حجاب قرآن و حدیث اور تاریخ کے آئینے میں۔

 

 

تحریر: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی

 

 

اسلام سے پہلے عورتوں کی حالت:

اسلام سے پہلے زمانے جاہلیت میں عورت کو معاشرے میں جو حیثیت دی جاتی تھی اور جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، وہ کسی سے مخفی نہیں یہ طبقہ ان طبقات میں سے تھا جو انتہائی مظلوم اور ستم رسیدہ تھا، اس وقت پوری دنیا کی عورتوں کی حالت نہایت زار اور ابتر تھی، اسے کسی قسم کا حق و اختیار حاصل نہیں تھا۔عورت نہایت ذلیل سمجھی جاتی تھی، اس کی حیثیت گھریلو اشیاء سے زیادہ نہیں تھی، چوپاؤں کی طرح اس کی خرید وفروخت ہوتی تھی۔ باپ کے لیے بیٹی کا قتل اور زندہ دفن کر دینا صرف جائز ہی نہیں بلکہ باپ کے لیے اس کو باعث فخر اور عزت و شرافت سمجھا جاتا تھا، عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا، بیوہ عورت پرمتوفیٰ شوہر کا رشتہ دار اپنی چادر ڈال دیتا تھا، عورت خوش ہو نا خوش وہ چادر والے کی بیوی بن جاتی تھی۔ سوتیلے بیٹے بھی اپنی سوتیلی ماؤں پر اسی طرح قابض ہو جایا کرتے تھے۔ عورتیں بے حجاب مجمع عام میں نکلا کرتی تھیں اور اپنے جسم کا مخفی سے مخفی حصہ عوام الناس کو دکھانے میں شرم محسوس نہیں کرتی تھیں۔ ان کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کی سعی نہ کی جاتی تھی، جاہلیت کے اسی دور کے سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی ترجمہ: ’’اور اپنی (مملوکہ) لونڈیوں کو زنا کرانے پر مجبور مت کرو (اور بالخصوص) جب وہ پاک دامن رہنا چاہیں محض اس لئے کہ دنیاوی زندگی سے کچھ فائدہ (یعنی مال) تم کو حاصل ہوجائے۔‘‘

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کی حیثیت ان کی نظروں میں کیا تھی اور کیسے افعال پر اس کو مجبور کیا جاتا تھا، صحیح بخاری کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کی عورتیں گروی بھی رکھی جاتی تھیں، جیسا کہ محمد ابن مسلمہ فرماتے ہیں کہ جب میں کعب ابن اشرف کے پاس گیا کیا اور غلہ قرض دینے کی درخواست کی تو اس نے کہا: ہاں”اپنی عورتوں کو میرے پاس رکھ دو” اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کتنی مظلوم تھی اور اس کی عصمت کس قدر پامال کی جاتی تھی۔

 

اسلام میں عورت کا مقام:

انہیں ظلم زدہ گھٹاٹوپ اندھیری میں جب اسلام کا آفتاب طلوع ہوا تو عورتوں کو ان کے حقوق دیے گئے اور افراط تفریط ختم ہوئی اور جس کا جو حق تھا اس کو دیا گیا اور حضور اکرم ﷺ نے عورتوں کو ظلم سے نکالنے کی خصوصی جدوجہد فرمائی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطاب فرمایا: اس وقت بھی اس طرف خاص توجہ دلائی،بلکہ آخر وقت تک اس سلسلے میں فکر مند رہے ۔ یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام نے سماج میں عورت کو عزت و احترام کا مقام دیا، اس کو خاندان کا ملکہ بنایا، اس کی مستقل شخصیت کو تسلیم کیا اور انسانی حقوق میں مرد کے برابر درجہ دیا۔

 

اسلام میں عورت کی عفت کا تصور:

اللہ پاک کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ شہوت کے استعمال کا جائز طریقہ نکاح بتایا، تا کہ اس کے ذریعہ شہوت کی آگ کو ٹھنڈی کیا جاسکے اور ہر قسم کے نامناسب اور گناہ کے کاموں سے بچا جا سکے ، بلا شبہ نکاح سے ہی انسان شہوت کو جائز طریقے سے پورا کر سکتا ہے اور عفت جیسی صفت سے متصف ہو سکتا ہے۔ اسی عفت کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے ان الفاظ کو قرآن میں محفوظ کر دیا جن الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے بیعت لیتے تھے کہ وہ بدکاری نہ کریں گی، چنانچہ فرمایا:ولایزنیین ولایقتلن اولادھن الخ (الممتحنہ:١٢) اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ بچوں کو قتل کریں گی اور نہ بہتان کی اولاد لاوینگی۔”( بیان القرآن) اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی احادیث طیبہ میں عفت و عصمت سے متعلق اسلام کے نقطہ نظر کو بیان فرمایا اور بدکاری کے نقصانات سے امت کو آگاہ فرمایا اور کثرت اموات کا سبب زناکو بتایا، چنانچہ ایک حدیث میں منجملہ اور باتوں کے یہ بھی فرمایا:کسی قوم میں زنا کے عام ہونے کی وجہ سے موت کی کثرت ہو جاتی ہے۔‘‘(مؤطا امام مالک) اسی طرح فاحشہ کے پھیلنے کو طاعون اور مختلف بیماریوں کا باعث بتلایا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس قوم میں زناکاری پھیل جاتی ہے اور بلا روک ٹوک ہونے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو طاعون کی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے اور ایسے دکھ درد میں مبتلا کردیتا ہے جس سے ان کے اسلاف نا آشنا تھے۔ (سنن ابن ماجہ)

حجاب میں وقار ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل بھی تھا۔ آپؐ نے ہر طریقہ سے فضائل کی دعوت دی۔ رذائل و برے اخلاق بیخ و بن سے اکھاڑا اور لوگوں کو ان رذائل سے بچنے کی ہر ممکن طریقہ سے تلقین فرمائی۔ اس طرح شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ہر لحاظ سے کامل ہو کر سامنے آئی۔ اب وہ اپنی تکمیل و تربیت کے لئے مخلوق کی جانب سے کسی کاوش و کوشش کی محتاج نہیں کیونکہ دانا و خبیر رب کی جانب سے نازل کردہ شریعت ہے جو اپنے بندوں کی اصلاح کے طریقوں سے خوب باخبر اور ان کے لئے بے پایاں رحمت والا ہے۔

رسول اکرم ﷺ کو جن اعلیٰ اخلاق کے ساتھ مبعوث کیا گیا ان میں سے ایک نہایت بلند مرتبہ گراں قدر خلق حیا ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کا جز اور اس کی شاخوں میں سے ایک اہم شاخ قرار دیا۔ کوئی عقلمند اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ عورت باوقار ایسے عادات و اطوار کے ساتھ رہنا جو اسے مشکوک مقامات اور فتنوں سے دور رکھیں، اس حیا کا حصہ ہے جس کا عورت کو اسلامی شریعت اور اسلامی معاشرے میں حکم دیا گیا ہے۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش بھی نہیں کہ عورت کا اپنے چہرہ اور جسم کے دیگر پرکشش مقامات کو ڈھانپ کر باپردہ رہنا ہی اس کے لئے سب سے بڑا وقار ہے، جس سے وہ اپنے آپ کو آراستہ کر سکتی ہے۔

 

حجاب قرآن کی روشنی میں:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّ۔ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِھِنَّ اَوْاٰبَآئِھِنَّ اَوْ اٰبَآئِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اَبْنَآئِھِنَّ اَوْ اَبْنَآئِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوَاتِہِنَّ اَوْنِسَآئِھِنَّ اَوْمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ اَوِالتَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْھَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ۔ وَلَایَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ۔ وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔

(النور ۲۴/۳۱)

’’اے پیغمبر ﷺ! مؤمن عورتوں سے کہہ دیجیے وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا سنگار کسی پر ظاہر نہ کیا کریں۔ اس کے جو ازخود (بغیر ان کے اختیار کے) کھلا رہتا ہے اور سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں۔ اپنے خاوند، باپ، خسر، بیٹوں، شوہر کے بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اپنی ہی قسم کی عورتوں اور اپنے غلاموں کے سوا نیز ان سے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھتے ہوں یا ایسے بچوں جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں غرض ان لوگوں کے سوا کسی پر اپنی زینت اور سنگار کے مقامات کو ظاہر نہ ہونے دیں) اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں کہ (جھنکار کی آواز کانوں تک پہنچ جائے) اور ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے مؤمنو! سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

اللہ رب العزت نے مؤمن عورتوں کو اپنی عصمت کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور عصمت کی حفاظت کا حکم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تمام وسائل و ذرائع اختیار کئے جائیں جو اس مقصد کے حصول میں مددگار ہوسکتے ہیں اور ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ چہرہ کھلا رکھنا غیر محرم مردوں کے لئے اس کی طرف دیکھنے کا ذریعہ بنتا ہے اور مردوں کو اس کے خد و خال کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ جس سے بات، میل ملاقات بلکہ ناجائز تعلقات تک جا پہنچتی ہے۔حدیث میں ہے ’’العینان تزنیان و زناہما النظر (مسند احمد: ۲/۲۴۳) آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں، ان کا زنا (ناجائز) دیکھنا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے زنا کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں فرمایا: والفرج یصدق ذالک او یکذبہ (مسند احمد)شرمگاہ اس کی تصدیق کر دیتی ہے یا تکذیب۔ لہٰذا جب چہرے کا پردہ حفظ ناموس و عصمت ذریعہ ٹھہرا تو وہ بھی اسی طرح فرض ہوگا جس طرح کہ حفظ ناموس و عصمت فرض ہے۔ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: ولِیَضْرِبن بخمرہن علیٰ جیوبہن۔ (النور ۲۴/ ۳۱)اور اپنے گریبانوں پر دوپٹے ڈال کر رکھیں۔‘‘ خمار (جس کی جمع خمر ہے) اس کو کہتے ہیں جسے عورت اپنا سر ڈھانپنے کے لئے اوڑھتی ہے۔ مثلاً برقع اور نقاب وغیرہ بلا شبہ پردے کے حکم کا دار و مدار اور اس کے واجب ہونے کی علت عورت کی طرف دیکھ کر (مردوں کا) فتنے میں مبتلا اور وارفتگی کا شکار ہو جانے کا اندیشہ ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ چہرہ تمام حسن کا مرکز اور فتنہ کا مقام ہوتا ہے۔

فرمان باری تعالیٰ ہے: وَلَایَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ۔ وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنََّ۔(النور) اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں کہ (جھنکار کی آواز کانوں تک پہنچ جائے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے۔‘‘

ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْھِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍ بِزِیْنَۃٍ وَ اَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لََّھُنَّ۔ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ اور بڑی عمر کی عورتیں جن کو نکاح کو نکاح کی توقع نہیں رہی وہ اگر چادر اتار دیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ اپنی زینت کا مظاہرہ نہ کرتی پھریں اور اگر اس سے بھی بچیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ٰٓیاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ۔ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَ یُؤْذَیْنَ۔ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔ (الاحزاب ۳۳؍۹) ’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ باہر نکلا کریں تو اپنے اوپر چادر لٹکا لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے۔‘‘ ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلم عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لئے اپنے گھروں سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادر لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کریں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ ’’جلباب‘‘ اس چادر کو کہتے ہیں جو دوپٹہ کے اوپر سے عبا (گاؤن) کی طرح اوڑھی یا پہنی جاتی ہے۔ حضرت ام سلمہؓ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصاری خواتین گھروں سے نکلتے وقت اس سکون و اطمینان سے چلتیں گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور انہوں نے سیاہ رنگ کی چادریں لپیٹ رکھی ہوتیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے شاگرد عبیدہ کا بیان ہے کہ مسلمان عورتیں سروں کے اوپر سے چادریں اس طرح اوڑھا کرتی تھیں کہ آنکھوں کے سوا کچھ ظاہر نہ ہوتا۔

 

پردے کا اہتمام:

انسان کی فطرت میں اللہ تعالی نے حیا کا مادہ رکھا ہے انسان مرد ہو یا عورت اپنے جسم کے کچھ حصوں کو دوسروں سے چھپانا چاہتاہے اور لوگوں کے سامنے ان کا ظاہر ہونا اسے گوارا نہیں ہوتا انسان کی فطرت اور اس کی وہ خصوصیت ہے جو دوسرے حیوانات سے اسے ممتاز کرتی ہے۔ عورتوں کی جسمانی ساخت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ اس میں جنسی کشش مردوں سے زیادہ ہے، اس لئے انہیں مردوں سے زیادہ پردہ پوشی کی ضرورت ہے تاکہ ان کا حسن و جمال اور صنفی کشش مردوں کے لیے ملک اور سماج کے لیے فتنہ و فساد کا باعث نہ بنے، اس لئے لباس و پوشاک میں بھی عورتوں کو مردوں سے زیادہ پردہ پوشی اور محتاط رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا، مردوں کا قابل عزت نفس حصہ ناف سے گھٹنوں تک ہے جس کا چھپانا ان کے لیے ضروری ہے جسم کے باقی حصے کو چھپانا زیب و زینت کے دائرے میں آتا ہے تو شرعاً مطلوب تو ہے لیکن واجب نہیں ہے، لیکن عورت کا پورا جسم عورت اور قابل ستر ہے سوائے چہرے اور دونوں گٹوں اور دونوں قدموں کے جن کا چھپانا تمام مردوں سے حتی کہ اپنے محرم رشتہ داروں سے بھی ضروری ہے اس میں صرف شوہر کا استثنیٰ ہےاور جسم کا جو حصہ ستر میں داخل ہے ان کا کھولنا کسی کے سامنے جائز نہیں خواہ صنف مخالف ہو یا موافق، لہذا مرد کا مرد کے سامنے عورت کا عورت کے سامنے بھی ستر کھولنا جائز نہیں۔

عورتوں کے پردے کا بیان قرآن پاک کی سات آیات میں آیا ہے اور ستر سے زیادہ احادیث میں قولاً وعملاً پردے کے احکام بتائے گئے ہیں، اتنی کثرت سے پردہ کے بارے میں احادیث کا وارد ہونا اس کی اہمیت پر بین دلیل ہے،پھر صحابیات کے نزدیک پردے کی اس قدر اہمیت تھی کہ کسی موقع پر بے پردہ رہنا گوارا نہ کرتی تھیں، ایک صحابیہ کا واقعہ آتا ہے کہ راستہ سے جا رہی تھیں، پردے کے حکم کی خبر سنی تو وہیں کنارے بیٹھ گئیں اور چادر منگوائی،پھر چادر اوڑھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئیں۔ اسی طرح ایک دفعہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں جارہے تھے آپ ﷺ کے ساتھ اونٹنی پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں اچانک اونٹنی کا پاؤں پھسل گیا اور آپ دونوں زمین پر گر پڑے ، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ ﷺ سے آکر پوچھا ’’چوٹ تو نہیں لگی؟‘‘ فرمایا: ’’نہیں!‘ تم پہلے صفیہ کو دیکھو۔ یہ سن کر ’’ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلے تو اپنے چہرے پر کپڑا ڈالا پھر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس پہنچے اور قریب پہنچ کر ان کے اوپر کپڑا ڈال کر ان کو چھپا کر پوچھا، اس کے بعد وہ کھڑی ہوئیں اور پھر ان کو سوار کیا۔ (صحیح بخاری جلد٢) اس حدیث سے پردہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پردہ اتناضروری ہے کہ ایسی حالت میں بھی حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پردہ کا اہتمام فرمایا۔

سنن ابو داؤد کی ایک روایت میں آپ ﷺ نے عورتوں کو ایک کنارے میں چلنے کا حکم صادر فرمایا اور ایک مرد کو دو عورتوں کے درمیان چلنے سے منع فرمایا، معلوم ہوا کہ پردہ شریعت میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

پردے سے متعلق قرآن و حدیث میں تفصیل سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں،چنانچہ پردہ سے متعلق سب سے پہلی آیت سن پانچ ہجری میں نازل ہوئی، جس میں غیر محرم عورت کی طرف بری نیت سے دیکھنا تحریماً اور بغیر کسی نیت کے دیکھنا کراہتاً داخل ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قل للمومنین یغضوا من ابصارھم۔‘‘(النور٣٠) ’’آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘( بیان القرآن)

احادیث میں بھی اس موضوع سے متعلق تفصیلی احکام موجود ہیں کہ اگر بلا ارادہ اچانک کسی غیر محرم پر نظر پڑ جائے تو اپنی نظر کو پھیرنے کا حکم دیا گیااور یہ بھی بتایا گیاکہ پہلی نظر جو بلا ارادہ اچانک پڑ جائے تو اپنی نظر کو نیچی کرنے کا حکم دیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ پہلی نظر جو بلا ارادہ پڑ جائے وہ تو غیر اختیاری ہونے کےسبب معاف ہے، ورنہ بالقصد پہلی نظر بھی معاف نہیں۔

عورت کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں ہے کہ سرے بازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھاتی پھرے، حسن وجمال کا تمام تر دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرہ پر ختم ہے۔ اس لیے شریعت نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قرار دیا، عورت کیلئے پردہ کا جو حکم ہے اس میں چہرہ بھی داخل ہے، اصل حکم ڈھاکنے کا ہی کا ہے اور زینت میں عورت کے عمدہ کپڑے یا زیور جسے وہ پہنے ہو وہ بھی داخل ہے اور ظاہر ہے کہ چہرہ اور دوسرے مواقع زینت اور سامان زینت کپڑے زیور وغیرہ کا پردہ،برقع اور اس کے مثل کسی دوسرے کپڑے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے، اس لئے مسلمان عورتوں کے لیے پردہ کی فرضیت پورا کرنے کے لیے برقع یا اس جیسا حجاب کے تقاضہ کو پورا کرنے والا کوئی کپڑا پہننا واجب و ضروری ہے۔

قرآن کریم کے ذریعے عورت کویہ حکم ملا ہے کہ وہ اپنے گھر میں رہے اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے اور اگر کسی ضرورت سے باہر نکلے تو اس کو یہ حکم ہے کہ برقع یا چادر سے ہیں اور اپنے چہرہکو ڈھانپ لے، البتہ دو صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ایک یہ کہ چہرہ کھولنے کی ایسی ضرورت ہوکہ چہرہ ڈھانکنے میں نقصان ہوتا ہے۔ جیسے بھیڑ میں چلنے کے دوران یا کسی دوسری ضرورتوں کے وقت مثلاً گواہی وغیرہ دیتے وقت۔

دوسری صورت یہ ہے کہ کسب اور عمل کے وقت بلا قصد اس کا چہرہ کھل جاتا ہو کہ ضرورت کے تقاضے سے چہرہ کھل جانے کی گنجائش ہے،البتہ دونوں صورتوں میں مردوں کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ مذکورہ حکم یعنی چہرہ اور ہتھیلیوں کو چھپانا نوجوان اور میانہ عمر کی عورتوں کے لئے ہے؛ کیونکہ بوڑھی عورتوں کے حق میں کچھ تخفیف اس باب میں دوسری آیت میں دی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت سراپا ستر (پردہ) ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے۔ (ترمذی) حجاب (پردہ) اجنبی (نا محرم) مردوں سے ہوتا ہے جس میں زینت کی چیزوں کو چھپانا بھی فرض ہے۔

متعدد احادیث میں وارد ہے کہ عورتوں کے باریک لباس پہننے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نا پسندیدگی ظاہر فرمائی اور نظر پھیرلی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہا نے ایک مرتبہ باریک لباس پہن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں جس سے ان کا جسم نظر آرہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سے رخ پھیر لیا اور فرمایا اسماء عورت جب بالغ ہو جائے تو مناسب نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ دکھائی دے، سوائے اس کے اور اس کے یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کیا۔ (ابو داود)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی دی حضرت حفصہ بنت عبدالرحمن ان کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان کے جسم پر باریک دوپٹہ تھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے پھاڑ دیا اور ایک موٹا دوپٹہ انہیں اوڑھا دیا۔ (مؤطا امام مالک)

حدیث پاک میں ہے کہ جو شخص کسی اجنبی عورت کے محاسن پر شہوت کی نگاہ ڈالے گا قیامت کے دن اس کی آنکھوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ (فتح القدیر)

اور اچانک نگاہ پڑنے پر اگر کوئی اپنی نگاہ پھیرلے تو اس کے بارے میں حدیث میں اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا اور بشارت سنائی گئی، ارشاد نبوی ہے:

جس مسلمان مرد کی نگاہ کسی عورت کے محاسن پر پڑے اور وہ نگاہ پھیر لے تو اللہ تعالی اس کے بدلے اس کی عبادت میں لطف اور لذت و حلاوت پیدا کر دیتا ہے (مسند احمد)

ایک دوسری حدیث قدسی میں فرمایا گیا:

نظر ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں اس کے بدلے اسے ایمان عطا کروں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ (طبرانی)

جس طرح مردوں کو اجنبی عورتوں سے نظر بچانے کا حکم دیا گیا اسی طرح عورتوں کو بھی غیر محرم مردوں سے نکاح محفوظ رکھنے کا حکم دیا گیا چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کو ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے پردہ کرنے کا حکم دیا، جب حضرت ام سلمہ نے عرض کیا کہ وہ تو نابینا ہیں وہ ہمیں نہیں دیکھتے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم تو نابینا نہیں ہو تم تو ان کو دیکھ رہی ہو۔ (ابوداؤد، ترمذی)

 

حجاب کے فوائد:

اسلام نے جس پردہ کا حکم دیا ہے اس کا مقصد مردوں عورتوں کے اخلاق اور ان کی عفت و عصمت کی حفاظت اور ملک و معاشرہ کو فحاشی و بے حیائی اور جنسی بے راہ روی سے بچانا ہے، قدرت نے دونوں صنفوں میں جنسی خواہش رکھی ہے اسے لگام لگانا اور کنٹرول کرنا پردہ کے بغیر ممکن نہیں۔ جنسی خواہش کا مشتعل ہونا اور بدکاری و بے حیائی کا عام ہونا ملک اور سماج کے لیے تباہ کن ہے۔ اگر پردہ کی پابندی ختم کر دی جائے اور عورتوں کو مردوں کی صف میں لا کھڑا کیا جائے اور دونوں صنفوں کو زندگی کے تمام شعبوں میں کام کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں تو اس کے نتیجے میں مرد و زن کا آزادانہ اختلاط صنفی رجحانات کو برانگیختہ کرنے کا ذریعہ ہوگا۔ سماج میں صنفی انارکی پھیلے گی، انسانی معاشرہ ہر وقت جنسی ہیجان کا شکار ہے رہے گا، جبکہ ملک معاشرہ کی تعمیر اور مثالیں تمدنی خدمات انجام دینے کے لئے پرسکون ماحول، ذہنی اطمینان اور نفسیاتی دل جمعی ضروری ہے اور شہوانی ماحول انسان کی صحت اور تعمیری خدمات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

ایمان کے بعد جو سب سے پہلا فرض ہے ستر عورت ہے اور یہ تمام انبیاء کی شریعتوں میں فرض رہا ہے، بلکہ شرائع کے وجود سے پہلے جنت میں شجر ممنوعہ کھالینے کے سبب حضرت آدم علیہ السلام کا جنتی لباس اتر گیا تو وہاں بھی انہوں نے ستر کھلا رکھنے کو جائز نہیں سمجھا، اس لیے آدم و حوّا دونوں نے جنت کے پتے اپنے ستر پر باندھ لیے جس کو قرآن نے یوں تعبیر فرمایا: وطفقا یخصفان علیھمامن ورق الجنۃ (الاعراف:٢٢) دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کے رکھتے گئے (بیان القرآن) حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کے واقعہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اتنی بات صلحا شرفا میں ہمیشہ رہی ہے کہ اجنبی مردوں کے ساتھ عورتوں کا اختلاط نہ ہو اس لئےکہ جب وہ دو لڑکیاں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے گئیں تو ہجوم کی وجہ سے ایک طرف الگ کھڑی ہو گئیں اور پوچھنے پر وجہ یہی بتائی کہ مردوں کا ہجوم ہے،ہم اپنے جانوروں کو پانی اسی وقت پلائیں گے جب یہ لوگ فارغ ہوکر چلے جائیں گے۔

 

حیا ہی عورت کا اصل زیور ہے:

حیا و پاکدامنی کا بدلہ جنت ہے، کام تھوڑا ہے مگر انعام بڑا ہے۔ جو لوگ دنیا میں حیا اور پاکدامنی کا اہتمام کرتے ہیں اور نفسانی، شیطانی اور شہوانی خواہشات سے دور رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت میں ان گنت انعام سے نوازتا ہے، دنیا میں عزت اور آخرت میں مغفرت عطا کرتا ہے۔

بیگم بھوپال کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ بھوپال میں سخت قحط پڑا تو بیگم والیٔ بھوپال نے اعلان کرایا کے میدان میں سبھی مسلمان نماز استسقاء کے لیے جمع ہوں بعد ازاں بارش کے لیے اجتماعی دعا کریں تاکہ قحط سالی ختم ہو اور انسان، حیوان، پرندے وغیرہ سکون کا سانس لیں۔ ملکہ کے فرمان پر مسلم و غیر مسلم شہر سے باہر میدان میں جمع ہو گئے غیر مسلم تو صرف اس لئے کہ مسلمانوں کا خدا دیکھیے کیسے بارش دیتا ہے، حالانکہ وہ تو سب کا خدا ہے پروردگار اور پالنہار، خالق و رازق ہے، مگر وہ اپنے نظریہ کے مطابق تماشہ دیکھنے آئے تھے، کہ اگر بارش نہ ہوئی تو ان کا مذاق اڑائیں گے۔ مسلمانوں نے نماز استسقا ادا کی۔ دعا مانگی، مگر بارش تو کجا بادل کا نشان تک دکھائی نہ دیا۔ ہندو عیسائی، مشرک طعنہ زنی پر اتر آئے ملکہ بھوپال کی غیرت و حمیت بیدار ہوئی اور حکم دیا کہ اسی میدان میں خیمہ نصب کیا جائے اور یہ بات ملحوظ رہے کہ کسی آدمی کی نظر خیمے کے اندر کچھ بھی نہ دیکھ سکے۔

خدام نے خیمہ نصب کر کے اطلاع دی، بیگم والی بھوپال چند خواتین کو بڑے اہتمام اور نہایت احتیاط کے ساتھ پردہ کیے ہوئیں خیمہ میں آکر نماز ادا کرنے لگیں، دو رکعت کے بعد عورتوں کے ساتھ ملکہ نے خیمے کے اندر جس میں کسی آدمی کی نظر نہیں جا سکتی تھی اپنے سر سے یہ کہتے ہوئے دوپٹہ کو آہستہ آہستہ سرکانہ شروع کیا کہ! الہی! تو جانتا ہے کہ میں نے تیرے حبیب نبی کریم ﷺ کی شریعت پر عمل کرنے میں آج تک کوتاہی نہیں کی اور میں نے پردے کا اس حد تک اہتمام کیا ہے کہ میرے سر کے بالوں پرآج تک کسی غیر محرم کی نگاہ نہیں پڑی اگر میں اس عمل میں سچی ہوں تو اپنے دین اسلام کی عزت وعظمت کے لیے بارش عطا فرما دے تاکہ غیر مسلم طعنہ نہ دیں کہ مسلمانوں کا خدا کوئی نہیں۔

بس پھر کیا تھا اس اللہ کی بندی کی فریاد نے قبولیت کا جامہ پہنا،ابھی لوگ اپنے اپنے گھر تک جانے نہ پائے تھے کہ گھنگھور گھٹائیں پرلے باندھے امنڈآئیں اور خوب بارش ہوئی، یہاں تک کہ ہر طرف مسرت وشادمانی کی لہر دوڑ گئی۔

ملک زبیدہ ہارون رشید کی زوجہ محترمہ کے متعلق اہل سیر نے لکھا ہے کہ انہوں نے محض اس بات کو لے کر اپنے سر کے بال کٹوا دیئے کہ بے خبری میں کسی خادم نے برہنہ سر دیکھ لیا تھا۔ ملکہ زبیدہ نے کہا کہ ہمیں اس چیز کا اپنے بدن پر باقی رکھنا گوارا نہیں جس پر ایک نامحرم کی نظر پڑ چکی ہے۔

سنن ابو داؤد کتاب الجھاد میں ہے کہ حضرت ام خلاد رضی اللہ عنہا کا صاحبزادہ ایک جہاد کے موقع پر شہید ہوگیا تھاوہ چہرہ پر نقاب ڈالے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ان کا یہ حال دیکھ کر کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم اپنے بیٹے کا حال معلوم کرنے کے لئے آئی ہو اور نقاب ڈالے ہوئے ہو؟ حضرت ام خلاد رضی اللہ عنہا نے جواب دیا اگر اپنے بیٹے کے بارے میں مصیبت زدہ ہوگئی ہوں تو اپنی شرم حیا کھو کر ہرگز مصیبت زدہ نہ بنوں گی ۔ (یعنی حیا کاچلا جانا ایسی مصیبت زدہ کر دینے والی چیز ہے جیسے بیٹےکا ختم ہو جانا) (سنن ابوداؤد: جلد 1 صفحہ 336)

 

(مضمون نگار نوجوانان آب حیات ایجوکیشنل، سوشل ویلفیئر کمیٹی بی ایچ ای ایل بھوپال، ایم پی کے صدر ہیں۔

رابطہ: 9826268925)

Comments are closed.