وہ چڑیا وہ بلبل

 

الطاف جمیل شاہ آفاقی

 

شبنم نےگایانغمہ جو کرنوں کےتار پر

بلبل وہ نغمہ پھول کی ڈالی پہ گاتی ہے

 

وہ بلبل کا کھڑکی پے آکر اپنی صدائے دل بلند کرنا اب جس طرف اس کا منہ دادی دادا کہتے کہ بلبل کہہ رہا ہے مہمان آنے والا ہے جس سمت اس کا منہ اسی سمت کا کوئی مہمان آئے گا مطلب یہ ایک وائرلیس آپریٹر ہوتا تھا ہر گھر کا اور ہمارے بزرگ لوگ اس کی آواز کو اطلاع کے طور پر قبول کرتے تھے اب تو خیر سے موبائل پر ہی اطلاع ملتی ہے کون اور کہاں والا رشتہ دار مہمان بن کر آنے والا ہے اور کیا کھائے گا یہ بھی بتایا جاتا ہے

چڑیا

دوسری طرف وہ چڑیوں کے جھرمٹ ان کے نازک جسم ان کی ننھی سی جان جو سب کو پیاری لگتی تھی اسی ننھی جان کی کئی کہانیاں زبان زد عام ہیں کچھ اچھی تو کچھ ڈراؤنے اور کچھ کہانیوں کے اسباق ایسے کہ آدمی گر سمجھ لے تو اس کی منزل پر رواں دواں سفر میں کام آتی

سنا ہے چڑیا کا جسم گرچہ کمزور ہے ناتواں ہے پر اس کی رگ حمیت بھڑک گئی تو جان بھی جوکھم میں

ڈال دیتی ہے گر اولاد کی بات آئے تو پہاڑ سے بھی ٹکرا جاتی ہے اسے غم نہیں ہوتا پھر اپنی کمزوری کا بس جان لڑا دیتی ہے پرانے زمانے کی ایک کہانی

____________

” ایک چڑیا سمندر کا پانی چونچ میں بھر بھر کے ساحل کی ریت پر ڈال رہی تھی ،

کسی نے اس سے پوچھا کیا کر رہی ہو ؟

چڑیا نے کہا ، اس کی لہروں نے میرا گھونسلہ برباد کر دیا ہے ، جس میں میرے چھوٹے چھوٹے بچے رہتے تھے ، اس لئے اب میں اس ظالم سمندر کو خالی کرکے ہی دم لوں گی ۔

وہ شخص ہنس کر بولا ، پاگل ہوگئی ہو ، کہاں سمندر ؟ اور کہاں تمہاری چونچ ؟

لیکن چڑیا اپنے مضبوط ارادے سے باز نہیں آئی ، اور وہ اپنی چونچ میں پانی بھر بھر کر لاتی اور ریت پر انڈھیلتی رہی ، اور وہ بولی ، جتنا خالی کر سکتی ہوں ، اتنا تو ضرور کروں گی ” یہ کہانی اگرچہ فرضی اور تمیثلی زبان میں ہے ، لیکن اس میں بہت بڑا سبق موجود ہے ، مطلب یہ کہ دشمن کتنا بھی بڑا کیوں نہ ، اگر آدمی کے اندر عزم مصمم ہو ، تو وہ کسی بھی بڑی سے بڑی طاقت سے بھی ٹکرا سکتا ہے اس سے تو سبق یہی ملتا ہے

کچھ اور باتیں

وہ دن کہ صبح نہار منہ ہی ان کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گولتی ان مدھر آواز کا پر سکوں نغمہ کیا ہوا کچھ خبر نہیں میری بچپن کی وہ چڑیوں کا چہکنا ان کا سکوں سے چند دانے چگنا آنا جانا سفر در سفر ان کا اڑنا ان کا بیٹھ جانا جانے کیا ہوا کہاں گئیں وہ کیا ہوئیں وہ کیا ہم نے سوچا ہے کہ ہم نے وہ خوبصورت پرندے کھو دے وہ بلبل کی باتیں اس کی دم کے ساتھ وہ خوبصورت سا کچھ حصہ اور معروف کہانیاں کیا ہوئیں دادی رہی نہیں دادا بھی چلے گئے کیا وہ چڑیا اور بلبل ان کے ہی لئے تھے جو اب کہیں بھی نظر نہیں آتے

کسی نے شاید اسی لئے تو کہا ہے کہ

ہم کیاکریں گےدیکھ کےانسانیت کاخون

 

نازک جگر کو چیر کے اک آہ آتی ہے

واقعی پرندوں کے بنا اب پھیکھا پھیکھا سا لگتا ہے اپنا ماحول کیوں کہ ان کی صداؤں کی عادت سی پڑ گئی تھی نا بچپن میں جب گھر کے بڑے کہتے بیٹا اٹھو سنتے نہیں ہو کیا چڑیاں اٹھ گئیں ہیں اور سنو کیسے تسبیح و تحلیل کر رہی ہیں ہم بھی ان کی تسبیح و تحلیل پر آنکھ موندتے ہوئے اٹھ جاتے اور سامنے ندی کے کنارے جاکر منہ ہاتھ دھو لیتے پر اب تو کچھ بھی سنائی نہیں دیتا لگتا ہے وہ شاید خوف کے مارے انسانوں کی وحشت سے گھبرا کر چلے گئے ہیں سب پرندے اب تو خال خال ہی نظر آتے ہیں کیا آپ بھی ایسا سوچتا ہیں ہم نے اپنے ماحول کو برباد کردیا ہے اور اب اس کی بربادیوں کا الزام دوسروں کے سر تھوپ رہے ہیں

Comments are closed.