بہنا جگانے کا شکریہ

رشحات قلم :مولانا عزیر خان قاسمی اورنگ آبادی
امام وخطیب مسجد یس
اس بہن کو کیا کہوں. سمیہ کی بیٹی کہوں یا زنیرہ کی لخت جگر . اسماء ذات النطاقین کی بیٹی کہوں یا ام عمارہ کی نور نظر . صفیہ عمہ رسول اکرم کی بیٹی کہوں یا خنسا شاعرہ کی لذت نظر. . زینب بنت سید الکونین کی بیٹی کہوں یا زینب ام المصائب کی نور نظر .(رضوان اللہ علیہن اجمعین)
الفاظ پیچھے رہ گئے. القاب کا دامن تنگ ہوگیا. قلم لکھنے سے قاصر ہوا. زبان سوکھ گئی . دماغ نے مغذرت کی. دل مسرت کی وجہ سے گنگ ہوگیا..
اس فتنہ وفساد میں کے زمانے میں. اس یاس وہراس کے دور میں. اس خوف وخطر کے ماحول میں. تونے کیا بہترین دیا جلایا ہے. امید وآس کا دیا . ہمت وشجاعت کا دیا.
خیر القرون جیسی بہادری کا دیا . صحابہ وصحابیات والی قوت کا دیا .اسلاف کی طرح جذبہ شہادت بیدار کرنے والا دیا.
شیروں کو جگانے والا دیا .
بھیڑیوں کو بھگانے والا دیا.. کتوں کو ذلیل کرنے والا دیا. اللہ کے دشمنوں کو رسوا کرنے والا دیا.
غرض کیا لکھوں. کیا سپرد قرطاس کروں. تیری تکبیر سے آنکھیں بھیگ گئی. دل خوشی سے رقص کرنے لگا. تیری عظمت کے سامنے بڑے بڑے چھوٹے ہوگئے. اپنا سراپا دھرتی کا بوجھ محسوس ہونے لگا.
تکیبیر کیا تھی ایک رعد تھی. جس نے باطل کا خرمن جلادیا. ایک بجلی کا کڑکا تھی. جس نے بھگوا گنڈوں کی پول کھول دی.
ایک غیبی آواز تھی جس نے دشمنوں کو زیر کردیا. ایک صور تھی جس نے مسلم نوجوانوں کو ہلادیا.
ایک صدا تھی جس نے پوری امت کو بے چین کردیا. میری بہنا تیری جرأت کو سلام. تیری تربیت کو سلام. تیرے ایمان ویقین کو سلام. تیرے جذبہ شہادت کو سلام. تیری تکبیر کو سلام. تیری عظمت و تقدیس کو سلام.
تیری ہمت وشجاعت کو سلام. وہ آنکھ کہاں سے لاؤں جو تیری رفعت کو دیکھ سکے.
تیری بلندی کو ناپ سکے.
تیرے مقام ومرتبہ کا اندازہ کرسکے. تونے وہ کردیا جو بڑے بڑے القاب والے نہ کرسکے.
جبہ ودستار والے نہ کرسکے. قائد و سالار نہ کرسکے. پابند صوم وصلوۃ نہ کرسکے. ذکر و فکر کا مشغلہ رکھنے والے نہ کرسکے. مجھ جیسے نام نہاد علماء وزعماء نہ کرسکے. امت کے مصنوعی رہبر ولیڈر نہ کرسکے.. بس تیرے لیے دل سے دعا ہے کہ خدا تجھے دونوں جہاں کی سرخروئی عطا کرے. آمین. دونوں جہاں کی سعادتیں نصیب کرے آمین. اور تجھ جیسی بیٹیاں امت کو مزید عطا فرمائے آمین ثم آمین..
Comments are closed.