پردہ خواتین کی عفت وعصمت کا محافظ 

 

از :مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

9905387547

 

اسلام ایک ایسے عفت مآب پاکیزہ معاشرے کی تعمیر کرنا چاہتا ہے ، جس میں عورت کی عفت وعصمت محفوظ ہو ، اس کی پاک دامنی اور دوشیز کی کو سلامتی حاصل ہو ، اس

کی معصومیت پر کوئی غلط نگاہ نہ ڈالے، اس کی فطری خوبصورتی کو کوئی شہوت پرست ، بیہودگی کے ساتھ نہ گھورے اور اسے ہوسناک نگاہوں کا شکار نہ بنائے ۔

اسلام ایک ایسی سوسائٹی دیکھنا چاہتا ہے، جس میں پاکیزہ خیالی اور نیک نیتی کا چلن ہو، بے حیائی، بے حجابی، صنفی انتشار، لا مرکزی ہیجانات اور فحاشی و آوارگی کا رجحان نہ ہو ۔ پردہ سے متعلق لازمی احکامات کا اصل مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں زنا کاری اور بدکاری کے واقعات قطعا پیش نہ آئیں؛ اس لیے کہ فواحش و زنا کاری ایسی مہلک بیماری ہے، جس کے خطرناک اثرات صرف اشخاص و افراد ہی تک محدود نہیں رہتے ؛ بلکہ پورے پورے خاندان اور قبیلہ کو اور بعض اوقات بڑی بڑی آبادیوں کو تباہ کر دیتے ہیں ۔

تو جس طرح دیگر معاملات میں اسلام کا یہ اصول ہے کہ اس نے جن چیزوں کو بھی انسانیت کے لیے مضر اور نقصان دہ قرار دے کر قابل سزا جرم قرار دیا تو صرف اسی پر نہیں؛ بلکہ ان کے مقدمات پر بھی پابندی عائد کردی ۔اسی طرح شریعت نے زنا اور بدکاری کے انسدادِ کُلّی اور اس کے مکمل روک تھام کے لیے زنا اور بدکاری کے مبادیات پر بھی پابندی عائد کر دی۔ اس عظیم مقصد کے لیے مردوعورت میں سے ہر ایک کو چند لازمی ہدایات دی گئیں:

مردوں کو غضِّ بصر یعنی نگاہیں نیچی رکھنے اور پاکیزہ خیالی کا حکم دیا گیا اور بد نظری کو

آنکھ کا زنا قرار دیا گیا؛ قال رسول اللہ ﷺ : زنا العينين النظر ۔ (ابوداؤد:۲۲۹/۱)

اسی طرح عورتوں کو بھی نظریں بچانے ، خیالات پاکیزہ رکھنے اور اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا:قـل لـلـمـومـنـيـن يـغضوا من أبصارهم و يحفظوا فـروجـهـم ذلک از کـی لـهـم ان الـلـه خـبـيـر بـمـا يصنعون وقل للمؤمنات يغضضن من ابصارهن و يحفظن فروجهن (النور:۳۱)اے نبی! مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت وعفت کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کا طریقہ ہے۔ یقینا اللہ جا نتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں ۔

اور مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت وعفت کی حفاظت کر یں ۔

مرد و عورت کے بے محابا اختلاط اور میل جول کو ممنوع قرار دے کر عورتوں کو بنیادی طور پر گھر کی چہار دیواری میں رہنے کی ہدایت کی گئی ۔ اور زمانہ جاہلیت کی طرح حسن و جمال کی آرائش اور زیب وزینت کے اظہار کوممنوع قراردیا گیا : وقرن في بيوتكن ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى (10 حزاب:۳۳)

تم اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھی رہو ۔ اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق بناؤ سنگار دکھلاتی نہ پھرو۔

عورتوں کے لیے جھنکار اور آواز والے زیورات کے استعمال ، بھڑک دارلباس اور خوشبو کے استعمال اور خفی زیب وزینت کے اظہار کوممنوع قرار دے دیا گیا: ولا يضربن بارجلهن ليبدين ما يخفين من زينتهن (النور:۳۱)

اور اپنے پاؤں زمین پر اس طرح مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہے وہ معلوم ہوجاۓ ۔

بوقت ضرورت خواتین کو گھر سے نکل کر ضرورت کی تکمیل کے لیے باہر جانے کی اجازت دی گئی؛ لیکن اس کو اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا گیا کہ نکلنا بے محابا نہ ہو؛ بلکہ نکلتے وقت پوری طرح با پردہ ہو کر نکلیں ؛ برقع یالمبی چادر سے پورے بدن کو چھپالیں ۔

يـايـهـا الـنبـي قـل لازواجک و بـنـاتك ونساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن، ذلک ادنى ان يعرفن فلايوذين. (الأحزاب : ۵۹)

اے پیغمبر! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں ۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی اور انہیں ستایا نہیں جاۓ گا۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوۓ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا

کہ ’اللہ تعالی نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے’’جلباب‘‘ یعنی لمبی چادر لٹکا کر چہروں کو چھپالیں اور راستہ دیکھنے کے لیے صرف آنکھ کھلی رکھیں‘‘ ۔ ( تفسیر ابن کثیر )

پردے کے سلسلے میں اس قدر تاکیدی احکامات اس لیے دیے گئے ہیں کہ خواتین کی صنف پوری طرح ’’عورت‘‘ یعنی پردے کی چیز ہے؛ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المرأة عورة فـاذا خـرجـت استشرفها الشيطان (ترمذی:۲۲۲/۱) که عورت سرا پا پوشید و رہنے کی چیز ہے ۔ جب عورت گھر سے باہرنکلتی ہے تو شیطان نما انسان اس کی تاک میں لگ جا تا ہے ۔لہذا شیطان کی فتنہ سامانیوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلا ضرورت گھر سے باہر نکلیں ہی نہیں ۔ اور اگر ضرورت کے تحت نکلنا ہی پڑے تو پوری طرح پردے میں لپٹ کر نکلیں ۔

 

پردہ خواتین کی عفت وعصمت کا محافظ : حیا کسی بھی سلیم الفطرت عورت کا سب سے بڑا سرمایہ ہے ۔ اور اس سرمایہ کا سب سے بڑا محافظ پردہ ہے ۔ عورت کی حیاو شرم طبعی کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنوں کے سوا غیر مردوں سے پردے میں رہے ۔ نہ وہ کسی اجنبی کو دیکھے، نہ کوئی اجنبی اس کو دیکھے ۔ بے حیائی ، بے پردگی ، عریانیت خواتین کی نسوانیت کو مجروح اور اس کی فطرت کو مسخ کرنے والی چیز اور فتنہ و فساد کی داعی ہے۔ بے پردگی اور حیا بھی بھی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی اور کوئی باغیرت خاتون کبھی بھی بے پردگی کو برداشت نہیں کر سکتی ۔

 

چنانچہ ابوداؤد میں ام خلاد درضی اللہ عنہا کا یہ واقعہ منقول ہے کہ ان کا بیٹا حضور ﷺ کے ساتھ ایک غزوے میں گیا ہوا تھا۔ جنگ کے بعد جب ان کا بیٹا واپس نہیں آیا تو بے تابی کے عالم میں وہ حضور کی خدمت میں اس حال میں پہنچیں کہ وہ چہرے پر نقاب ڈالے ہوئی تھیں ۔ وہاں پہنچ کر دریافت کیا یا رسول اللہ ! میرے بیٹے کا کیا ہوا ؟ صحابہ کرام نے جواب دیا کہ تمہارا بیٹاتو اللہ کے راستے میں شہید ہو گیا۔ یہ اطلاع ان پر بجلی بن کر گری۔ تاہم انہوں نے مثالی صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ۔ اس حالت میں کسی شخص نے ان سے پوچھا کہ تم اتنی پریشانی کے عالم میں اپنے گھر سے نکل کر آئی ہو، پھر بھی تم اپنے چہرے پر نقاب ڈالی ہوئی ہو۔ اس ہنگامی موقع پر بھی تم نقاب ڈالنا نہ بھولیں ۔ جواب میں ام خلاد رض نے کہا: ان ازرأ ابـنـى فـلـن أزرأ حیائی یعنی میرا بیٹا تو فوت ہو گیا ہے لیکن میری حیا کا ابھی جنازہ نہیں نکلا ہے کہ میں بے پردہ یہاں آجاتی! ۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد، ۳۳۷)

اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛ وہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے صحابہ سے سوال کیا کہ بتلاؤ کہ عورت کے لیے کون سی بات سب سے بہتر ہے؟ صحابہ کرام خاموش رہے۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔ پھر جب میں گھر گیا اور حضرت فاطمہ سے میں نے یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ: لا يـرين الرجال ولا يرونھن :کہ عورت کے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہے کہ نہ وہ مردوں کو دیکھیں ، نہ مردان کو دیکھیں ۔ میں نے ان کا جواب رسول اللہ سے نقل کیا تو آپ نے فرمایا کہ فاطمہ میری لخت جگر ہیں ، اس لیے وہ خوب سمجھیں ۔ (مسند بزار، دارقطنی )

معلوم ہوا سر جنتی عورتوں کی سردار کی نگاہ میں عورتوں کے لیے سب سے بہتر چیز پردہ ہے ۔

صحابیات کا یہ حال تھا کہ زندگی تو زندگی ، شدت حیا کی بنیاد پر مردوں سے ان کی موت کے بعد بھی پردہ کیا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جس حجرہ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدفون میں اس کمرہ میں میں جب داخل ہوتی تو میں پوری طرح پردہ نہیں کرتی تھی ۔ میرا یہ خیال تھا کہ اس حجرے میں میرے شوہر اور میرے والد ابوبکر کے علاوہ کوئی اور مدفون نہیں ہے۔ اور ان دونوں سے پردہ نہیں ہے ، لیکن جب ان کے ساتھ حضرت عمر بھی دفن کر دیئے گئے تو بخدا اس کے بعد میں جب بھی حجرہ مبارکہ میں جاتی توحضرت عمر سے حیا کی وجہ سے پوری طرح باپردہ ہو کر جاتی تھی ۔ (مسند احمد بن حنبل )

معلوم ہوا کہ پردہ، حبس اور قید نہیں بلکہ شرم حیا کا آئینہ دار اور عزت وعصمت اور نزاکت و لطافت کا محافظ ہے ۔ پردہ کسی بھی شریف خاتون کے لیے ایک متاع گراں مایہ ہے ۔ لیکن جب کسی سے حیا کا ماد ختم ہو جاۓ ؛ تو لازمی طور پر وہ پردے کو بوجھ سمجھے گی ۔ اور بے پردگی کو آزادی خیال کرے گی ۔ اور آزادی کے زعم کے تحت وہ سب کچھ کرے گی جس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاۓ ۔ حقیقت ہے: اذا فانك الحياء فاصنع ماشأت .

بے حیا باش! ہر چہ خواہی کن ! اور یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ بے پردگی اور بے حیائی کے نتیجے میں پوری دنیا، بالخصوص یورپ وامریکہ میں فحاشی و بدکرداری کا ایسا مکروہ ترین سیلاب آیا ہوا ہے اور جنسی بے راہ روی اور اخلاق باختگی کا ایسا طوفان آیا ہوا ہے جسے دیکھ کر شیطان شر ما جاۓ!

 

*مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

صدر جمعیت علماء بیگوسرائے ورکن انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز دوحہ قطر

Comments are closed.