مذہبی عناد میں برباد ہوتا معصوموں کا مستقبل۔ ذمہ دار کون؟

 

 

نور اللہ نور

 

کرناٹک میں جس طرح مذہبی عناد میں ننگا ناچ ہورہا ہے اور جس طرح طلبہ کو اپنے ہہ ساتھی طلبہ کے خلاف ورغلایا جا رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک امر ہے ، اور یہ ملک کے مستقبل اور طلبہ کے مستقبل دونوں کے لئے مضرت رساں ہے۔

نوجوانوں پر ملک کے تعمیر و ترقی کا انحصار ہوتا ہے ، وہ مستقبل کے معمار ہوتے ہیں اور ان کی پروان چڑھتی ذہنیت سے اختراعات کا کام لیا جاسکتا ہے اور ملک کو ترقی کی ایک نئی سمت اور راہ طے دے سکتے ہیں۔

مگر افسوس ہیکہ ان ہی نوجوانوں کو مذہبی نفرت کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ، تعمیر کے بجائے تخریبی عمل کو انجام دیا جا رہا ہے ، جن ہاتھوں میں قلم کاپی ہونی چاہیے ا ن ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے ہیں، جن نوجوانوں کو پر وقار ہونا چاہیے تھا وہ نارنگی اور بھگوا لباس میں ملبوس نظر آ رہے ہیں، سو دو سو روپے کے لئے بھیڑ اور ہجوم کا حصہ بن رہےہیں۔

سوال یہ ہیکہ آخر ان کے پشت پناہی کون کر رہا ہے ؟ کس کے اشارے پر یہ لوگ نفرتی اور متشد بن رہے ہیں ؟ کون ہے جو ان کا استعمال کر رہے ہیں؟ ان کے کاندھے پر بندوق رکھ کر دنگے کون پھیلا رہا ہے ؟

ظاہر ہے یہ لڑکے بغیر اکسائے اس مذموم عمل پر آمادہ نہیں ہوئے ہونگے بلکہ ان کی ذہن سازی کی گئی ہونگی، ان کا برین واش کیا گیا ہوگا ، ایسے وقت میں حکومت اور سنجیدہ طبقے کی یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کہ ایسے شرپسند عناصر لوگوں کو گرفت میں کرنا چاہیے، ان پر لگام کسنا چاہئے ورنہ ورنہ کوئی بعید نہیں کہ ہمارے ملک کا نوجوان گاندھی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے گوڈسے کے اسٹائل کی کاپی کرتا نظر آئےگا۔

اس میں کہیں نہ کہیں وہ والدین بھی ذمہ دار ہیں جو اپنی بچوں کو اس نفرت کا حصہ بنا رہے ہیں، ان سے سوال ہے آخر آپ بچوں کو کیا بنانا چاہتے ہیں ، کیا آپ کالج نفرت سیکھنے بھیجتے ہیں ؟ کیا آپ مستقبل میں انہیں گوڈسے دیکھنا چاہتے ہیں ؟ آخر والدین یہ بات کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں کہ مذہب کے نام پر ان کے بچوں کا صرف استعمال کیا جا رہا ہے جو انہیں قابل ڈاکٹر ، قابل انجینئر قابل شخص بننے کے بجائے نفرتی بنا رہا ہے۔

"رام بھکت گوپال” کپل گجر” ان ہی نفرتی پیشہ ور لوگوں کے پروردہ ہے۔ اور وہ لوگ مسلسل نفرت کی کھیتی کی آبیاری کر رہے ہیں مگر ان پر کوئی لگام نہیں لگائی جا رہی ہے، گودی میڈیا جو غیر موزوں ٹاپک پر ڈیبیٹ اور بحث کرتی ہے وہ ان سنجیدہ مسائل پر ذمہ دار لوگوں سے کوئی سوال کیوں نہیں کرتی ہے ؟ آخر اس بات پر بحث کیوں نہیں کرتے ہیں کہ ان بچوں کو بہکانے والو کی گرفتاری کب ہوگی؟

ان بچوں کو اکسانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ لڑکے ایک دم معصوم ہے ان کی کوئی غلطی نہیں ہے ، بلکہ یہ بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ کیا یہ چیز اگر ان کی بہنوں کے ساتھ تو وہ برداشت کرتے؟ کیا ان کی ایسی ہی تربیت کی گئی ہے ؟ کیا وہ اتنے نادان ہیں کہ غلط اور صحیح میں تمیز بھی نہ کرسکے؟

نوجوانوں کے اس طرح سے بے راہ روی میں کون شریک ہے ؟ کن کی لاپرواہی سے یہ جرم اور تشد کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں ان سب باتوں اور وجوہات پر غور کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کی جانچ پڑتال کرے اور ان کی سرزنش کرے۔

Comments are closed.