قیصر
ابھی تو آغاز ہے، کچھ دنوں میں یہ نیشنل موضوع بنے گا، بحث ہوگی، مسلم مخالفین حجاب کے خلاف اپنی بھڑاس نکالیں گے، کچھ ", بزعم خود مسلم اسکالر” کہیں گے کہ یہ اسلام کا کوئی بنیادی حکم نہیں یہ تو بس ایک کلچرل روایت ہے، جبکہ خواتین کیلئے حجاب فرض ہے، واضح رہے کہ نام نہاد اسلامی اسکالرز اسلامی تعلیمات کو اسلامی اصول کے بجائے اپنی عقل کی روشنی میں پیش کرتے ہوئے ذرا نہیں ہچکچاتے، خدا پر یقین کا دعویٰ تو ہوتا ہے لیکن اس کے احکامات میں سیندھ ماری کر کے خالق و مالک پر افترا بازی کے وبال کا خوف بالکل نہیں ہوتا۔ بہر حال یہاں حجاب کی شرعی حیثیت اور لبرلز کے ذریعہ اس حیثیت کو مشتبہ کرنے کی کوششوں سے بحث نہیں، یہاں مسئلہ ہے حجاب پر غیروں کی ٹیڑھی نگاہ اور اس کے خلاف کاروائی کا۔
آج کی دنیا ایک طرف تو خواتین کی مکمل خود مختاری اور آزادی کا دعوی کرتی ہے، حقوقِ نسواں کی حفاظت کے علمبردار چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ خواتین اپنے ہر عمل کیلئے مکمل آزاد ہیں، رہن سہن، لباس، طور طریقے آپسی تعلقات سب کچھ اس کی ذاتی مرضی پر موقوف ہیں، اس کی روح، اس کا جسم اس کی مرضی، وہ اپنے کسی عمل کیلئے، کسی کی طرف سے، کسی ہدایت کی محتاج نہیں، لہذا لباس کے انتخاب میں بھی "مکمل آزاد” اور "خود مختار” ہیں، اس کا مطلب ہے کہ کپڑوں کا اختیار اس کی مرضی کے تابع ہے، کوئی خاتون چاہے تو سر کے بال سے ناخن تک کپڑوں میں چھپالے اور چاہے تو جسم کھلا رکھے، اس کی مرضی، حقوقِ نسواں کے علمبردار ایک طرف یہ نعرہ لگاتے ہیں لیکن دوسری طرف مسلم خواتین کے حجاب پر ہمیشہ ہی ان کی پیشانیاں شکن آلود رہتی ہیں، یہ ان کا دوہرا رویہ ہے، جب خواتین کو اپنے لباس کے انتخاب کا مکمل حق ہے تو پھر حجاب اپنانے والی خواتین پر اعتراض کیوں؟ اگر کسی کو سر کھلا رکھنے کی اجازت ہے تو ڈھکنے کی اجازت کیوں نہیں؟ ایک طرف "آزادی انتخاب” کا نعرہ، دوسری طرف اپنی مرضی سے حجاب کرنے والی خواتین پر پابندی کا صاف مطلب ہے کہ "خود مختاری” اور "آزادی” کے علمبردار ڈھونگ کر رہے ہیں، جھوٹ اور فریب کاری کا سہارا لے کر اپنے افکار و نظریات اور اپنے طریقے دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں،تھوپنا چاہتے ہیں، وہ خواتین کو لباس کے انتخاب کی آزادی نہیں دیتے بلکہ اپنے طے شدہ لباس پہننے پر مجبور کرتے ہیں، دوسروں پر خواتین کو دبانے اور ان پر اپنی مرضی تھوپنے کا الزام لگاتے ہیں لیکن اپنی مرضی سے حجاب کرنے والی طالبات کو بے حجاب ہونے پر مجبور کرنے کا جرم وہ خود کر رہے ہیں، مسلم خواتین کو حجاب سے روکنا ان کے نزدیک ان کی آزادی میں مداخلت نہیں ہے، ایک طرف "آزادی و خود مختاری” کا دعوی دوسری طرف مسلم خواتین کی آزادی پر حملہ، اسے "حقو نسواں کی حمایت” کے ڈھونگ کی آڑ میں دین اسلام ہر حملہ کے علاؤہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
یہاں مسئلہ ان لڑکیوں کی خود مختاری، آزادی، اور عزت نفس کا ہے، سوال صرف اتنا ہے انہیں اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ یہاں اپنی مرضی دوسروں پر کون تھوپ رہا ہے، ہم ان اسکولوں اور افسروں کی بات نہیں کرتے جن کے یہاں ان کا اپنا مخصوص ڈریس ہوتا ہے، ظاہر ہے، ہمیں ان کے طے شدہ نظام میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں، ہمیں پسند نہیں تو ان سے خود کو الگ کر لیں گے، لیکن ان کے نظام میں دخل اندازی کی کوشش نہیں کریں گے، یہاں مسئلہ سرکاری اسکول و کالجز کا ہے جب سرکار نے ڈریس کوڈ مقرر نہیں کیا، نہ اس میں صراحت کی ہے کہ سر چھپانا یا کھولنا ضروری ہے یا نہیں، سر کھول کے بھی آسکتی ہیں اور چھپا کر بھی، تو پھر سر کھولنے پر اصرار کیوں کیا جارہا ہے؟ یہاں قانون شکنی کا ارتکاب کون کر رہا ہے؟ مسلم طالبات یا قانون کے نام نہاد محافظ؟ یقینا اسکول انتظامیہ قانون شکنی کا جرم کر رہی ہے، جب ہر انسان کو اپنی مرضی کے لباس کی اجازت ہے تو ان مسلم طالبات کو کیوں نہیں؟
حجاب کے مخالفین حجاب کو موضوع بحث بناتے ہیں اس کے مفید اور مصر ہونے پر گفتگو ہوتی ہے، اور ہم خواہی نہ خواہی اس کا حصہ بن جاتے ہیں، کسی چیز کو مختلف فیہ بنانے کا آسان طریقہ ہے کہ اس کو موضوع بحث بنادو، پھر ایک دن موقع دیکھ کر اس پر شب خون مارکر ختم کردو، یہاں بات بہت سیدھی ہے ان مخالفین کی نظر میں خواتین کی ترقی ان کی بھلائی کوئی معنی نہیں رکھتی، اگر انہیں خواتین سے ہمدردی ہوتی تو دنیا بھر میں خواتین کے حقیقی مسائل پر توجہ دیتے، خواتین کی کرامت و شرافت کا خیال رکھتے، بچوں کو ان کے احترام کا سبق سکھاتے، نہ کہ ڈانس کمپٹیشن کراکے پہلے دن سے ان معصوم دماغوں میں یہ گندگی انڈیلتے کہ آرٹ کے نام پر صنف نازک کی عصمت سے کھیلنا تمہارا پیدائشی حق ہے، ان کی عفت و عصمت کی حفاظت کرتے نہ کہ اسے فنکاری کے نام پر بازار حسن کا بکاؤ مال بناتے، اپنا کپڑا بیچنے کیلئے اس کی آدھی ننگی تصویروں پر سامان تجارت کی نمائش نہ کرتے، گھریلو مسائل، تنگ دستی و محرومی کے ہاتھوں مجبور خواتین کا آسرا بنتے، حقیقت تو یہ ہے کہ حقوق نسواں کے یہ علمبردار خواتین کی عفت و عصمت کے سب سے بڑے تاجر ہیں، یہ تو بغیر عوض کے کسی مجبور و بے سہارا خاتون کا سہارا بھی نہیں بن سکتے۔
سوال ہے کہ انہیں حجاب سے چڑ کیوں ہے، صاف صاف کہا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ حجاب سے نفرت کی وجہ دین اسلام سے نفرت ہے، یہ کھیل کوئی نیا نہیں، بہت پرانا ہے، اس نفرت سے انسانیت کو جو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں وہ لاتعداد ہیں، خدا کے احکامات کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کیلئے خود خدا کا انکار کر بیٹھے، اور انسانیت کی توہین کرتے ہوئے اشرف المخلوقات کو ایک جانور کی ترقی یافتہ شکل ثابت کرنے پر تل گئے، خدا کا انکار کیا تو اس کے احکامات کیسے قبول کرتے، لہذا زندگی سے متعلق الہی احکامات و اصول کے مساوی اپنے اصول وضع کرنے بیٹھ گئے، یہ بھی نہیں سوچا کہ زندگی پیدا کرنے والے کے احکامات فطرت کے مطابق ہوں گے نہ کہ عقل کے بنائے اصول، بے چاری عقل تو خود ایک مخلوق ہے، لہذا وہ فطری تقاضوں کو سمجھنے کیلئے خود ہی دوسرے کے ہدایات و تعلیمات اور توفیق کی محتاج ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ہر چیز میں الٹے سیدھے، اور فطرت کے متصادم اصول دنیا کے سامنے پیش کئے جو خواہشات کے مطابق تو تھے، لیکن فطرت سے متصادم، ، اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ زندگی کے کسی گوشہ سے متعلق عقل کے خود ساختہ اصول اعتدال پر قائم نہیں، ان میں حدود کی رعایت بالکل نہیں پائی جاتی، عقل فطرت پر نہیں خواہشات کی بنیاد پر فیصلہ کرتی نظر آتی ہے، اس لئے اس کے قائم کردہ اصول و قوانین فطرت سے ٹکراتے نظر آتے ہیں، اور جہاں فطرت کا تصادم ہوگا وہاں فساد کا ظہور یقینی ہے، مسئلہ حجاب میں بھی اسلامی احکامات فطرت کے تقاضوں پر مبنی ہیں، خالص عقلی بنیادوں پر بھی غور کیا جائے تو پردے کا مسئلہ عین مقتضائے عقل کے مطابق ہے، جبکہ تہذیب جدید کے اصول و ضوابط خواہشات پر، انسان پیدائش کے بعد جیسے جیسے بڑھتا ہے وہ خود کو ڈھانکتا چلا جاتا ہے، جسم کو چھپاتا ہے، ہاں جانور اپنے جسم کو ہمیشہ ہی کھلا رکھتے ہیں، ہاں موسمیاتی تبدیلیوں- گرمی سردی- کے نقصانات سے بچنے کیلئے جسم کو چھپانے کی ضرورت ہوتی ہے، تو ان کیلئے روئیں کی شکل میں خالق نے پہلے ہی انتظامات کردئے ہیں، جبکہ انسان کی فطرت میں کپڑے کی ضرورت کا احساس پیدا کردیا، اسے صرف گرمی سردی سے بچنا نہیں ہے، اسے تو سماجی شیطانوں کی نظروں سے، اختیاری طور پر اپنی کرامت و شرافت، اور عفت و عصمت کی حفاظت بھی کرنی ہے، وہ اشرف المخلوقات ہے اسلئے اپنی شخصیت کے وقار اور قدر و منزلت کا لحاظ بھی رکھنا ہے، جو علم و اخلاق، اور سلوک و اطوار میں بلندی کے ساتھ ظاہری وضع قطع میں حشمت و حیا کے بغیر ناممکن ہے، بہر حال یہاں حجاب کی حکمتوں سے بحث مقصود نہیں ہے، یہ ایک وسیع موضوع ہے، اور اہل دانش نے اس ربانی حکم کی حکمتوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
یہاں یہ بتانا ہے کہ اسلام سے نفرت کرنے والے ہمیشہ دو رخے ثابت ہوئے ہیں، ان کے قول و عمل میں ہمیشہ تضاد ہوتا ہے، ایک ہی چیز کو دو نظروں سے دیکھنے کے عادی ہوتےہیں، یہی حجاب دوپٹہ اور ساڑی کے پلو کی شکل میں اگر کسی "نن” کسی "سادھوی” یا کسی اور غیر مسلم خاتون کے سر پر ہو تو "سنسکار””مریادا” "تہذیب” "ادب و احترام” اور مسلم خاتون کے سر پر، "پچھڑے پن کی نشانی”، "روایت پسندی” ” قدیم تہذیب کی حفاظت” "ترقی میں رکاوٹ” یہ ہے ان "روشن دماغوں” کا فکری و عملی تضاد۔
یہاں مجھے اپنوں سے بھی شکایت کرنی ہے، ہم جانتے، بوجھتے، سمجھتے ہیں کہ ہمارے سامنے مسائل کا انبار ہے، ان ہی میں سے ایک اہم اور نمایاں مسئلہ دینی ماحول میں بچیوں کی تعلیم کا رہا ہے، ہمیشہ اس پر گفتگو ہوئی ہے، جب بھی کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آیا ، جلسوں میں زوردار تقریریں ہوئیں، مسجدوں میں تلقین ہوئی، چائے پر چرچا ہوئی، سب نے سر ہلا کر اس ضرورت کی شدت کی تصدیق میں سر ہلایا، پھر سب خاموش، آخر کیوں؟، ایسا کیوں کرتے ہیں؟ عملی اقدام کب کریں گے، جانتے ہیں کہ دشمن مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے، وہ اپنی گھٹیا حرکتوں سے باز نہیں آسکتا تو پھر صرف چیخنا چلانا کس کام کا، منصوبہ بند طریقہ سے اسکولوں کا قیام کب کریں گے، کیا اتنا بھی احساس نہیں کہ تعلیم بنیادی ضرورت بن چکی ہے، اگر آپ اس کا انتظام نہیں کریں گے تو لوگ کہیں اور سے حاصل کریں گے، اور وہاں ان کا نظام ہوگا ان کے شرائط ہوں گے، متبادل پیش کئے بغیر ہر آواز صدی بصحرا ثابت ہوتی ہے، چیخنا شور مچانا بے فایدہ لا حاصل ہوتا ہے۔ کئی والدین سے گفتگو ہوئی، بتایا بچیاں اسکول کے گیٹ تک حجاب کے ساتھ جاتی ہیں اور اسکول میں داخل ہوتے ہی حجاب اتارنا پڑتا ہے، میں نے پوچھا ایسے اسکول میں کیوں بھیجتے ہیں جہاں حجاب کی اجازت بھی نہیں ہے، ان کا درد تھا کہ ایسے اسکول اور کالجز ہیں ہی نہیں جہاں دینی ماحول میں اپنے بچے بچیوں کو تعلیم دلا سکیں، لہذا ہمارے بچے غیر دینی ماحول میں، غیر اسلامی لباس کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، وسائل کا رونا مت روئیے، منظم اور منصوبہ بند طریقے پر ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں، لیکن کردار کے غازی تو اس دنیا سے چلے گئے، گفتار کے غازی رہ گئے ہیں، اس شگاف کو جب تک بند نہیں کریں گے پانی رستا ہی رہے گا۔
اور غضب تو یہ ہے کہ حالیہ واقعہ میں زباں بندی کا عجب نظارہ دیکھنے کو ملا ہے، ملت کے بہی خواہ اور امت نگہباں کہے جانے والے مصلحت پسند ٹولے نے اژدہوں سے لڑ جانے والے "چوزوں” کی حمایت میں چوں تک نہیں کیا، مصلحت یہی رہی ہوگی کہ انتخابات ہیں، اسلئے خاموشی بہتر ہے ورنہ اکثریت ناراض ہو جائیگی، تو ہم ہار جائیں گے، سوال ہے کہ "ہم” ہار جائیں گے، یا "ہمارے آقا”؟ جن کے رحم و کرم پر اب تک ہم "زندہ” ہیں، وہ نہیں ہوتے تو سرزمین ہند سے اسلام کا خاتمہ ہو چکا ہوتا، (نعوذ باللہ من ذالک)
کرناٹک کی طالبات کے والدین قابل مبارکباد ہیں، انہوں نے اپنی لخت جگر کی تربیت ایسے کی کہ وہ حق تلفی کرنے والوں اور آزادی میں مداخلت کرنے والوں کے سامنے جھکے بغیر لڑتی رہیں، اللہ انہیں ثابت قدم رکھے
Comments are closed.