کرناٹک ہائ کورٹ کے ” چیف جسٹس ” سوالات کے گھیرے میں —–!

 

 

آئ ۔اے۔ آر

 

کرناٹک ہائ کورٹ کے چیف جسٹس حجاب معاملہ میں بری طرح سے سوالات کے گھیرے میں آتے جارہے ہیں , سب سے پہلا سوال ان پر یہ عائد ہوتاہے کہ انہوں نے جو انٹرم آرڈر Enterim Order جاری کیاہے اور اس میں بات بھی شامل کردیاہے کہ فیصلہ آنے تک کوئ بھی گروپ نہ حجاب اور ناہی بھگوا شال پہن کر اسکول جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ ???? انٹرم آرڈر کے خلاف ہے , اسلئے کہ انٹرم آرڈر ” اسٹیٹس کو” Status Quo کو بحال کرنے کیلئے دیا جاتاہے , Status Quo کا مطلب ہوتاہے اس تنازعہ سے پہلے جیسا نظام چل رہاتھا اسی سابقہ اور پرانا نظام کو جاری رکھا جائے—— پرانا نظام تو بہت پہلے سے مسلم لڑکیاں نقاب اور حجاب پہن کر آرہی تھی۔۔۔۔۔ تو پھر چیف جسٹس نے حجاب نہ پہن کر آنے کی بات اس انٹرم میں کیوں شامل کردی ۔۔۔۔۔۔۔ ?????

 

(2) چیف جسٹس کے سامنے عدالت میں جب یہ بات رکھی جاتی ہے کہ جو لڑکے بھگوا شال پہن کر باہر دوسرے کالج سے آئے تھے اور دنگا فساد مچایا تھا یا جو اسی کالج کے تھے اور اس مسکان نامی مسلم لڑکی کی لنچنگ کرنا چاہ رہے تھے اس کے چہرہ پر جاجاکر بھگوا شال لہرا رہے تھے ۔۔۔۔ ان لڑکوں پر کاروائ کی جائے اور انہیں سزا دیاجائے —- تو چیف جسٹس نے یہ کہا کہ ان کو ایک موقع دیاجاتاہے اصلاح کے طور پر ان کو موقع دیا جاتاہے ۔۔۔۔۔ یعنی کہ ان کو سزا سے بری کردیاجاتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمل اور کرتوت بڑوں جیسا ۔۔۔۔ لیکن حکم چھوٹے بچوں جیسا ۔۔۔۔۔ !? —– دوسری طرف ایک مسلم چھوٹی بچی اسٹوڈینٹ یہ کہتی ہے کہ اگر ہمیں حجاب پہننے کو نہی دیا گیا ( جیساکہ زبردستی, اسکول کھلنے کے بعد مسلم بچیوں کا حجاب اتروایاگیا ) تو ہمارے ماں باپ گرانڈ مادر اینڈ فادر ہمیں اسکول نہی بھیجیں گے , ہم اسکول میں پڑھنے سے محروم رہ جائیں گے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اس بچی کا مستقبل ختم ہورہاہے لیکن اس مسلم بچی کی فکر چیف جسٹس کو نہی ہے۔۔۔۔۔۔ !???

 

(3) چیف جسٹس ہندو بچوں کے ساتھ تو ہمدردی دکھارہے ہیں لیکن مسلم بچیوں کے ساتھ بالکل بھی ہمدردی نہی دکھاپارہے ہیں ورنہ اس مسئلہ کو آسانی کے ساتھ اس طریقہ سے حل کیا جاسکتاتھا کہ ” *دس سال تک کی مسلم بچییوں کیلیئے ” چوں کہ عام طور پر دس سال کی بچی نابالغ ہوتی ہیں” اسلئے ان کیلئے یہ حکم دیا جاتاکہ وہ اسی طرح کا حجاب اپنے سروں کے اوپر پہنیں جس کلر اور رنگ کا ان کے اسکول ڈریس کوڈ کی قمیس ہو—– اس طرح سے اسکول ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی بھی نہی ہوگی اور مسلم بچیوں کی پریشانی بھی حل ہوجائے گی ۔

(4) دس سال سے اوپر والی عمر کی مسلم بچی چونکہ اسلامک لاء کے مطابق وہ بالغ ہوتی ہیں اور ان کے لئے پردہ کرنا پورا حجاب کرنا ضروری ہے اسلئے ان کو پورا حجاب کرنے کی اجازت ہوگی ساتھ ہی ساتھ انٹر تک چونکہ اسکول میں ایک ڈریس کوڈ ہوتاہے اسلئے وہ بالغ مسلم بچیاں اپنے سروں پر اوڑھنی کے طور پر اس اسکول ڈریس کی قمیس والے رنگ کا دوپٹہ اپنے اپنے سروں پر باندھ کر آئیں ۔۔۔۔۔۔ اس طرح کے عمل اور فکر سے سارا تنازعہ ختم ہوجائے گا ۔ انشاء اللہ

 

(5) چیف جسٹس بہت سے فیملی اور خاندانی معاملات کے مقدمہ کی طرح اس مقدمہ میں بھی یہ کہ سکتے تھے کہ ہندو مسلم دونوں ایک ساتھ ایک فیملی کی طرح رہتے ہیں اور ایک ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے درمیان کا معاملہ ہے اسلئے تم لوگ جاوؤ خود سے ہی آپس میں مل بیٹھ کر پہلے سلجھانے کی کوشش کرو۔۔۔۔۔ اگر معاملہ نہ سلجھے تب ہمارے پاس آنا۔۔۔۔۔ !

 

ظاہر ہیکہ مسلمانوں کو ہندووں سے کوئ نفرت اور پریشانی نہی کہ وہ کیوں بھگوا شال پہن کر آگئے ۔۔۔۔ ان کو اگر اپنے مذہبی چیز پر عمل کرنا ہے تو کرے ہمیں مسلمانوں کو کوئ پریشانی نہی۔۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بھی ہمارے مذھبی لباس پر ہم آہنگی کا مظاہر کریں تاکہ ایک گھر کا جھگڑا گھر میں ہی ختم ہوجائے ۔۔۔۔ لیکن نہی معلوم کہ چیف جسٹس ان سب کے پیچھے کیا سوچ رہے ہیں ۔۔۔۔

Comments are closed.