Baseerat Online News Portal

"حجاب معاملے” پر میڈیا اور سیکولر سماج کا منافقانہ چہرہ

خبر در خبر

نور اللہ نور 

کالم نگار بصیرت آن لائن

حجاب معاملہ طول پکڑتا جارہا ہے اور حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں مگر اب بھی جھوٹے سیکولر اور منافق میڈیا وقت کی نزاکت کو سمجھنے سے قاصر ہے بلکہ وہ معاملہ کو حل کرنے اور مثبت طریقے سے بیان کرنے کے بجائے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔

"خان سمیع اللہ قاسمی” نے اپنی ایک تحریر میں کہا تھا کہ "بھائی چارے کا چولا اب سیکولر سماج سے اتر چکا ہے” وہ حقیقت ثابت ہورہا ہے شیوسینا کے ایم ایل اے اور مہاراشٹر کے وزیراعلی ادھو ٹھاکرے کے فرزند ” آدتیہ ٹھاکرے ” بھی اس تنازع میں کود پڑے ہیں جو اب تک کسی موضوع پر زبان تک نہیں کھولی اور وہ حجاب معاملے میں کھل کر سنگھی لوگوں کی حمایت میں ہے.

"ان کا کہنا ہے کہ تمام کالج میں یکساں ڈریس کوڈ نافذ کرنا چاہیے ” ان سے ایک ہی بات کہنی ہے کہ بھائی اب تک تم کہاں تھے "دھرم سنسد پر ” تم نے ایک لفظ نہیں کہا، ماب لنچنگ پر بھی تم خاموش ہی رہے اور اب اس معاملے میں کود کر آگ میں گھی ڈال رہے ہو۔

دوسری بات یہ کہ یکساں ڈریس کوڈ کیوں نافذ کیا جائے ؟ بہت سارے کالج میں ڈریس پہننے کا اختیار ہے اور یہ طلبہ کی چوائس پر منحصر ہے کہ وہ کیا پہنیں۔ اگر یکساں کوڈ کی بات کرتے ہو یہ درست نہیں ہے کیونکہ ایک طرح سے تم ایک فرقے کی ذہنیت کو تھوپنے کی کوشش کر رہے ہو ، تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ سب ایک ہی کپڑے میں آئے، اس طرح سے تو حجاب پر بھی پابندی ہوگی اور تلک اور دوپٹہ کو بھی بند کر دیا جائے گا اس سے تو ننگا پن عام ہوگا۔

پھر قانون نے جو اختیار دیا ہے اس کا کیا مطلب رہ جائے گا، یہ تو سرے سے قانون کے خلاف عمل ہے جس سے لاقانونیت کو بڑھاوا ملے گا۔

اسی طرح ایک خاتون ہے ” صبوحی خان” جو خود کو مسلم کہتی ہے ان کا کہنا کہ قرآن اور حدیث میں پردہ کا کہیں حکم ہی نہیں ہے۔ اولا تو اس نے قرآن کے مفہوم کو سمجھا ہی نہیں ہے ثانیاً یہ کہ جب دھرم سنسد میں زہر افشانی ہورہی تھی تب تم کہاں تھی ؟ اسی طریقے سے متعدد لوگوں کو مار دیا گیا تم سیکولر لوگوں نے کچھ نہیں کہا مگر حجاب پر آ گئے گیان بانٹنے۔

میڈیا جو بے قصور جماعت کے خلاف سینہ پیٹ پیٹ کر پورا ملک سر پر اٹھا رکھا تھا، معصوم مسلمان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا تھا ، مندر مسجد کے نام پر جو لوگ بحث کرتے تھے وہ یا تو چپی سادھے ہیں یا پھر آگ اگل رہے ہیں، متعدد چینل پر اس کے خلاف بیان بازی ہورہی ہے ، ایک طرح سے یہاں بھی پروپیگنڈہ کو ہی عام دیا جا رہا ہے، امیش دیوگن اپنے پرائم ٹائم کے شو کاٹائٹل لگاتا ہے ” تعلیم پر طالبانی سوچ ” آخر اس میں طالبان پاکستان کہاں سے آگیا؟ اگر کوئی ہندو اپنا حق مانگے تو دیش بھکت اور کوئی مسلمان اپنا حق مانگے تو دیش دروہ ؟ حجاب ان کا حق ہے وہ مطالبہ کر رہی ہے اس میں کیا گناہ ہے ؟ دوسری بات یہ کہ دھرم سنسد میں زہر افشانی ہورہی تھی تب تو ان کے منھ میں گھی جمی ہوئی تھی مگر بے جا ٹاپک پر بحث کرنے اور مسلمان کے خلاف زہر اگلنے کے لئے آگئے۔

اسی طرح سدھیر چودھری بھی معاملے کو طول دے رہے ہیں اور جانبدارانہ رپورٹ دے رہے ہیں ان کا کہنا ہیکہ حجاب اور برقعے کا کہیں بھی قرآن میں ذکر نہیں آیا ہے اس لئے یہ مطالبہ بے جا ہے۔ ان کو تو اولا قرآن کا صحیح علم نہیں ہے اور ان کے سمجھ سے پرے ہے ۔ دوسری بات یہ ہیکہ ایسے وقت میں جب مثبت اور غیر جانبدارانہ رپوٹنگ کرنی چاہیے اور حق بولنا چاہیے اس وقت یہ گیان کیوں بانٹ رہے ہیں؟

 

مضمون نگار بصیرت آن لائن کے رکن ہیں

Comments are closed.