یوپی الیکشن مسلمان اس مرتبہ ووٹ اگلی میعاد کی تیاری کے لیے دیں

احمد نور عینی
استاذ: المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
یوپی میں پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے لیے ایک دن بھی نہیں بچا ہے، یوپی کا الیکشن یوں تو عام حالات میں بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیوں کہ دلی کے اقتدار کا راستہ یوپی سے ہوکر گذرتا ہے۔ مگر اس مرتبہ کا الیکشن پہلے کی بہ نسبت کچھ زیادہ ہی اہم ہے، کیوں کہ اس الیکشن میں غیر بی جے پی پارٹی یا مورچہ کی جیت 2024 کے لوک سبھا چناو میں بی جے پی کو کمزور کرنے کا سبب بنے گی، اور پھر یوپی کے لیے بھی غیر بی جے پی سرکار کا آنا بہت ضروری ہے۔ گو کہ بی جے پی کی شکست کو ہی اپنی سیاسی حکمت عملی بنانے کا میں مخالف ہوں، میرا اس پر اصرار ہے کہ مسلمانوں کا مضبوط وباوزن سیاسی وجود ہونا چاہیے۔ یہ جو رجحان بن گیا ہے کہ بی جے پی کی شکست کو ہی مسلمانوں نے ووٹنگ کا مقصد سمجھ لیا ہے یہ نا مناسب ہے، مسلمانوں کے سیاسی طور پر اچھوت ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے، اس لیے یوپی میں صرف بی جے پی کی شکست کے لیے مسلمانوں کا ووٹ دینا ایک ناقص حکمت عملی ہے؛ بل کہ مسلمانوں کو یہ سوچ کر ووٹنگ کرنی چاہیے کہ ہم اس میعاد کا یہ ووٹ اگلی میعادکی تیاری کےلیے دے رہے ہیں، اور چوں کہ بی جے پی کی جیت سے اگلی میعاد کی تیاری بہت مشکل ہوجائے گی اس لیے کوشش یہ کی جائے کہ بی جے پی نہ آ پائے۔ بی جے پی کی شکست کے لیے ووٹ دینا اور اگلی میعاد کی تیاری کے لیے غیر بی جے پی کوجتانے کی خاطر ووٹ دینا دونوں میں فرق ہے، پہلے بیانیہ یعنی بی جے پی کی شکست کے لیے ووٹ دینے کا مطلب ہے کہ بی جے پی کی شکست ہی مقصود ہے، بی جے پی ہار جائے تو پھر آرام سے پانچ سال سونا ہے، پانچ سال کے بعد جب الیکشن قریب آئے تو اھون البلیتین کے اصول پر عمل کرتے ہوئے کسی نام نہاد سیکولر پارٹی کو ووٹ دے دینا ہے؛ جب کہ دوسرے بیانہ یعنی اگلی میعاد کی تیاری کے لیے غیر بی جے پی کو ووٹ دینے کا مطلب ہے کہ بی جے پی کی شکست ہمارا اصلی مقصود نہیں ہے؛ بل کہ ہمارا مقصود اپنے سیاسی اچھوت پن کو دور کرنا، اپنا مضبوط وباوزن سیاسی وجود بنانا،اپنے حقوق حاصل، حصہ داری کی سیاست کرنا اور سوشل جسٹس کی تحریک کے ذریعہ ہندوتو کے ووٹ بینک میں سیندھ لگانا اور ہندو بنام مسلم کی سیاست کو کمزور کرنا ہے، یہ کام ہمیں بہت پہلے شروع کردینا چاہیے تھا؛ مگر ہم نے نہیں کیا، اب اس الیکشن میں اتنا وقت نہیں ہے کہ ہم یہ کام کرسکیں اور آئندہ اگر بی جے پی بر سر اقتدار آتی ہے تو یہ کام مشکل ہوجائے گا، اور غیر بی جے پی سرکار آنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ اس کام کے لیے ماحول نسبتا ساز گار رہے گا، گویا الیکشن کے بعد سونا نہیں ہے کام شروع کردینا ہے۔ یہ کام چوں کہ الیکشن کے بعد شروع کرنا ہے اس لیے میں ابھی اس کی تفصیلات میں الجھنا نہیں چاہتا ۔ یہاں صرف اتنا سمجھنا ہے کہ ہمیں ووٹنگ صرف بی جے پی کی شکست کے لیے نہیں کرنی ہے؛ بل کہ اگلی میعاد کی تیاری کے لیے کرنی ہے اور اس تیاری کے لیے غیر بی جے پی سرکار کو لانا ضروری ہے، اس لیے غیر بی جے پی سرکار لانے کے لیے ووٹ دینا ہے۔ سوال یہ ہے کہ غیر بی جے پی سرکار کیسے بنے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ غیر بی جے پی سرکا ر بننے کی ممکنہ درج ذیل صورتیں ہیں:
پہلی صورت یہ ہے کہ بی جے پی کے ووٹ بینک میں سیندھ لگائی جائے۔ اس کے لیے کرنے کا جو سب سے اہم کام ہے وہ یہ کہ او بی سی کا ووٹ بی جے پی کو نہ جانے دیا جائے۔ او بی سی ووٹ بینک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ چاروں بڑی پارٹیوں: بی جے پی، کانگریس، سپا، بسپا کے ریاستی صدر او بی سی سماج سے آتے ہیں۔ بی جے پی کو ہندوتو کے نام پر او بی سی کا ووٹ بڑی تعداد میں ملتا رہا ہے، اور سچ یہ ہے کہ ہندوتو کا بوجھ او بی سی سماج ہی ڈھو رہا ہے، اگر ان کا ووٹ بی جے پی کو نہ جاکر او بی سی سماج کے سب سے بڑے گٹھ بندھن کی طرف آجائے تو بقیہ سماج کے منتشر ووٹ کے ساتھ اس گٹھ بندھن کی سرکار بن سکتی ہے؛ یہ بات طے ہے کہ او بی سی ووٹ کے بغیر محض سورن ووٹ سے بی جے پی نہیں جیت سکتی۔ ہندوتو کے نام پر او بی سی کا ووٹ بی جے پی کو پڑے گا تبھی بی جے پی جیت سکتی ہے۔ ہندوتو کے نشے میں ڈوبا او بی سی کا یہ ووٹ بینک ہی بی جے پی کی سیاست کا مضبوط ستون ہے، اس ستون کو مضبوط کرنے کے لیے منڈل کے مقابل کمنڈل لایا گیا، رام مندر آندولن چلایا گیا اور کئی دہائی سے مسلسل جد وجہد جاری ہے۔ اگر اس ستون میں رخنہ ڈال دیا جائے تو بی جے پی کی سیاست لڑکھڑا سکتی ہے۔مگر ہندوتو کے ووٹ کو غیر بی جے پی کی طرف موڑنا کوئی آسان کام نہیں، اس کے لیے ایک لمبی مدت چاہیے، کیوں کہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر قائم ووٹ بینک کو آئیڈیالوجی کے ذریعہ ہی توڑا جاسکتا ہے، اور آئیڈیالوجی کی یہ جنگ الیکشن کے چند ہفتوں میں نہیں جیتی جاسکتی، اور اب تو ہفتہ کیا چند روز بھی ہمارے پاس نہیں ہیں، اس لیے غیر بی جے پی کی سرکار بنانے کی یہ صورت اس الیکشن میں ناقابل عمل ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ گذشتہ الیکشن میں ہندوتو کے نام پر بی جے پی کو حاصل ہونے والے ووٹ بینک کا جو تناسب تھا اس میں کافی کمی دیکھنے کو ملے گی۔ کیوں کہ اب تک یوپی الیکشن پر ہندوتو کا رنگ حسب توقع نہیں چڑھ سکا، حالاں کہ رام مندر بھومی پوجن کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے ، اس مرتبہ تو ہندوتو ہی چرچا میں رہنا چاہیے تھا اور پورا الیکشن ہندو بنام مسلم ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوسکا، اس کی کئی وجہیں ہیں، جن میں کسان قانون کی وجہ سے جاٹوں کی ناراضگی، مہنگائی، بہوجن چیتنا آندولن قابل ذکر ہیں، اسی طرح سوامی پرساد موریہ، راج بھر ودیگر او بی سی قائدین کا بی جے پی کو چھوڑ کر سپا میں شامل ہونے سے بھی او بی سی ووٹ بڑی تعداد میں بی جے پی سے سپا کی طرف منتقل ہوں گے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ غیر بی جے پی ووٹوں کو منقسم ہونے سے بچایا جائے۔ ووٹوں کے منقسم نہ ہونے یا کم سے کم منقسم ہونے کی ایک شکل تو یہ ہے کہ غیر بی جے پی پارٹی کی حمایت کا مجموعی رجحان اور اس کے جیتنے کا امکان اتنا مضبوط ہو کہ ووٹوں کے بکھراؤ کا اندیشہ نہ ہو اور معمولی بکھراؤ سے کوئی نقصان نہ ہو، جیسا کہ بنگال میں ہوا۔ یوپی میں یہ صورت ناپید ہے؛ کیوں کہ کسی ایک پارٹی کی حمایت کا ایسا مضبوط رجحان اب تک نہیں بن پایا ہے ، ووٹوں کے منقسم نہ ہونے یا کم سے کم منقسم ہونے کی دوسری شکل یہ ہے کہ غیر بی جے پی پارٹیوں کا ایک عظیم اتحاد ہو ، یو پی میں یہ صورت بھی ناپید ہے، اب تک کوئی ایسا عظیم اتحاد نہیں ہوپایا ہے کہ جس کی وجہ سے ووٹ کا بکھراؤ کم سے کم ہوسکے۔ ایسے میں چوتھی صورت یہ بچتی ہے کہ جو گٹھ بندھن اکثر سیٹیں نہیں تو اکثر سے قریب سیٹیں لانے کے موقف میں بہ ظاہر نظر آئے بہ حیثیت مجموعی اس کو ترجیح دے دی جائے،کیوں کہ ایک طرح سے بڑا گٹھ بندھن وہی ہے، یوپی میں یہ شکل ممکن ہےکہ وہاں مہا گٹھ بندھن نہیں تو کسی حد تک ایک بڑا گٹھ بندھن موجود ہے،اس کے برعکس کوئی پارٹی یا مورچہ واضح اکثریت حاصل کرتا نظر نہیں آتا؛ البتہ ای وی ایم میں گڑبڑ کر دی جائے یا فلوٹنگ ووٹ حسب توقع نہ پڑیں تو بات دوسری ہے۔ اس شکل میں بہ حیثیت مجموعی کی قید ہم نے اس لیے لگائی کہ بعض مخصوص سیٹوں پر اس بڑے گٹھ بندھن کے مقابلہ اگر کوئی دوسرا غیر بی جے پی امیدوار مضبوط ہو تو اس امیدوار کو ووٹ دیا جائے، اور جہاں بھی مسلم پارٹیوں کے امیدوار مضبوط ہوں وہاں اس بڑے گٹھ بندھن کے امیدوار کو ووٹ نہ دے کر مسلم پارٹی کو ووٹ دیا جائے اور جہاں تک ہوسکے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے۔
حاصل یہ کہ غیر بی جے پی ووٹوں کی تقسیم جس قدر کم ہوگی اسی قدر غیر بی جے پی سرکار کے آنے کا امکان بڑھے گا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ یوپی میں ایک عظیم اتحاد بنتا جس میں تمام یا اکثر بڑی پارٹیاں اور ہر سماج کی بڑی لیڈرشپ شامل ہوتیں، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ پارٹیاں جن کا جن آدھار یوپی میں مضبوط نہیں ہے وہ کم ازکم اس الیکشن میں کھیل سے باہر رہتیں، یا کم سے کم سیٹوں پر لڑتیں، اور انہی سیٹوں پر لڑتیں جہاں سے ان کے جیتنے کا امکان زیادہ ہو اور ووٹوں کی تقسیم کم سے کم ہو، مگر یہ بھی نہ ہو سکا۔ یوپی میں کانگریس کا جن آدھار مضبوط نہیں تو پھر کانگریس کو کم از کم یہ الیکشن نہیں لڑنا چاہیے تھا۔ اس الیکشن میں جتنا ہوسکے بی جے پی مخالف ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچانا ہے۔ کانگریس ووٹ کاٹے گی۔ ووٹ بھی مسلمانوں کا اور سیکولر اپر کاسٹ والوں کا۔ اسی طرح عام آدمی پارٹی کو بھی کیا ضرورت تھی میدان میں کودنے کی؟ اگلے میعاد میں زمینی محنت کرتی، پھر میدان میں آتی۔ یہ بھی سیکولر ووٹ کاٹے گی۔ کشواہا اگر او بی سی سماج کے راج بھر کی طرح او بی سی کی بڑی پارٹی کے گٹھ بندھن کا حصہ بن جاتے تو اچھا ہوتا، ان کی پارٹی او بی سی کا ووٹ کاٹے گی۔ چندر شیکھر راون ایک میعاد اور محنت کرتے پھر سیاسی دنگل میں آتے ، یہ الیکشن 2024 میں بی جے پی کو ہرانے کے لیے ہورہا ہے، یا آ ہی گئے تو ایک مضبوط مورچہ بنانے یا اس کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ، ایسا مورچہ جودلت مسلم ووٹ بینک کا مجموعہ ہوتا، جس کی طاقت سے کم از کم سپا اس مورچہ کے ساتھ مہا گٹھ بندھن بنانے پر مجبور ہوتی۔ راون کی پارٹی دلت ووٹ کاٹے گی اور اس کا مورچہ سیکولر ووٹ کاٹے گا۔ بامسیف کو کیا ضرورت تھی سیاسی اکھاڑے میں کودنے کی؟ سماجی تحریک کا کیڈر سیاسی ووٹ بینک بنے کوئی ضروری نہیں، کانشی رام کے وقت کے حالات کچھ اور تھے، دوسری بات یہ کہ سماجی تحریک کا سیاسی رخ لینا تحریک کے لیے نقصاندہ ہوتا ہے، اس لیے بامسیف کو کم از کم اس الیکشن میں سیاست سے دور رہ کر بہوجن آندولن کا کام کرنا چاہیے تھا۔ سپا نے مسلم اور دلت برادری کو اس قدر نظر انداز کیوں کیا کہ ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے اور اکھلیش نے بی جے پی مخالف پارٹیوں اور سماج کی دیگر اکائیوں کو ملا کر ایک مہا گٹھ بندھن بنانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ اکھلیش نے اپنی توجہ او بی سی برادریوں پر مرکوز کرکے او بی سی پالیٹکس کھیلنے کے بجائے سوشل جسٹس کی بنیاد پر مسلم اور دلت قیادت کو برابر کی سطح پر حصہ داری دینے پر توجہ کیوں نہیں دی؟ سپا کے اس رویہ سے دلت ووٹ بینک تو ہاتھ سے جائے گا ہی، ناراض مسلم ووٹرس کا ووٹ بھی تقسیم ہوگا۔ اکھلیش کا تعلق او بی سی سے ہے، او بی سی کی ایک بڑی تعداد ہندوتو کے نام پر بی جے پی کو ووٹ دیتی ہے، اکھلیش نے اپنے او بی سی کے ان ہندوتووادی بھائیوں سے یہ کیوں نہیں کہا کہ کب تک آپ لوگ ہندوتو کے قلی بنے رہیں گے؟ کیا آپ بھول گئے کہ جن کے لیے آپ ہندوتو کو ڈھو رہے ہیں انھوں نے ہی مجھ کو اور آپ کو شودر بنایا؟ اور آپ کو شودر بنے رہنے کے لیے ہندوتو کا قلی بنایا ہے۔ او بی سی کے یہ ہندوتووادی ووٹرس اکھلیش کے ووٹ بینک کے لیے بڑا خطرہ بنیں گے اور ان کی وجہ سے او بی سی ووٹ تقسیم ہوں گے۔ اخیر میں مسلم لیڈرشپ کے باوزن وجود پر مسلسل اصرار اور اویسی صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کے اعتراف کے باجود خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لیں کہ ایم آئی ایم کو اتنی زیادہ سیٹوں پر لڑنے کی کیا ضرورت تھی، حیدرآباد میں جتنی سیٹوں پر لڑتے ہیں کم از کم اس الیکشن میں اسی پر اکتفا کرتے تو نفع کی امید نقصان کے بالمقابل زیادہ ہوتی۔ جہاں مجلس کا مضبوط جن آدھار نہیں ہے یا جہاں پہلے سے مضبوط امیدوار مقابلے کے لیے میدان میں ہے وہاں مجلس کی وجہ سے مسلم ووٹ تقسیم ہوگا۔ اور جہاں تک بات ہے بسپا کی تو یہ بھی دلت ووٹ کاٹے گی۔ اس نے برہمن سمیلن کرکے بتادیا کہ بی ایس پی کا مطلب بہوجن سماج پارٹی نہیں بلکہ برہمن سمیلن پارٹی ہے۔ جو اپنی آئیڈیالوجی کی اور اپنے مہاپرشوں کی نہیں ہوئی اس کے بارے میں زیادہ تذکرہ کرنا ہی بیکار ہے۔
یہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ کسی بھی پارٹی کا یہ دستوری حق ہے کہ وہ کہیں سے بھی کتنی بھی سیٹوں پر چناو لڑے ، اس کا جواب ہے کہ پارٹیوں سے سوال کرنے کا حق بھی دستور ہی دیتا ہے، دوسری بات یہ کہ ہمیں سیکولر پارٹیوں سے شکایت اس لیے ہے کہ ہر باشعور یہ سمجھ رہا ہے کہ اس وقت یو پی میں بی جے پی کو شکست دینا ضروری ہے اور یہ بات طے ہے کہ بی جے پی کو شکست اسی وقت ہوگی جب غیر بی جے پی ووٹوں کا بکھراؤ کم سے کم ہوگا، تو پھر غیر بی جے پی پارٹیوں نے ایسی حکمت عملی کیوں نہیں بنائی کہ ووٹوں کی تقسیم کم سے کم ہو۔ تیسری بات یہ کہ جب بھی بی جے پی جیت کر آتی ہے تو غیر بی جے پی سرکار نہ بننے کا ٹھیکرا مسلم ووٹروں کے سر پھوڑ دیا جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے عموما مسلمانوں کا ووٹ دوسرے سماج کے ووٹرس کی بہ نسبت کم تقسیم ہوتا ہے، اوراس مرتبہ یوپی الیکشن میں غیر بی جے پی ووٹ کی تقسیم میں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا بڑا حصہ ہے، مسلم ووٹوں سے زیادہ دلت اور او بی سی ووٹ کے تقسیم ہونے کا خدشہ ہے۔ بہرحال ووٹ ضرور دیجیے، ووٹ صرف بی جے پی کو ہرانے کے لیے نہیں؛ بل کہ اس مرتبہ کا ووٹ اگلی میعاد کی تیاری کے لیے دیجیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یوپی کے رائے دہندگان سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے حتی الامکان بچا پائیں گے؟ اس سوال کا جواب ایک ماہ بعد دس مارچ کو ملے گا بشرطے کہ ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ نہ ہو۔
Comments are closed.