عزیمت و استقامت کا عکس ہے تو

طاہر ندوی
بصیرت آن لائن
ہندو قوم پرست پالیسیوں اور ہندوتوا نظریہ کی لیبارٹری کہے جانے والی ریاست کرناٹک میں گزشتہ کئی دنوں سے حجاب اور برقعہ کو لے کر تنازع بنا ہوا ہے۔ جو تنازع اڈپی کے گورنمنٹ ویمنس پی یو کالج سے شروع ہوا تھا اب رفتہ رفتہ دیگر اسکول اور کالجز تک جا پہنچا ہے۔ سوشل میڈیا سے ملی اطلاع کے مطابق پی ای ایس کالج منڈیا کی ایک مسلم طالبہ کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ کالج کیمپس میں داخل ہو رہی تھی یہ دیکھتے ہوئے کچھ گیدڑوں کی جماعت نے بھگوا دھاری روپ دھار کر جئے شری رام کے نعرے لگانے لگے لیکن سلام ہے اس بہن کی ہمت و شجاعت، بہادری اور دلیری پر جو تن تنہا ان گیدڑوں کو للکار رہی تھی اور صدائے تکبیر بلند کر رہی تھی وہ جھکی نہیں، وہ ڈری نہیں، وہ سہمی نہیں، بلکہ عزم و استقلال کا پہاڑ بن کر ڈٹی رہی، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارتی رہی، جس نے تن تنہا غنڈوں، بد معاشوں اور نفرت کے سودا گروں کے منہ پر زور دار طمانچہ جڑ دیا، جس نے تن تنہا منو واد اور برہمن واد کو کرارا جواب دیتے ہوئے یہ بتا دیا کہ ہم اسلام کی شہزادی ہیں ہمارا تعلق حضرت سمیہ جیسی باہمت اور باطل طاقتوں کے آگے نہ جھکنے والی اور دین کی خاطر سب سے پہلا جام شہادت نوش کرنے والی صحابیہ سے ملتا ہے اور حضرت فاطمہ جیسی با حیا اور پاکدامن صحابیہ کو ہم اپنا رول ماڈل مانتے ہیں ہم جان تو دے سکتے ہیں لیکن اپنے دین اسلام اور رسول کی تعلیمات کو چھوڑ نہیں سکتے۔
ایسی عزیمت اور استقامت والی بہن کو سلام ہے لیکن ایک سوال ہے جو ایسے حالات میں اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ ہمارے ملی و مذہبی و قومی رہنما اور قائدین کہاں ہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جو بار بار اٹھایا جاتا ہے اور تنقیدی مضامین بھی لکھے جاتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب مسلم لڑکیوں کو انکے حجاب اور برقعہ پہننے کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے، انہیں گھیر کر جئے شری رام کے نعرے لگائے جا رہے ہیں، انہیں ان کے کپڑے اور لباس کی وجہ سے حصول تعلیم سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو مسلمانوں کی ملی تنظیمیں اور جماعتیں کہاں ہیں؟ مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنے والے کہاں ہیں؟ آپسی بھائی چارگی کا راگ الاپنے والے کہاں ہیں؟ گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کی مثالیں دینے والے کہاں ہیں؟ عدل و مساوات اور برابری کا ڈھونگ رچانے والے کہاں ہیں؟ ایک ہی اسٹیج پر بیٹھ کر مذہب اسلام کی تعریف کرنے والے کہاں ہیں؟ آج خاموش کیوں ہیں؟ آج بولتے کیوں نہیں؟ کرناٹک سرکار کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ کالجز کی انتظامیہ کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟ ان بھگوا دھاری غنڈوں اور بد معاشوں کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہر مسلمان کے دل میں اٹھتا ہے اور اٹھنا بھی چاہئے کہ آج ہماری تنظیمیں کہاں ہیں اور ہمارے قائدین کہے جانے والے وہ رہنما کہاں ہیں ؟
Comments are closed.