حجاب پر تنازع، گناہگار کون؟ 

 

از: محمد اللہ قیصر

ہم حجاب کی اجازت کیلئے ملکی قانون کی دہائی دے رہے ہیں کہ ہمیں آزادی ہے، تو فورا سوال بھی کیا جارہا ہے کہ اگر آزادی نہیں دی گئی تو؟ یا آپ کو اگر نقاب کی آزادی ہے تو دوسروں کو جینس اور شاٹس کی، آپ مذہبی مقامات پر اس کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟

اسلئے کھلے طور پر کہنا چاہئے کہ حجاب ہمارے دین کا حصہ ہے، اس سے سمجھوتہ ممکن نہیں۔

اس مسئلہ میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسکول کے ضابطہ میں ڈریس کوڈ ہے، آپ اگر نہیں مانتے تو کوئی اور اسکول دہکھیں،

اب رہا سوال "اسکول ڈریس کوڈ” کا تو ایک طرف ہمارا ملکی قانون ہمیں اپنے مذہب پر عمل کی اجازت دیتا ہے، دوسری طرف اسکول ڈریس کوڈ ایسا تیار کیا جارہا ہے جو ہماری دینی تعلیمات کے بالکل منافی ہے، اس پر عمل مشکل ہے، دین پر عمل کریں تو اسکول کے ضابطہ کی خلاف ورزی، اور حکومت کے ذریعہ بنائے گئے ضابطہ پر عمل کریں تو دین کی خلاف ورزی ہوتی ہے، سوال ہے کہ کریں تو کیا کریں؟ تعلیم سے محرومی کا بوجھ برداشت کریں یا دین کی مخالفت کا جرم اپنے کاندھوں پر اٹھائیں؟ اور اس تصادم میں غلطی کس کی ہے؟

مبینہ طور پر غلطی حکومت کی ہے، اس کی ذمہ داری تھی کہ ملکی رہنما قانون کی روشنی میں ایسا ڈریس کوڈ تیار کرتی جو ملکی قانون سے بھی متصادم نہ ہو اور نہ کسی بھی فرد کے مذہبی عقائد و فرائض سے ٹکراتا ہو، یہ صرف اسکول کا مسئلہ نہیں ہر میدان میں ضابطہ عمل وضع کرتے ہوئے اس بات خیال رکھنا چاہئے، کہ ہر شہری کیلئے اس پر عمل کرنا آسان ہو، کسی کے عقائد سے متصادم ہوگا تو ظاہر ہے عمل دشوار ہوگا، انسان اس ضابطہ پر عمل مجبوری میں کرسکتا ہے لیکن موقع ملتے ہی مذہبی تعلیمات کو ترجیح دیتے ہوئے، ملکی قانون سے بچنے کی کوشش کرے گا ۔ یہ فطرت ہے اس سے انکار نہیں کر سکتے، ایک بڑا طبقہ ہے جو بہر حال مذہب کے کسی حکم سے سمجھوتہ نہیں کر سکتا، ایسے میں وہ حکومتی سہولیات سے محرومی کا بوجھ جھیلنا منظور کرلیتا ہے لیکن مذہب پر عمل اس کی اولین ترجیح ہو تی ہے۔

اس سارے منظرنامہ میں دیکھیں تو حکومت کی نا اہلی کہیں یا ایک مخصوص طبقہ سے عصبیت کہ حکومت قانون بناتے وقت اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھتی کہ ہمارا پیش کردہ طریقہ و ضابطہ دوسروں کیلئے کتنا قابل عمل ہے، قانون سازی کے رہنما اصول کا مطلب کیا ہے، یہی تو ہے کہ قانون ساز قانون وضع کرتے وقت یہ خیال رکھیں کہ، کسی فرد یا کسی جماعت کے اصول و مبادی سے ٹکراتا نہ ہو، نیز اس پر عمل کرنے سے کسی کو نقصان نہ پہونچے، ہر شخص کیلئے اس پر عمل کرنا آسان ہو

، لیکن اگر زبر دستی ایسے قانون بنائے جائیں جو فطرت کے مخالف ہونے کے ساتھ کسی کے عقائد اور مذہبی تعلیمات سے ٹکراتے ہوں، پھر ملک و قانون کی دہائی دیتے ہوئے مطالبہ کیا جائے کہ ملک و قانون سب سے اوپر ہے لہذا اس پر عمل کرنا پڑے گا، تو ظاہر ہے کچھ لوگ تو مجبوراََ عمل کریں لیکن اکثریت قانون شکنی پر مجبور ہوگی، چوری چھپے ہی سہی وہ عمل کرنے سے بچیں گے، کیوں کہ اس پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں۔اسکول کے دروازے ہر ایک کیلئے کھلے ہوتے ہیں، پھر بھی وہاں ایسے ضابطے مقرر کئے جائیں جس پر عمل کرنا ایک طبقہ کیلئے ناممکن ہے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت اس طبقہ کو تعلیم سے محروم کرنا چاہتی ہے،

حق کی لڑائی کا مطلب یہی ہے کہ حکومت کو اس کی ڈیوٹی یاد دلائی جائے، حکومت کی ڈیوٹی ہے کہ وہ ایک جامع طریقہ اپنائے نہ کہ ایک کو ٹارگیٹ کرنے والا، اگر حجاب سے روکا جاتا ہے تو کھلم کھلا یہ پیغام ہوگا کہ آپ مسلم بیٹیوں کو پڑھنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے، اگر کسی کام میں آپ ایسی شرط لگاتے ہیں جس کی تکمیل کسی ایک فرد یا طبقہ کیلئے ناممکن ہے تو صاف طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس کو شرکت کی اجازت نہیں۔

کسی شہری کی آزادی تب ختم ہوتی ہے جب اس کے عمل سے کسی کو نقصان پہونچے، جب تک نقصان دہ نہ ہو اس پر روک لگانا انسانیت کے بھی خلاف ہے۔

حجاب سے کسی کو کیا نقصان پہونچ سکتا ہے ،ایک خاتون اگر سر چھپا کر بیٹھی ہے تو دوسروں کو کیا دشواری ہے، حجاب خود حفاظتی انتظامات کا ایک حصہ ہے، گویا خاتون اپنی حفاظت کیلئے سر اور چہرہ چھپا کر بیٹھتی ہے تو کسی کو کیا پریشانی ہو سکتی ہے؟ کورونا جیسے ایک مرض سے حفاظت کیلئے منہ چھپانا ضروری قرار دیا ہے، ماسک نہ لگانے پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، تو یہاں بھی تو ممکن ہے کہ دین نے کسی نقصان سے بچنے کیلئے خواتین پر حجاب لازم کردیا ہو، اور ایسا ہے بھی کہ اسلام نے سماج کے چور اچکوں سے، شیطان صفت لوگوں اپنی حفاظت کیلئے چہرہ چھپانے کا حکم دیا ہے، کمال کی بات ہے کہ آپ چہرہ چھپانے کا حکم دیں تو حکمت،اور اسلام وہی حکم دے تو خواتین پر زیادتی، کیوں؟ آج بھی دنیا کے ہر کونے میں انسان جہاں اپنے پورے جسم کو ڈھانکنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے وہاں ڈھانکتا ہی ہے، کہیں سردی سے بچنے کیلئے کہیں گرمی کی لو سے حفاظت کیلئے، جب جب ضرورت محسوس ہوتی ہے سر کے بال سے ناخن تک چھپا لیتا ہے، اسے لگتا ہے کہ سردی کے نقصانات سے بچنے کیلئے اپنے جسم کے ہر ہر جزو کو دبیز کپڑوں میں چھپا نا ضروری ہے تو وہ ایسا کرتا ہے، ایک لمحہ کیلئے نہیں سوچتا بلکہ جسم کھلا رکھنے والے کو پاگل کہا جاتا ہے، تو اسی طرح اگر مسلم خاتون کو یہ احساس ہوتا ہے یا احساس دلایا جاتا ہے کہ بازار میں اور غیر محرم کے سامنے اسے اپنا جسم چھپانا چاہئے اور وہ جسم چھپاتی ہے، چہرہ چھپاتی ہے، تو حرج کیا ہے ؟ صرف اسلئے کہ اسلام نے کہا ہے؟ ایسی گندی اور عصبیت زدہ سوچ پر سوائے افسوس کرنے کے اور کیا کہا جاسکتا ہے، حقیقت ہے کہ پردہ سے پریشانی نہیں ہے اسلام نام سے پریشانی ہے۔

یہاں ٹھہر کر ہمیں بھی سوچنا ہے کہ ٹھیک ہے حکومت متعصب ہے، ہم جانتے ہیں کہ انسانیت کیلئے مفید ترین عمل پر بھی اسلام کا ٹھپہ لگتا ہے تو ان سے ہضم نہیں ہوتا، اس کے ردعمل میں الٹے سیدھے طریقے اپناتے ہیں اور انسانیت کو نقصان اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں، ایسی صورت میں بحیثیت قوم ہماری بھی اپنی کچھ ذمہ داریاں ہیں، ہم نے اپنے بچوں کیلئے ایسے اسکول قائم کیوں نہیں کئے جہاں صرف ہماری اپنی مرضی چلے، ہم اپنی مرضی سے ضابطہ عمل طے کرسکیں، اب بھی وقت ہے اپنی تساہلی کا علاج کریں ورنہ اسی طرح چیختے رہیں گے، اسلام دشمن آپ کو چین سے جینے نہیں دیں گے، آج کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں دو چار گاؤں والے مل کر اپنا ایک اسکول قائم نہ کرسکیں، لیکن ضرورت ہے امت کی اس ضرورت کو محسوس کرنے کی، خود غرضی کے مرض سے نجات پانے کی، اپنا بچہ پڑھ رہا ہے، قوم کے غریب بچے کس حالت میں ہیں کوئی پروا نہیں، اتنی خود غرضی ہوگی تو ایسے ہی پریشانیاں منہ پھاڑے کھڑی ہوں گی۔

Comments are closed.